حجاب کے نام

شرکاء

شخصیت کو سنوارنے کا ذریعہ

الحمدللہ! ماہ جولائی کا شمارہ کچھ دن پہلے ہی موصول ہوا۔ اب تو یہ رسالہ وقت کی ایک اہم ضرورت، اور خواتین و طالبات کا محبوب رسالہ بنتا جارہا ہے۔ ہمیں بھی حجاب کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔

ماہ جولائی کے سارے ہی مضامین پسند آئے۔ خصوصاً ’’حرکت و عمل کے تقاضے‘‘، ’’نئی نسل کدھر جارہی ہے‘‘،’’عفوودرگزر‘‘ ،’’دیکھنا ہے تو انھیں دیکھو‘‘ بے حسد پسند آئے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’’حجاب اسلامی‘‘ خواتین و طالبات کی شخصیتوں کو سنوارنے اور ان کے احساس کو بیدار کرنے میں ایک اہم اور مؤثر رول ادا کررہا ہے۔

اس کے علاوہ سارے افسانے اورمضامین، کہانیاں بھی سبق آموز ہیں۔ لیکن بعض قارئین جو کہانیوں، افسانوں وغیرہ سے دلچسپی نہیں رکھتے، وہ صرف ’’وعظ و تقریر‘‘ کے نمونوں اور اسلامی اور دینی معلومات سے بھرے ہوئے مضامین ہی کی کثرت حجاب اسلامی میں پسند کرتے ہیں اور اکثر خطوط میں بھی ایسے ہی مضامین کی ستائش کی جاتی ہے۔

تاہم رسالہ چاہے دینی ہی کیوں نہ ہو ایسے مضامین کی اکثریت کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں قارئین اس رسالے سے بور ہوکر بدکنے نہ لگ جائیں۔

اکثر دیکھا جاتا ہے کہ قارئین ایسے رسالوں میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے جو صرف وعظ و تقریر یا صرف مذہبی و دینی معلومات سے بھرے ہوئے مضامین سے پُر ہوتے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ حجاب اسلامی میں ہر طرح کے تربیتی و معلوماتی مضامین شائع کرکے قارئین کے اندر حجاب اسلامی سے دلچسپی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ انسان سن کر رہنمائی حاصل کرنے سے زیادہ کچھ دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرنے کا عادی ہے۔ اس لیے حجاب اسلامی میں افسانوں اور کہانیوں کے ذریعے حالات کے مطابق معاشرہ میں پھیلی ہوئی بداخلاقیوں اور ان کے نتائج کی طرف قارئین کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ افسانے، کہانیاں وغیرہ بامقصد، فائدہ مند، اورا علی قدروں کی جھلک لیے ہوئے اور رہنمائی کرنے والے ہوں۔

پچھلے کئی شماروں میں جیسے ماہ نومبر میں ’’دریچے سے دور‘‘ ماہ جنوری میں ’’بے وزنی‘‘ ماہ اپریل میں ’’تیز ہوا کے بعد‘‘ کے عنوان سے جو افسانے وغیرہ شائع ہوئے ان کا مقصد کچھ واضح ہوکر سامنے نہ آسکا۔ چونکہ ’’حجاب اسلامی‘‘ ہر عام و خاص خواتین اور طالبات کے لیے ہے اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ مصنفین کا اندازِ بیان کچھ اس طرح ہو کہ ایک کم تعلیم یافتہ خاتون بھی اس کے مقصد کو سمجھ کر رہنمائی حاصل کرسکے۔

سیدہ زریں مانوی، ضلع رائچور

ماہ اگست کا شمارہ

ماہِ اگست کا شمارہ سادہ مگر دلکش ٹائٹل کے ساتھ ملا۔ الٹ پلٹ کر دیکھا تو طبیعت خوش ہوگئی۔ نیا اسٹائل بے حد پسند آیا۔ یہ خوبصورت بھی ہے اور اسے پڑھنے میں سہولت بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ آپ نے صفحہ کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے اس لیے نظر اس پر آسانی سے جمی رہتی ہے۔ غالباً آپ نے کچھ سائز بھی بڑھایا ہے اور فونٹ بھی۔ میں نے جولائی اور اگست دونوں کے شماروں کو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ نیا رسالہ زیادہ کھلا کھلا اور آسانی سے پڑھا جانے والا محسوس ہوا۔ یہ تو ہوئی اس کے ظاہری گیٹ اپ کی بات۔ اب کچھ مضامین کے بارے میں۔

ٹائٹل پر آپ نے ٹاپر طالبہ کی تصویر کے ساتھ انٹرویو شائع کرکے یقینا طالبات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ لڑکیاں لڑکوں سے تعلیم کے میدان میں مسلسل آگے جارہی ہیں یہ ان کی سنجیدگی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور ان کی مخفی صلاحیتوں کو بھی جو مدتوں سے اظہار کا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے بے کار پڑی تھیں۔ میرے خیال میں یہ اچھی علامت ہے۔

’کرائے کی کوکھ‘ مضمون پڑھ کر وقت کے دانشوروں، سیاست دانوں اور خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے والے نام نہاد گروپوں پر رونا آتا ہے۔ نسوانیت کی اس سے بڑھ کر توہین اور کیا ہوگی کہ ایک عورت خواہ مجبوری میں، خواہ شوق میں اپنے رحم کو کرائے پر اٹھا دے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اب اس کو باقاعدہ قانونی شکل دی جارہی ہے اور حکومت اس کے لیے ضوابط و قوانین بنارہی ہے۔ چلئے چوری چھپے اگرکچھ اس طرح کا ہوتا تو قابلِ برداشت تھا کیونکہ اس ملک میں اس طرح بھی بہت کچھ ہورہا ہے مگر جرم اور توہین کو قانون کی رو سے جائز ٹھہرانا موجودہ دور کے شعوری واخلاقی، دیوالیہ پن کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ مسلم خواتین کے کسی بھی گروپ نے ابھی تک اس ’’سیروگیسی‘‘ کی مخالفت نہیں کی۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسلم خواتین میدان میں آتیں اور لوگوں پر واضح کرتیں کہ یہ عورت کی فلاح کا نہیں بلکہ اس کی توہین و تذلیل اور اس کی تجارت کا ذریعہ ہوگا اور ہے۔ ’’بچے ہوم ورک کیسے کریں؟‘‘ والدین کے لیے نہایت مفید مضمون ہے۔ اگلی قسط کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر شہناز بیگم کا مضمون ’’مساوات مرد و زن‘‘ مغربی تصور پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ مگر یہ ہمارے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ مسلم خواتین کے لیے کہ وہ کسی بھی متبادل کو پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

نئے دور کا فتنہ

اگست کا شمارہ ملا۔ پڑھ کر خوشی ہوئی، مگر دیکھ کر نہیں۔ رسالہ جتنا شاندار تھا ٹائٹل اتنا ہی… اتنی سادگی مناسب نہیں جو شخصیت سے میل نہ کھاسکے۔

مضامین بہت پسند آئے۔ سیروگیٹ مدرس – پر مضمون شائع کرکے آپ نے جدید دور کے ایک اور ایسے فتنے سے خواتین کو آگاہ کیا ہے جو عن قریب انہیں لاحق ہونے والا ہے۔ یہ ایک فتنہ ہے مگر تحفہ کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی سپیرے کا گفٹ پیک جس میں زہریلا سانپ رکھ کر ٹوکری کو سجاکر کسی کو پیش کیا ہیکہ جب وہ اسے کھولے تو وہ خطرناک سانپ اسے ڈس لے۔

مسلم خواتین کی اکثریت ان فتنوں سے ناواقف ہے۔ حد یہ ہے کہ پڑھی لکھی خواتین بھی اس بارے میں نہیں جانتیں۔ حالانکہ مسلم عورت ہی وہ قوت ہوسکتی تھی جو اس کی مخالفت کرتی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ آپ اپنے رسالہ کے ذریعے مسلم خواتین میں فکروشعور کی بیداری لانے کی کوشش کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ خواتین پر جاری مظالم اور اس کے استحصال کی مختلف صورتوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں اور عام خواتین کو بتائیں کہ آزادی، برابری اور امپاورمنٹ کے نام پر تمہارے ساتھ کیا کیا ہورہا ہے۔

سید نجیب الرحمن، نشیمن باغ، لکھنؤ

]نجیب صاحب! حجاب اسلامی خواتین میں دینی وفکری بیداری پیدا کرنے ہی کی غرض سے شائع کیا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم خواتین موجودہ دور میں خواتین کے حقوق کی جنگ کو ایک نیا اور کامیاب رخ دیں۔ اسی کے ساتھ سماج میں ایک نئی تبدیلی کی جدوجہد کے لیے تیار ہوں اور ایک متحد قوت بنیں۔ ایسی قوت جو اسلامی اقدار کی پاسدار اور زمانے کی رہنمائی کرسکے۔ ایڈیٹر[

انسانوں کی حیوانیت

ماہ جولائی کا حجاب اسلامی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس رسالہ میں ’ہیروشیما‘ کے بارے میں پڑھ کررونگٹے کھڑے ہوگئے اور سوچنے لگی کہ ہماری اس تعلیم و ترقی نے کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں اور کیا کیا نہ جانے یہ ابھی اور ڈھانے والی ہے۔ مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ قومیں انسانیت سے گر کر درندہ کس طرح بن جاتی ہیں، اس کی کچھ فہم اس مضمون سے ہوتی ہے۔

میں سوچتی ہوں کہ انسان خواہ کوئی بھی ہو، کسی بھی سطح کا ہو اور کتنا ہی تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ہو اگر خدا اور اس کے سامنے جواب دہی کے تصور سے خالی ہے تو وہ انسانیت سے گر کر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس چیز کو ہم سماج میں ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔

فرزانہ امین (سہسپور، بجنور)

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146