گرفت نامہ
دو سال کے طویل انتظار کے بعد ماہنامہ حجاب دوبارہ جاری ہوا گویا ۲۰۰۸ء نئے سال کا تحفہ حجاب کی صورت میں ملا۔ خوشی جو اسے دیکھ کر ہوئی بیان سے باہر ہے۔ مگر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پڑھ کر اتنی خوشی نہیں ہوئی۔ یہاں دو مضامین کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔ محترم عشقیہ ناول اور افسانوں کے لیے تو کئی دوسرے ماہنامے مارکیٹ میں مل ہی جاتے ہیں۔ مگر حجاب جیسے پاکیزہ رسالے میں ایسے مضامین کا شائع ہونا کہیں اس امر کی طرف تو نشاندہی نہیں کہ: ’’دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘‘
حجاب جنوری ۲۰۰۸ء میں قسط وار ’شکستہ پر‘ اور افسانہ ’سوال‘کے شائع کرنے کی غرض وغایت سے میں باوجود انھیں پڑھنے کے لاعلم رہی خصوصاً شکستہ پر میں کسی دوشیزہ کے حسن کا بیاں اور کسی غیر محرم کے سامنے آنا، غیر محرم کا اسے تفصیلی و جانچنے والی نظروں سے دیکھنا مجھے نہیں لگتا کہ اسلام میں ایسی کسی بات کی گنجائش ہے۔ اس کو پڑھ کر پہلے تو سوچا کہ جب تک آخری قسط نہ پڑھ لی جائے، اس کے متعلق کڑی تنقید لکھنا صحیح نہیں ہوگا مگر پھر اس رسالے کے متعلق جو بات میرے پیشِ نظر ہے وہ یہ کہ خواتین کے تمام رسالوں میں حجاب ہی واحد ایسا رسالہ ہے جیسے صحیح طرزِ فکر کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ جو سراسر اسلامی افکار پر مبنی ہے اور اس سے جو ایک خاص تاثر قارئین لیتے ہیں کہیں ان افسانوں سے کوئی غلط تاثر نہ پڑے۔ پورے رسالے میں یہ دو افسانے ہی قابلِ گرفت نظر آئے۔
حصولِ رزق کے طریقے، اور پردہ اور اس کی اہمیت پسند آئے۔ محبوب راہیؔ اور محبوب حسن خاں نیر صاحب کی تخلیقات پسند آئیں۔ ایک اور مشورہ ضرور دینا چاہوں گی کہ مہندی کے ڈیزائن کے لیے تو اور بہت سی کتابیں مل جاتی ہیں حجاب جیسے رسالے کے قیمتی صفحات مہندی ڈیزائن کی نظر کردینا صحیح نہیں۔ اگر ہمت افزائی ہی مقصود ہے تو ان بہنوں کو چاہیے کہ اقوال، احادیث یا قطعات وغیرہ بھیجیں۔
فرحت جہاں محمد مشتاق، ناندورہ، ضلع بلڈانہ
]فرحت جہاں صاحبہ! خط لکھنے اور اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔ اگر حجاب پڑھنے والی باشعور خواتین اسی طرح اپنے تاثرات سے ہمیں آگاہ کرتی رہیں تو حجاب اسلامی یقینا بہتری کی طرف گامزن رہے گا۔ ’’جی ہاں دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘‘ جس طرح ہم آپ کے تاثرات پر صد فیصد عمل کرتے ہیں اس سے حجاب کا بہتر ہونا ناممکن نہیں، ’شکستہ پر‘ کے سلسلہ میں آپ سے ملتے جلتے دو اور تاثرات ہمیں ملے ہیں۔ یہ ناولٹ دراصل عربی کے معروف ادیب خلیل جبران کی تحریر ہے جو دوعیسائی گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک پادری کی داستان ہوس ہے جو عبرت ناک ہے۔ مگر اس سلسلہ کو اب ہم ’’اسٹاپ‘‘ کررہے ہیں۔
افسانہ سوال محض افسانہ نہیں بلکہ ایک سچا واقعہ ہے جو مسلم سماج کی ایک تصویر پیش کرتا ہے اور ہمیں معاشرتی اعتبار سے غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے ایک ڈاکٹر دوست کا لکھا ہوا ہے۔ حجاب اسلامی کی شناخت ایک معیاری اسلامی رسالہ ہی کی ہونی چاہیے اور ہم ہر قیمت پر اس کی حفاظت کریں گے ’’کچھ بھی ممکن ہے۔‘‘ کے منفی معنی کا یہاں اطلاق ممکن نہیں۔ بس قارئین اپنے خیالات سے آگاہ کرتے رہیں۔ مدیر[
تعلیم کے میدان کا ایک مشاہدہ
سچر کمیشن رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمان تعلیمی و معاشی حیثیت سے بہت پیچھے ہیں۔ دینی تعلیم سے بھی مسلمان بڑی حد تک بیگانہ ہیں۔ جب کہ اس کا حاصل کرنا حدیث کی رو سے مسلمان مردوں اور عورتوں پر فرض ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب پچھڑے طبقات سے بھی کم ہے جبکہ عورتوں اور لڑکیوں میں تو جہالت اور ناخواندگی کافی ہے۔ چند ماہ سے میں نے اپنے گھر پر پرائمری سے ہائی اسکول تک کی ۱۴، ۱۵ لڑکیو ں کو بلا اجرت پڑھانا شروع کیا ہے۔ لڑکیاں پڑھائی میں بہت کمزور ہیں۔ خاص طور پر اردو میں جو کہ ہماری مادری زبان ہے، کیونکہ اسکولوں میں ٹیچرس توجہ سے نہیں پڑھاتے۔ غریب بچیاں ٹیوشن نہیںلگاسکتیں اس لیے فیل ہوجاتی ہیں۔ اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ میں بچیوں کو زبانی دین کی باتیں بھی بتاتی رہتی ہوں۔ اس تعلق سے بچیوں کی ماؤں سے بھی ربط قائم ہوگیا ہے جس سے دعوتی فائدہ بھی حاصل ہورہا ہے۔ پڑھی لکھی خواتین اور مردوں کو فری کوچنگ کلاسیس چلانی چاہئیں۔ طلباء و طالبات کی دینی تعلیم و تربیت بھی کرنی چاہیے۔ ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے مرد وخواتین اگر اس طرف توجہ دیں تو ایک طرف تو ہم اپنی نئی نسل کی ناخواندگی اور جہالت دور کرسکتے ہیں دوسری اپنے بچوں بچیوں کا معیار تعلیم بھی بہتر بناسکتے ہیں۔
فرحت فردوس، بھنڈارہ، مہاراشٹر
میرا تاثر
’’حجاب اسلامی‘‘ خواتین و حضرات کے لیے یکساں سود مند ہے یہ بہت ہی دلچسپ ، معیاری اور معلوماتی رسالہ ہے۔ ماہ فروری ۲۰۰۸ء کا رسالہ میرے سامنے ہے، جس کے سبھی مضامین، افسانے، کہانیاں، شعرونغمہ معیاری، دلچسپ، معلوماتی اورسبق آموز ہیں اور یہ بھی سچ کہا گیا ہے کہ ’’جہیز مخالف قانون کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘تب ہی تو خواتین کو قتل کرنے اور ستانے کا سلسلہ بند ہوگا۔
’’مثالی شوہر‘‘ حسن عباد صاحب کا بہترین مضمون ہے، جس میں بتائے گئے اصولوں پر اگر شوہر گامزن ہوں تو دنیا اور آخرت میں نجات پائیں گے اور گھر جنت بن جائے گا۔ ’’حافظہ کو کیسے بہتر بنائیں‘‘ طلباء و طالبات کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ ’’پس حافظہ بڑھاؤ درجہ اعلا سے کامیاب ہوجاؤ۔‘‘
اس کے علاوہ عظیم قربانی، بھگوت گیتاکا تعارف اور بزم حجاب کی مختصر تحریریں واہ کیا بات ہے، خصوصاً غلط فہمی نے لڑکیوں کی غلط فہمی دور کردی کہ ماں باپ کی خدمت ان کے ذمہ نہیں ہے یہ تو بہو بیٹے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بے شک جو ماں باپ کی خدمت کرے گا وہ دنیا میں عظمت اور آخرت میں جنت پائے گا۔
خواجہ معین الدین، عنبر پیٹ، حیدرآباد
اعلیٰ قدروں کا ترجمان
مارچ کا حجاب موصول ہوا۔ بڑی خوشی ہوتی ہے حجاب کا مطالعہ کرنے سے۔ اس کا اظہار تحریر میں کرنے سے قاصر ہوں حجاب سچ مچ، اعلیٰ قدروں کا ترجمان دور حاضر کا نادر تحفہ اور روشنی کا رہنما مینار ہے۔ اس میں خواتین کی دلچسپی کی ہر وہ چیز موجود ہے جو خواتین پسند کرتی ہیں۔ میں دعوتی اجتماع میں رسالہ سب کے سامنے رکھتی ہوں سب پڑھ کر بہت تعریف کرتے ہیں حجاب ایک حسین گلدستہ ہے جس میں ہر قسم کے پھول لگے ہوئے ہیں۔ جوہر دیکھنے والوں کواپنی طرف راغب کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
پیکر سعادت معز، ہنمکنڈہ، ورنگل
شدت سے انتظار رہتا ہے
ہم آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہر ماہ آپ کی مخلصانہ عنایات کے سبب ماہنامہ حجاب اسلامی پابندی سے مل رہا ہے۔ ہمارے سینٹر تعلیم البالغات کی تمام طالبات اس سے استفادہ کرتی ہیں۔ اور ہر ماہ بڑی شدت سے اس کی منتظر رہتی ہیں۔ اور یہ اعزازی رسالہ پوری تندہی کے ساتھ متواتر ان کے علم میں اضافہ کررہا ہے۔ اس ہوش ربا گرانی میں آپ جس طرح رسالہ کی اشاعت کا کارِفرہاد انجام دے رہے ہیں ، ہم اسے دنیائے انسانیت کی عظیم خدمت تصور کرتے ہیں اور اللہ سے آپ کی صحت اور مجلہ کی حیات دراز کے لیے دعا گو ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ آپ آئندہ بھی اپنی عنایات سے نوازتے رہیں گے۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء (آمین)
عام احمد بن جناب دوست محمد خان، تاجپور، بجنور
خواتین کا حجاب اسلامی
رسالہ ’’حجابِ اسلامی‘‘ دن بہ دن نکھرتا جارہا ہے۔ اس کی ہر دل عزیزی کا یہ عالم ہے کہ گھر میں خواتین اور بچوں کے ہاتھوں میں پہلے پہنچتا ہے اور اخیر میں مجھے دیکھنے کے لیے ملتا ہے۔ آپ سے شکایت ہے کہ آپ نے رسالے کو مکمل خواتین تک محدود کردیا ہے۔ ہر مضمون خواتین کا احاطہ کرتا ہے۔ مردوں کے لیے مضامین خال خال نظر آتے ہیں۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ رسالے کا نام حجاب اسلامی کی بجائے ’’خواتین کا حجابِ اسلامی‘‘ ہونا چاہیے۔
عبدالصبور خاں، بارسی ٹاکل، آکولہ
]عبدالصبور صاحب! حجاب اسلامی اصلاً خواتین اور طالبات ہی کا رسالہ ہے اول روز سے اس کا ہدف خواتین و طالبات ہی رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ اس کی تحریریں یقینا خواتین ہی کے لیے ہوتی ہیں اور یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ مردوں کے لیے تو درجنوں دیگر رسالے شائع ہوتے ہی رہتے ہیں مگرخالص خواتین کے لیے اس طرح کا یہ منفرد رسالہ ہے۔ آپ کو اس میں پڑھنے کے لیے کچھ مل جاتا ہے تو یہ بھی ہمارے لیے خوشی کی بات ہے البتہ آپ ہم سے اس امر کا اصرار نہ کریں کہ مردوں کے لیے بھی اس میں تحریریں شائع کی جائیں۔ ابھی تک ہم خواتین ہی کے موضوعات پوری طرح کور نہیں کرپارہے ہیں بھلا ایسے میں مردوں کی ضروریات کا لحاظ کیسے کرپائیں گے۔ مدیر[
مضمون پسند آیا
میں حجاب اسلامی کی قاری ہوں۔ میں آپ کو پہلی بار خط لکھ رہی ہوں۔ مجھے یہ رسالہ ہر ماہ بہت تاخیر سے مل رہا ہے۔ آپ اس بات پر غور کیجیے۔ مجھے ماہ فروری میں ’’اسلام میں عورتوں کا مقام‘‘ بہت اچھا لگا۔ شمائلہ انیس فلاحی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔ ہم عورتوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قرآن کریم کی روشنی میں جاننے کا موقع ملا۔
نازیہ قمر الزماں، بارسی ٹاکلی
] رسالہ تاخیر سے ملنا ہماری وجہ سے نہیں ہے بلکہ ڈاک کی وجہ سے ہے۔ ہمارا رسالہ ہر ماہ کی ۲۰؍۲۱؍ تاریخ کو پوسٹ کردیا جاتا ہے۔ یہ ہماری پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے دی گئی تاریخیں ہیں۔ اگر ہم اس تاریخ پر پوسٹ نہ کریں تو دس گنا اضافی ٹکٹ لگانا پڑتا ہے۔ آپ ڈاک خانے میں شکایت کریں تو بہتر ہے۔ مدیر[
معاشرتی اور معلوماتی مضامین
کچھ عرصے سے ماہنامہ حجاب اسلامی کا مطالعہ کررہا ہوں، جو پابندی سے مل رہا ہے۔ خواتین کے لیے معاشرتی و معلوماتی مضامین پر ایک اچھی کوشش ہے۔
ڈاکٹر محمد عظیم الدین بخش، حیدرآباد
] عظیم الدین صاحب! آپ کی تحریر مل گئی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی شمارے میں شائع ہوگی۔ آپ اپنی تازہ اور غیر مطبوعہ تحریریں ارسال کرتے رہیں۔ مناسب حال تحریروں کو شائع کرنے میں ہمیں خوشی ہوگی۔ مدیر[
معاشرے کی شدید ضرورت
آپ کا رسالہ الحمدللہ خواتین میں اخلاقی قدروں کے فروغ کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور یہ ہمارے معاشرے کی شدید ضرورت ہے۔ بہر حال آپ کا یہ رسالہ گھر کے سبھی عمر کے لوگوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اسے اسی طرح جاری و ساری رکھیں، یہ ہماری دعا ہے۔
عبدالعزیز، غنی پورہ، ناندیڑ