حجاب کے نام

شرکاء

ادب اور انسان و معاشرہ

علم و ادب اور اردو کی خدمت دامے، درمے، سخنے ہونی چاہیے۔ حسبِ استطاعت و صلاحیت، اس کے فروغ میں لوگ ساتھ دیں تاکہ یہ کارواں ہمیشہ گامزن رہے۔ میں نے بھی چند رسالوں کی ادارت کی ہے، یہ کام کافی محنت طلب ہے۔ مضامین کا انتخاب اور نوک پلک سنوارنے سے لے کر ان کی ترتیب، پروف ریڈنگ، چھپائی اور قارئین تک پہنچانے کا کام ایک مضبوط ارادے کا شخص ہی کرسکتا ہے۔ کسی بھی کام کے پیچھے اچھا مقصد اورنیک ارادہ کارفرما ہو تو اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی شاملِ حال ہوجاتی ہے۔ آپ جس پرخلوص طریقے سے حجاب کے ذریعے سماجی خدمت، اسلامی معاشرہ اور سماج کی تعمیر و تشکیل کے لیے کوشاں ہیں قابلِ ستائش ہے۔ دعا ہے کہ اللہ آپ کو ہر مرحلہ میں کامران کرے۔

انسان کی پہچان اس کے شعور کے ذریعے ہوتی ہے۔ ادب، آدمی کو انسان بناتا ہے، ادب سے مبرّہ قوم جہالت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے، لہٰذا شعور سے عاری قوم عدم (ختم) ہے۔ کسی بھی قوم کی فنا و بقا اس کی زبان کی فنا و بقا پر منحصر ہے۔ زندہ قوم اپنی ثقافت، ادب اور زبان کی حفاظت کرتی ہے اور آنے والی نسلوں تک ان کو پہنچاتی رہتی ہے۔ لکھنے کا عمل انسان کو ممتاز کرتا ہے اور لکھنے کے ذریعے بھی قوم پہچانی جاتی ہے۔ منفی خیالات کو ترک کرکے مثبت نظریات کی ترویج اور باہمی تعلق پیدا کرنا ہی ترقی کا ضامن ہے۔ اسلامی اقدار کو سمجھنا، ان پر عمل کرنا، ان پر قائم رہنا اور ان کو دوسروں تک پہنچانے سے بڑھ کر کیا اہم کام ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حجابِ اسلامی کا کام کا فی مستحسن ہے۔

اب وقت کی اہم ضرورت اردو کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانا ہے۔ ان میں اردو کے لیے محبت اور ادبی ذوق پیدا کرنا ہے۔ قارئین کی تعداد بڑھانا ہے، اخبارات و رسائل اور کتب کی اشاعت میں توسیع ہونی ہے، اس کے لیے اردو کے مدارس، انجمنیں اور ادارے ایک پنج سالہ منصوبہ بنائیں اور اس کی کامیابی کے لیے جدوجہد کریں۔ ہر شخص ایک فرد کو اردو کا قاری بنائے۔ امید ہے اس کے بہت ہی اچھے نتائج ظاہر ہوں گے۔دنیا میں ایک کامیاب قوم ابھرے گی اور ایک خوشگوار معاشرہ وجود میں آئے گا اور اردو کا گلستاں آباد رہے گا۔

مزید تین افسانے، راکھ، جوڑ اور گڈّا ارسال خدمت ہیں۔ انہیں فائل میں محفوظ کرلیجیے اور حسبِ معمول شاملِ اشاعت کردیں۔ عورت پیکر احساس و ایثار و قربانی ہوا کرتی ہے۔ اس کا اظہار ’راکھ‘ میں ہوا ہے۔ خاندان کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ایک دوسرے پر اعتماد ضروری ہے۔ شک کی دیوار توڑ دی جائے اور رشتوں کی ڈور مضبوط بنانے کے لیے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا جائے، اس کی عکاسی ’جوڑ‘ میں ملے گی۔

مادہ پرستی پر مبنی نظام نے انسان کو ایک قابلِ فروخت شئے میں تبدیل کردیا ہے۔ اور اسے خریدا اور بیچا جاسکتا ہے۔ کئی گھروں میں شادیوں کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اگر انسان، انسانیت کا دامن تھام کر ایک خوشگوار معاشرہ تعمیر کرے گا تو ’گڈا‘ کی سائرہ اور شکیلہ کی زندگیاں سوالیہ نشان نہیں بنتیں۔ امید ہے یہ افسانہ سخت سے سخت دل کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔

پروفیسر انور کمال، اسلامیہ کالج، وانم باڑی

اچھے افسانہ نگاروں کو جمع کریں!

جولائی کا حجابِ اسلامی خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ سامنے ہے۔ شروع سے آخر تک پڑھ لیا ہے۔ ’بیٹی کو کامیاب عورت کیسے بنائیں‘، ’ترقی کے ثمرات اور خواتین‘، ’سماجی فعالیت کی ایک مثال‘، ’زندگی کا لطف‘، ’زہریلی اشیاء سے بچوں کا تحفظ‘ مضامین ایسے ہیں جو حجابِ اسلامی کو منفرد شناخت عطاء کرتے ہیں۔ ’شخصیت کا ارتقاء‘، ’موسمی تحریر‘ اور ’بیوٹی ٹپس‘ پر دیے گئے مضامین مفید اور معلوماتی ہیں۔ افسانوں کا گوشہ اب بہتر ہورہا ہے۔ اس شمارے میں انور کمال صاحب کا افسانہ نظر نہیں آیا۔ ان کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اچھے اور صاحب فکر و قلم انسان ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اچھے افسانہ نگاروں کو حجاب کے ذریعہ جمع کرنے کی کوشش کریں۔ بہت سے افسانہ نگاراور قلم کار حضرات محض اس لیے لکھنے میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کی تخلیقات کی اشاعت کے لیے مناسب رسائل دستیاب نہیں ہیں۔ آپ کا رسالہ باوقار انداز رکھتا ہے اور خاصا معیاری ہے، اس لیے یہ کام آپ بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ رسالہ اردو داں طبقہ میں مقبولِ عام ہو۔ آپ نے جوتعداد اشاعت بتائی ہے، اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ رسالہ مقبول ہوچکا ہے، اب مزید پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ ورنہ میں تو دیکھتی ہوں کہ اچھے اچھے اردو رسالے دو تین ہزار سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتے۔ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

نفیس بانو، D-164، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی

]ہماری کوشش ہے کہ پرانے اور تجربہ کار قلم کاروں اور افسانہ نگاروں سے بھی ربط کریں اور نئے لکھنے والے بھی تیارکریں۔ کئی افراد ہمیں اس کوشش کے نتیجے میں ملے بھی ہیں۔ اور انشاء اللہ اور ملیں گے۔[

گلیمر کی دنیا اور ستاروں کا حال

جون کا خوبصورت حجاب مل چکا ہے۔ ٹائٹل پسند آیا۔ اداریہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ حجاب کے ایڈیٹر نے پردے کی مخالفت اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بہت اچھی طرح بیان کردیا ہے۔ اب مشرقی عورت کا فرض اور عقل مندی کا عین تقاضا ہے کہ وہ مغربی عورت کے انجام کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے اور خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے۔

میں حجاب پڑھنے والی خواتین کی توجہ اس چمک دمک سے بھرپور اور ’گلیمر کی دنیا کے چمکتے ستاروں‘ کی طرف پھیرنا چاہتی ہوں۔ ابھی حالیہ دنوں میں ایک معروف ’اسٹار‘ خاتون وویکا بابا جی نے خود کشی کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کافی دنوں سے ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار تھیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ سوال نہایت اہم ہے کہ لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جانے والی اور دولت کی ریل پیل سے لطف اندوز ہورہی وویکا جی کو کیا کمی تھی جو وہ ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنی زندگی کو برف کی طرح پگھلا رہی تھیں۔ دراصل اس گلیمر کی دنیا میں خواتین نو عمری سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں آتی ہیں اور یہ گلیمرکی دنیا ان کی عزت و ناموس اور حسن و جمال کو پندرہ بیس سال خوب چوستی ہے۔ اور جب اس میں ’رس‘ باقی نہیں رہتا تو اسے پھینک دیتی ہے۔ یہ اور اس ناکامی کا خوف ہی وہ چیز ہے جو ان کی زندگی کو کھوکھلا کرڈالتا ہے اور وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود خود کو ناکام تصور کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ سب کچھ گنواں کر بھی اگر زندگی میں سکون میسر نہ آیا تو یہ زندگی کس کام کی اور پھر خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہیں۔

اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر خواتین کو سبق لینا چاہیے اور لوگوں کو بھی ان پوشیدہ حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ وویکا سے پہلے خود ہمارے ملک کی کئی بڑی اسٹار خواتین خود کشی کرچکی ہیں۔

صالحہ انور وانی ، سری نگر (کشمیر)

نوٹ:- ۱۱؍جولائی کو ممبئی کی ایک اور معروف ماڈل نے بھی خود کشی کرلی۔ اس کی خود کشی کی خبر ۱۲؍جولائی کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس کا نام تھانتاشا پِدبِدری[

رسالہ پسند آیا

ماہِ جولائی کا حجاب باصرہ نواز ہوا۔ مجموعی طور پر رسالہ پسند آیا۔ ’ترقی کے ثمرات اور خواتین‘ نے تو مغرب کی قلعی کھول دی ۔ ’’بلیچ کریم کا نقصان‘‘ نے یقینا بہت سی خواتین کی آنکھیں کھول دی ہوں گی۔ افسانہ ’’کیمرہ چوک پر رکھا ہوا ہے‘‘ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ سازشی ذہن رکھنے والے دورِ جدید کے فرعونوں نے جس طرح قدرتی وسائل کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور جس طرح حکومتیں بخوشی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہیں یہ دیکھتے ہوئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو بھی اس کے بارے میں باخبر کریں۔ سرمایہ دارانہ استعمار کے نقاب کو جان پر کنز نے بڑی ہی خوبصورتی سے ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ نامی کتاب میں چاک کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اس کتاب کو پڑھیں اور معاشرہ میں اس طرح کی کتابوں پر بحث ہو۔

نثری حصہ تو پسند آیا لیکن کوئی غزل مجھے متاثر نہ کرسکی۔ ایمان افروز نظموں اور غزلوں کو حجابِ اسلامی نے جگہ دے کر آئندہ شمارے میں چارچاند لگادیں۔

آپ سے ایک اور گزارش یہ ہے کہ یا تو قلمی دوستی کا کالم شروع کریں یا پھر مضمون نگار اور خط لکھنے والی بہنوں کے پتے بھی شائع کردیں تاکہ مجھ جیسی لڑکیوں کی خواہش بھی پوری ہوجائے اور حجاب اسلامی محبتوں اور دوستیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی بنے۔ ’’صداقتوں کے پاسبان‘‘ پسند آرہا ہے۔

ارے!! گوشۂ نوبہار میں کچھ کمی لگ رہی ہے۔ یہ مریم باجی کہاں غائب ہوگئیں۔

ملا بصیرت بازغہ ،اپوزٹ قلعہ مسجد،اولڈہبلی

]خط لکھنے والے اور مضمون نگار حضرات و خواتین کے پتے شائع کرنے کے ہم بھی خواہش مند ہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ اکثر لوگ لفافہ تک پر اپنا پتہ درج کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کاغذ پر صرف اپنا نام اور مقام ہی لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ہمیں بھی دشواری ہوتی ہے کہ اگر کسی کام سے ہم ان سے ربط کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرسکتے۔ اس تحریر کے ذریعہ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ مراسلت میں اپنا پورا پرتہ اور موبائل یا فون نمبر ضرور درج کریں۔ ایڈیٹر[

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں