ایک اہم مراسلہ
میں پچھلے دو سالوں سے آپ کے رسالے کا مطالعہ کررہی ہوں۔ رسالہ اپنے مواد، موضوعات اور ترتیب کے اعتبار سے قابل ستائش ہے۔ خاص طور پر افسانے، کہانیاں اور دینی موضوعات پر لکھی گئی تحریریں اگرچہ مختصر ہوتی ہیں مگر روز مرہ کی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حالاتِ حاضرہ اور خواتین کے بعض اشوز پر آپ کا نقطۂ نظر بھی عام خواتین کو ضروری معلومات فراہم کرتا ہے اگرچہ یہ کبھی کبھی ہی ہوتا ہے۔
میں نے سب سے پہلے جو شمارہ دیکھا تھا اس میں ایک تحریر تھی، ’اسلامی فیشن شو کا فتنہ‘ جس نے مجھے حجاب اسلامی کا گرویدہ بنادیا۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ رسالہ موجودہ دور کی اردو داں خواتین کی صحیح رہنمائی کرنے کا اہل ہے۔ بعد کے شماروں کو پڑھ کر میرا اندازہ ہے کہ آپ اس سلسلہ کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
آپ کے ماہنامے میں شائع ہونے والے خطوط کو دیکھ کر ، جو اکثر تعریف و ستائش پر مبنی ہوتے ہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ رسالہ پسند کیا جارہا ہے، مگر میں اپنے اس مراسلے کے ذریعہ چند باتوں کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میری ان باتوں پر جو اگرچہ تنقیدی ہیں، آپ غور کریں گے۔
٭ آپ کے قارئین میں اردو داں خواتین ہیں جو ظاہر ہے سبھی مسلمان ہیں۔ اس وقت مسلم عورت معاشرہ کا سب سے پسماندہ طبقہ ہے اور آپ معاف فرمائیں، اس میں اچھے اچھے دیندار خاندانوں کی خواتین بھی شامل ہیں جہاں مرد انتہائی تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں مگر وہاں خواتین کا عالم یہ ہے کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ خود ان کے مسائل کیا ہیں، اور موجودہ دور کی عورت کن کن فتنوںکا شکار ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہوئے یوروپ و امریکہ پر شدید تنقید کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے کم از کم اپنی عورت کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اس قدر ترقی تو ضرور دے دی ہے کہ ان کے اندر اپنی ذات و شخصیت کا شعور پیدا ہوگیا ہے۔ جبکہ مسلم عورت باوجود مثالی اسلامی تعلیمات کے اپنی ذات کے ادراک اور اپنی داخلی و خارجی ذمہ داریوں سے یکسر ناواقف ہے۔
٭ ہندوستانی سماج میں بے شمار خرابیاں اور برائیاں ایسی ہیں جن کا براہِ راست شکار عورت ہے اور اسی سماج کا حصہ ہونے کی حیثیت سے مسلم عورت بھی ان تمام مظالم کا شکار ہے، جن کا عام ہندوستانی عورت – ہم سماجی اور معاشرتی تجزیہ کرتے وقت غیر مسلم عورت کو تو موضوع بناتے ہیں مگر مسلم عورت سے یہ کہہ کر گزرجاتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور دلیل میں اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہیں جو بدقسمتی سے آج کے مسلم سماج میں نہیں پائی جاتیں۔
میرا خیال ہے کہ مسلم عورت پر ہورہے مختلف قسم کے مظالم کا بھی تذکرہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تشدد، غیر اسلامی طلاق، شوہروں کی طرف سے بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں غفلت و لاپرواہی، لڑکے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں تفریق وہ باتیں ہیں جو مسلم سماج میں بھی اسی طرح ہیں جس طرح غیر مسلم سماج میں۔
٭ پردہ کی اہمیت، اسلام میں عورت کے حقوق، عورت کی ذمہ داریاں جیسے موضوعات پر خوب لکھا بھی جاتاہے اور تقریریں بھی ہوتی ہیں مگر کیا میرے جیسی عورت آپ سے یہ سوال کرسکتی ہے کہ اسلام میں عورت کے جو حقوق ہیں وہ عملی دنیا میں بھی ہیں یا صرف کتابوں اور تقریروں ہی کے لیے ہیں۔
٭ میرے خیال میں مسلم عورت کا سب سے بڑا مسئلہ پردہ کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑے بڑے اور بہت سے مسائل ہیں۔ اس کی تعلیم وتربیت کا حق، گھر اور خاندان میں اس کی انفرادی حیثیت اور بالآخر اس کی شخصی آزادی جو اسلام میں ہونے کے باوجود اسے حاصل نہیں اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مگر اس موضوع پر نہ کوئی تقریر کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ لکھنے کے لیے۔ میں جب ان پہلوؤں پر سوچتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ بھی روایتی سوچ سے ہٹ کر خواتین کے سلسلہ میں صحیح اسلامی سوچ کو پیش کرنے سے کتراتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ ماہنامہ حجابِ اسلامی ، سماجی و معاشرتی اصلاح کا بہترین ذریہ ہے اور ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے کوششوں کی ضرورت ہے۔ آپ نے اپنے لیے جوبھی پالیسی طے کی ہو مگر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ حجاب اسلامی کو اور زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے اور بنانے کی ضرورت ہے۔
ابھی تک آپ نے مسلم سماج کی عورت کے اہم ترین اشوز کو موضوع نہیں بنایا حالانکہ سماجی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ وعظ و نصیحت سے ہٹ کر بھی کچھ کیا جائے۔ آپ اسلام کی دعوت کی بہت بات کرتے ہیں۔ ہماری عام خواتین تو اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل بھی نہیں کہ ایک درمیانی پڑھی لکھی عورت سے اسلام تو کیا کسی بھی موضوع پر بات کرسکیں۔ بھلا ایسے میں اسلام کی دعوت کا کام وہ کیسے کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے بھی علم و فکر اور تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جس سے آج کی مسلم عورت بہت دور ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ نکہت، ہولی انجل پبلک اسکول نینی تال
اپریل کا شمارہ
ماہ اپریل کا حجاب اسلامی موصول ہوا۔ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے گوشۂ سیرت بہت خوب تھا۔ قسط وار کہانی ’’شکستہ پر‘‘ اس ماہ نظر نہیں آئی۔ اگر اسے روک دیا گیا ہے تو بہتر ہے۔ اس میں کچھ قابلِ اعتراض چیزیں محسوس ہوتی تھیں۔ اگرچہ یہ ایک عیسائی گھرانے کی داستان ہے مگر اندازِ بیان اور ایک لڑکی کے حسن کی تعریف حجاب اسلامی کے معیار سے مختلف معلوم ہوتی ہے۔ اندیشہ ہے کہ حجاب کے قارئین اس سے غلط تاثر اخذ نہ کرلیں۔
حجاب ترقی اور بہتری کی طرف گامزن ہیں اس کے مضامین بھی قابلِ تعریف ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ حجاب کے سبھی ممبروں کو عزم اور حوصلہ عطا فرمائے۔
صباء پروین، جمشید پور
]صبا صاحبہ! شکستہ پر کی اشاعت ہم نے گذشتہ مہینے سے روک دی ہے۔ اور وجہ وہی ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔ ہم حجاب کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں۔[
حجاب کی عادت
میں اور میرے گھر کے سبھی افراد بہت دلچسپی کے ساتھ آپ کا پیارا ماہنامہ ’حجاب‘ بلاناغہ پڑھ کر مستفید ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال آپ کا یہ ماہنامہ ہمارے گھر بذریعہ پوسٹ آیا کرتا تھا لیکن کچھ مہینوں سے اس کی آمد بند ہوچکی ہے۔ ہمیں حجاب کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ بنا پڑھے اب چین ہی نہیں ملتا۔ براہِ کرم اس کو پھر سے جاری کرنے کی شکل بتائیں۔ میں حجاب کی ترقی اور بہتری کے لیے دعا کرتا ہوں۔
عبدالکلام، ناندیڑ
]کلام صاحب! رسالہ آپ کو جاری کیا جارہا ہے۔ ہمارا مارکٹنگ ایگزیکٹیو جب آپ کے یہاں پہنچے گا تو آپ سے زرتعاون وصول کرلے گا۔[
گوشۂ سیرت
ابھی ابھی حجاب اسلامی بابت ماہ اپریل ۲۰۰۸ء موصول ہوا جس پر سرسری نظر ڈالی تو بے حد مسرت ہوئی کہ اس شمارہ میں گوشۂ سیرت پاک ﷺ بھی ہے۔ دراصل سیرت نبوی سے اپنی زندگی کو جوڑنے کی بات صد فیصد درست اور وقت کا تقاضا ہے۔ کاش کہ مسلمان اس پہلو پر غور کرتے۔
خواجہ معین الدین معینؔ، حیدرآباد
تذکیر
صبر و تقویٰ
اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئاً۔
(آل عمران: ۱۲۰)
’’اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی چال تمہارا بال بیکا نہیں کرسکتی۔‘‘
دشمن کی ضرر رسانی سے محفوظ رکھنے میں صبر اور تقویٰ کا کیا رول ہے؟ بظاہر دونوں میں کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا، لیکن اس پہلو سے غورکیا جائے کہ اللہ ہی مختارِ کل ہے، تمام امور کا سررشتہ اسی ذاتِ واحد سے وابستہ ہے، کامیابی کی کلید اسی کی مٹھی میں ہے اور حمایت و نصرت اسی کی مرضی پر موقوف ہے، تو ہمیں دونوں کے مابین گہری ہم آہنگی دکھائی دے گی۔ اس لیے کہ جب ہم صبر و تقویٰ کی صفت بروئے کار لائیں گے تو اس سے ہمیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور وہ ہم سے خوش ہوگا تو دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے ہماری حفاظت فرمائے گا اور ان کی ہر سازش ناکام بنادے گا جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ (الزمر:۳۶)
’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مکی زندگی میں نبی کریمﷺ کو جب کہ کفار کی طرف سے مسلسل اذیت پہنچائی جارہی تھی، آپؐ کو جھٹلایا اور بدنام کیا جارہا تھا، اللہ تعالیٰ بار بار ہدایت دے رہا تھا کہ آپؐ صبرو تحمل سے کام لیجیے۔ اپنے رب کی پاکی بیان کیجیے اور اس کے حضور سربہ سجود رہیے۔