حجاب کے نام!

شرکاء

نئی تبدیلی خوشگوار ہے
اگست کا رسالہ دیکھ کر خوشی اور خوشگوار حیرت سے سابقہ پڑا۔ نیا اسٹائل اور تبدیلیاں بے حداچھی لگیں۔ دو کالم بنادینا پڑھنے میں آسانی پیدا کرتا ہے اور بائنڈنگ میں واقعی رسالہ کھلا سا لگتا ہے۔ البتہ اس موقع سے اگر کاغذ کو بھی اور زیادہ بہتر کردیا جاتا تو یہ تبدیلی مکمل تبدیلی ہوسکتی تھی۔ آپ نے یعنی ’حجاب اسلامی‘ نے کورپیج پر تنظیمہ پٹیل کی باوقار اور باحجاب تصویر شائع کی جو یقینا بہت سی طالبات ہی نہیں بلکہ طلبہ کے لیے بھی مہمیز دینے والی ہے۔
تصویر کا بڑا خاص اثر انسان کے ذہن و دماغ پر مرتب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صحافت میں تصویر کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے بلکہ الگ سے صفحات کا ایک شعبہ، فوٹو جرنلزم کے نام سے ترقی حاصل کررہا ہے۔ لیکن دینی رسالے خاص طور پر اردو رسالے اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ میرے پاس ایران اور یورپ کے کئی دینی رسالے آتے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی اچھی مؤثر اور باوقار تصاویر شائع ہوتی ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر کبھی کبھی بہت سی بے حجاب خواتین کے اندر حجاب اختیار کرنے کا شوق امڈ پڑتا ہے۔ یقین جانئے میری ایک ملنے والی نے ایک امریکی رسالے میں چھپی باحجاب عورت کی تصویر کو دیکھ کر ہی حجاب پہننا شروع کردیا۔ کیونکہ ہندوستان کے روایتی حجاب کو وہ پسند نہ کرتی تھی۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تصویر کے بہت سارے مثبت اور تعمیری پہلو بھی ہیں اور اچھی اور باوقار تصاویر شائع کرنا بھی اسلامی پیغام کو خواتین تک پہنچانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہوسکتا ہے۔ مگر احتیاط لازم ہے۔
حجاب کی یہ تبدیلی خوش آئند ہے مگر تبدیلیوں اور ترقیوں کا ابھی ایک طویل سفر حجاب کو طے کرنا ہے۔ خوشی ہے کہ حجاب ترقی کی طرف ہر پہلو سے گامزن ہے۔
ڈاکٹر ریجانہ نکہت ،نینی تال (اترانچل)
نسوانیت برائے فروخت
حجاب کا اگست کا شمارہ ہاتھ میں ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ تبدیلی زندگی کا لازمی جزو ہے انسان یکسانیت سے اکتا جاتا ہے اس لحاظ سے الحمدللہ حجاب کا نیا فارمیٹ پسند آیا۔ اگست کے شمارے میں اپنا آرٹیکل دیکھ کر دلی مسرت ہوئی اور اس بات پر ہنسی بھی آئی کہ لوگ ’’نسوانیت برائے فروخت‘‘ کو میری کاوش سمجھ رہے ہوں گے۔ بہرحال حقیقت روزِ روشن کی طرف واضح ہوکر ہی رہتی ہے۔ ’’نسوانیت برائے فروخت‘‘ پڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ عورتیں خود کو اتنا ارزاں کررہی ہیں اور مجھے الجھن بھی ہوئی کہ کیا اس حیاسوز حرکت میں مسلم خواتین بھی شامل ہیں ؟ برائے مہربانی میری اس الجھن کو ’’نہیں‘‘ کہہ کر دور کردیجیے گا۔ شاید دل کچھ مطمئن ہو۔
سعدیہ اختر عندلیب، ہاسن، کرناٹک
]سعدیہ صاحبہ! مسلمان بھی اسی سماج کا ایک حصہ ہیں جس میں سب لوگ رہتے ہیں۔ یہ ایک سماجی سوچ ہے جس میں خاص طور پر مسلم و غیر مسلم کی تفریق کرنا مشکل ہے۔ کیا آپ عام مسلمانوں کو غیر مسلموں سے کچھ مختلف الخیال تصور کرتی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ حقیقت سے دوری ہے۔ مدیر[
نیا اسٹائل پسند آیا
ماشاء اللہ اگست کا شمارہ ہاتھوں میں ہے اور انتہائی منفرد اور جدید انداز میں۔ حجاب کو نئے سیٹ اپ میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ بے شک آپ کی کوششیں قابلِ قدر ہیں۔ اللہ حجاب کو اور ترقی عطا فرمائے یہ تبدیلی خوشگوار ہے۔ اس ماہ میں حجاب کے مضامین پسند آئے۔ کہانی ’’عبرت‘‘ سے واقعی عبرت حاصل ہوئی کہ ہمیں جانوروں کے ساتھ بھی رحم کرنا چاہیے۔ جو آج کل لوگوں میں مفقود ہے۔ ’’جھوٹی عزت‘‘ اور ’’چھوٹے کا بڑا سچ‘‘ یہ معاشرے کے دیانت دار افراد کی عکاسی کرتی ہیں۔ ثمرین فردوس صاحبہ کا ’’خرچ میں میانہ روی‘‘ عمل کے لائق ہیں۔ اسی طرح رہنما یانہ مضمون بھی قابل قدر ہیں۔ ٹاپر طالبہ کا انٹرویو ہر طالبہ کے لیے نصیحت ہے۔ اسی طرح انٹرویو شائع کرتے رہیے۔
سیدہ حنا کوثر، پوسد
نئی نسل کی تاریخ سے غفلت
جب سے میں نے اس رسالہ کا مطالعہ شروع کیا ہے اس وقت سے میں نہ صرف دینی معلومات کے اعتبار سے اپنے اندر اضافہ محسوس کررہی ہوں بلکہ رسالے نے میری شخصیت پر بھی کافی گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ رسالہ کافی مؤثر اور دین سے قربت دلانے والا ہے۔
آپ سے ایک گزارش ہے کہ اس رسالے میں ’’ہندوستان میں اسلام کی ابتدا‘‘ اور مسلم حکمرانوں اور ان کی شخصیات کے بارے میں تفصیل سے معلومات شائع کریں۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ سے گہرا رشتہ رکھتی ہیں اور مردہ قومیں اپنی تاریخ کا مطالعہ کرکے روح حاصل کرسکتی ہیں۔ ہماری نئی نسل اپنی تاریخ سے یکسر ناواقف ہے۔ ایسے میں اگر وہ بے روح زندگی جئے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میرے خیال میں حجاب اسلامی اس کام کو بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جہیز جیسی لعنت مستقل طور پر مضبوط ہورہی ہے جبکہ اس کا ختم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اور حجاب نے اپنے قارئین کو اس کے مفاسد سے آگاہ کرنے اور اس کے سماجی و معاشرتی برے اثرات سے واقف کرانے کے لیے جو سلسلہ شروع کیا ہے قابلِ ستائش ہے۔ ضرورت سنجیدگی کی ہے کہ ہم واقعی اس کے برے اثرات کو محسوس کریں۔ ہماری سماجی و معاشرتی بے حسی کا تو یہ عالم ہے کہ جب ہم بیٹی کی شادی کے سلسلے میں پریشان ہوتے ہیں تو سماج کو خوب لعنت ملامت کرتے ہیں مگر جب بیٹے کی شادی کی باری آتی ہے تو وہی کچھ کرتے ہیں جس کے سبب بیٹی کی شادی میں پریشان ہوئے تھے۔ یہ ہماری بے حسی اور خود غرضی ہے جب تک ہم اس روش کو ختم نہیں کرتے سماج سے یہ لعنت ختم نہیں ہوسکتی۔
ملکہ ارم، قاضی پیٹ، آندھرا پردیش
جرم و سزا
اگست کے حجاب میں وہ کہانی بلکہ واقعہ… پڑھ رہا تھا جس میں مجسٹریٹ صاحب نے پھانسی کے تختہ پر مجرم سے پوچھا تو واقعی مجرم ہے یا بے گناہ۔ اس نے پھر ایک کتے کو بھٹی میں جلا کر مارڈالنے کا اعتراف کرتے ہوئے اسی پھانسی کو اس جرم کی سزا قرار دیا۔
میں سوچنے لگا۔ اللہ تعالیٰ کچھ افراد کو کبھی دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ ایسے میں ہم اسے عبرتناک تصور کرتے ہیں۔ اور یہ سزا ایسی حرکتوں کی ہوتی ہے جن میں معاملہ مخلوقات سے ہوتا ہے۔ کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں سزا کتنی سخت ہوگی۔
کیا کبھی انسان یا خاص کر مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ اللہ کی نافرمانی کی سزا کیا ہوگی؟ نماز روزہ اور دیگر عبادات ترک کردینی کی کتنی بڑی سزا بھگتنی پڑے گی؟ یہ انفرادی حیثیت سے سزا کا معاملہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اجتماعی سزائیں بھی دیتا ہے۔ مسلسل گناہ گاری اور بغاوت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو تباہ کردیا۔ یہ بات قرآن بار بار عبرت دلانے کے لیے ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہم مسلمان اجتماعی نافرمانیوں میں مصروف ہیں اس لیے ذلت و رسوائی اور مظلومیت و مجبوری کی صورت میں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمارے اجتماعی گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ مگر اس طرح بہت کم لوگ سوچتے ہیں۔
ایس کے عبداللہ، بھرت نگر، آکولہ، مہاراشٹر
لڑکیوں کے لیے مشعل راہ
ہمارے محلے کی لڑکیاں بہت دلچسپی و دلجمعی کے ساتھ حجاب پڑھتی ہیں اور برابر مجھ سے مانگ کر لے جاتی ہیں۔ میں خود بھی کوشش کرتی ہوں کہ یہ رسالہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں پڑھیں کیونکہ اس میں خاص طور سے لڑکیوں کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے گویا یہ عورتوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ اسی طرح کے علمی و فکری و معیاری مضامین شائع کرتے رہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جاسکے۔
مجھ ناچیز اور کم علم کی طرف سے ایک التجا یہ ہے کہ ایسے مضامین ضرور پیش کیے جائیں جس میں لڑکیوں کو مغربی تہذیب جسے لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں ہوشیار کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تلقین کی جائے اور انھیں اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے فرق کو واضح کیا جائے۔ اگر مناسب ہو تو مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ سے اقتباسات قسط وار شائع کیے جائیں شاید بہت مفید ہو۔ آجکل ایک فیشن بڑے شباب پر چل رہا ہے۔ ’’نقاب میں آنکھیں کھلی رکھنا‘‘ جبکہ نگاہ سے ہی سارے اشارے کنائے ہوتے ہیں آنکھوں آنکھوں سے باتیں ہوتی ہوئی لبوں تک چلی آتی ہیں۔اسی لیے حدیث میں ہے نگاہ ابلیس کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ قرآن نے واضح طور پر یہ بیان کردیا ہے کہ مومن مردو! اور مومن عورتو! اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو۔ لہٰذا آنکھوں کا پردہ بھی کرنے کی تلقین کی جائے۔ ہر علاقہ میں اس غلط روش کا نقصان محسوس کیا جارہا ہے۔ مگر افسوس کہ اس کے سدباب کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔
سائرہ بانو، مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی
گھر کے سبھی لوگوں کی پسند
ابھی تین چار ماہ قبل سے ہی میں نے اپنے گھر میں حجاب جاری کروایا ہے۔ اسے میرے گھر میں سبھی لوگ پسند کرتے ہیں۔ میری والدہ بالخصوص اس کی چاہنے والی ہیں۔ میں بھی اس کا مطالعہ کرتا ہوں۔ ماہ اگست کے رسالے میں مجھے حضرت فاطمہؓ کی سیرت پر لکھا ہوا طالب الہاشمی کا مضمون ، آپ کا ایٹمی ڈیل پر لکھا ہوا اداریہ اور چھوٹے کا بڑا سچ پسند آئے۔ اس کے علاوہ تابش مہدی صاحب کی غزل بھی اچھی لگی۔
انس نبیل، کھامگانوی، مہاراشٹر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146