عورتوں کی سماجی صورت حال
ہر ماہ کا حجاب برابر میری نظروں سے گزرتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں چٹ کرجاتی ہوں۔ تمام اصلاحی و دینی مضامین دل کو چھوجاتے ہیں اور دل سے بے اختیار دعائیں نکلنے لگتی ہیں۔
جس دور میں ہم ہم جی رہے ہیں بڑا پرفتن اور پرآشوب دور ہے۔ ہماری ملت کی بہنیں دوراہے پر کھڑی ہیں۔ آج ہمارے گھروں میں نہ سکون ہے نہ آسودگی— اور ہوبھی کیسے؟ کیونکہ ہم نے نماز و قرآن کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اپنے مقصدِ زندگی کو بھلا دیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور یہ کہ ہم کس طرح زندگی گزاریں کہ دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہو۔
ایسے حالات میں حجاب اسلامی نکال کر آپ نے بہت اچھا کام انجام دیا کیونکہ ایسا اصلاحی و دینی رسالہ ان کے اندر زندگی کا شعورپیدا کرے گا اور مسائل حیات کا حل بتائے گا۔ اس طرح اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ہماری یہ باشعور خواتین ملک و ملت کو باشعور اور ذمہ دار نسلیں دے سکیں گی۔
یوں تو آج کل مارکیٹ میں رسائل کی بھر مار ہے مگر افسوس سب گھٹیا اور پراگندہ ذہنیت کے حامل ہیں۔ دوسری طرف ڈش ٹی وی کی رنگینی نے تو معاشرہ میں فکری فساد اور بداخلاقی و عریانیت کا طوفان برپا کررکھا ہے۔ ایسے حالات میں لازم ہے کہ مسلم خواتین کی دینی تربیت اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لیے منصوبہ بند جدوجہدکی جائے اور انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کراتے ہوئے ان کی زندگیوں کا رخ نماز اور قرآنی تعلیمات کی جانب موڑا جائے۔ اسی طرح دینی رسائل، اسلامی کتابوں، مطالعۂ قرآن و حدیث کی طرف انہیں متوجہ کیا جائے۔ میں بہ حیثیت ایک معلمہ کے اپنے اسکول و کالج کی طالبات کے ہاتھوں میں حجاب اسلامی دیکھ رہی ہوں جسے وہ پسند کررہی ہیں اور شوق سے پڑھ رہی ہیں۔ توقع ہے کہ دھیرے دھیرے یہ ان کے ذہن و فکر کو تبدیل کرے گا اور انشاء اللہ ان کی زندگیاں سنوریں گی۔
میں تو اپنی طالبات کو نصابی کتابوں کے علاوہ مذہبی لٹریچر سے بھی آگاہ کرتی ہوں اور توجہ دلاتی ہوں کہ یہ تمہاری دنیا و آخرت کا سرمایۂ حیات ہے اور مقصدِ زندگی سے آگاہ کرنے والا بھی۔ ایسے نازک حالات میں آپ نے حجابِ اسلامی نکال کر اپنی دینی بہنوں کی اصلاح و تربیت کا اچھا ذریعہ پیدا کیا ہے۔ جس کا اجر انشاء اللہ دنیا و آخرت میں آپ کو ضرور ملے گا۔ اللہ کرے اس معاملے میں آپ لوگوں کی راہیں ہمیشہ ہموار رہیں۔ اور حجاب اسلامی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ آمین
امینہ جابری ریشمینہ، مٹ پلّی، ضلع کریم نگر
ایک کمی
ستمبر کا شمارہ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ وقت پر مل گیا۔ ماہنامہ حجاب اسلامی ہمارے حلقہ میں کافی پسند کیا جارہا ہے۔ یہ ایسا رسالہ ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ آپ نے مختلف النوع مضامین سے رسالے کو سجایا ہے۔ اپنی کوشش جاری رکھئے اللہ تعالیٰ ضرور برکت دے گا۔ ’’گھر کا ماحول پرسکون بنائیے‘‘ اور مطالعہ قرآن پر مضامین نہایت مفید معلوم ہوئے۔ رمضان کی آمد پر آپ نے جو تحریریں شامل کی ہیں وہ لوگوں کو اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار کرنے والی ہیں۔ بچوں کا گوشہ بہتر ہے لیکن اسے اور زیادہ مفید اور متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔قاضی جاوید صاحب کا مضمون اچھوتے موضوع پر ہے اور نہایت بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔
البتہ ایک چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ ہے حالاتِ حاضرہ پر سیر حاصل تبصرہ۔ گذشتہ شمارہ میں آپ نے اگرچہ یہ کہا ہے کہ رسالہ سیاسی نہیں ہے۔ لیکن کیا آپ خواتین ملک اور عالمِ اسلام میں جاری تبدیلیوں سے ناواقف رکھنا چاہتے ہیں؟ میرا خیال ہے آپ ایسا نہیں چاہتے۔ اس پہلو کو بھی مستحکم کیجیے اور حالاتِ حاضرہ پر ایک دو مضامین کا اضافہ کیجیے خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں۔
رسالہ ہر اعتبار سے معیاری ہے اور دن بہ دن نکھار آرہا ہے۔
خالد قیصر، ہلدوانی، ضلع نینی تال
ایک خط
کافی دنوں سے بزم حجاب میں شرکت کا سوچ رہی تھی لیکن ہمت نہیں ہوئی۔ بڑی مشکل سے قلم اٹھانے کی ہمت کرپائی ہوں۔ بہر حال اگست کا شمارہ ہاتھ میں ہے۔ ویسے تو اس کے سارے مضامین بے حد اچھے ہیں لیکن عمیر انس صاحب کا ’’غیر ذمہ دار میڈیا اور مسلمان‘‘ بہت اچھا لگا۔ اس میں انھوں نے بہت سی حقیقتوں سے روشناس کرایا ہے اور اقبال مہدی صاحب کا افسانہ ’’عورت‘‘ اچھا لگا۔ بزمِ حجاب تو ہمیشہ کی طرح شاندار رہا۔ میں بھی اس محفل میں شرکت کی خواہش مند ہوں چنانچہ اس خط کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا مضمون بھی ارسال کررہی ہوں امید ہے کہ آپ اسے شائع کرکے میری حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔
سعیدیہ اختر عندلیب، ہاسن، کرناٹک
محبت کی کنجیاں
’’محبت کی کنجیاں‘‘ ہمارے لیے بیش قیمت تحفہ سے کم نہیںہے۔ مبارکباد کے مستحق ہیں آپ کہ ایک خوبصورت ضمیمہ کی شکل میں قارئین حجاب کے سامنے کنجیاں رکھ دیں ہیں اور مصنف جناب صلاح الدین سلطان صاحب نے رہنمائی کا جو کام انجام دیا ہے اللہ اس کا اجر انہیں عطا فرمائے۔ آمین! میرے گھر کے تمام افراد نے فرداً فرداً اس کا مطالعہ کیا اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو خط لکھنے کا اصرار کیا۔ میرے یہاں دوسرے ادبی رسائل کے ساتھ حجاب برسوں سے آرہا ہے میں اس کا خریدار ابن فرید صاحب کے زمانے سے ہوں۔ اخلاقی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا بہت کچھ حوصلہ اور سلیقہ میرے اندر حجاب کے مطالعہ سے آیا ہے حالانکہ اس رسالے پر قبضہ گھر کی عورتوں کا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اصلاحی پہلو مجھے اسیر کیے ہوئے ہیں۔ اللہ آپ کو حجاب کے لیے اور بہتر کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!
مجیر احمد آزاد، دربھنگہ
عورت خود کو تبدیل کرے!
ستمبر کا حجاب اسلامی جاذب نظر اور دلکش ٹائٹل کے ساتھ نظر نواز ہوا۔ ٹائٹل پسند آیا۔ مبارکباد
گذشتہ شمارے میں اپنا مضمون دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے حجاب ہی کے ذریعے لکھنا سیکھا۔ مرحوم مائل خیرآبادی میری بچپن کی تحریروں کو اصلاح و تربیت کے ساتھ شائع کردیتے تھے۔ اس چیز نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔ مائل صاحب کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔ اب کوئی سترہ اٹھارہ سال بعد میری تحریر حجاب میں شائع ہوئی تو میری خوشی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ میں یقین دلاتی ہوں کہ آئندہ بھی حجاب کے لیے لکھتی رہوں گی۔
جناب طارق صدیقی صاحب کا مضمون ’’عورت کے تئیں نظریہ تبدیل کرنے کی ضرورت‘‘ کئی پہلوؤں سے قابلِ غور ہے۔ اور اہلِ نظر کو دعوت تدبر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر حجاب میں برابر لکھتے رہیں تو بیداری کا ذریعہ ہوگا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت خود اگر غوروفکر نہ کرے اور اپنے بنیادی انقلابی رول کو نہ سمجھے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیںسمجھاسکتی۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ آج ہر طبقہ کی عورت ظلم و استحصال کا شکار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں بے شمار عورتیں ہیں جنھوں نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ مسلمان خواتین بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج عورت خود بیدار ہو اور باہر کی دھوپ چھاؤں پر بھی نظر ڈالے۔
ڈاکٹر طاہرہ انجم، بھوپال