حجاب کے نام!

شرکاء

یاد تازہ ہوگئی
ابھی چند دن پہلے میرے ایک رفیق ملاقات کے لیے آئے اور میرے لیے خاص طور سے تحفہ ’’حجاب‘‘ ماہ نومبر کاشمارہ ساتھ لائے۔ میرے مربی و شفیق مرحوم مائل خیرآبادی کی یاد تازہ ہوئی۔ محترم مرحوم ڈاکٹر صاحب اور بہن امِ صہیب کی بہترین صلاحیتوں نے حجاب کو مزید رونق جو بخشی تھی نگاہوں میں گھوم گئی۔ لیکن اس ۸۵ سالہ ضعیف و ناتواں کو ابھی چند شروع کے مضامین میں پڑھنے کی ہی سعادت مل سکی ہے۔ اعصاب و جوارح حافظہ و دماغ اب فرمانبرداری سے باغی ہیں۔ بہرکیف ماہنامہ دیکھ کر بڑی خوشی ہے کہ آپ نے حجاب کی شان قائم رکھی ہے اللہ مزید توفیق عطا فرمائے کہ یہ حجاب ہر مسلم گھر کا روشن چراغ بن جائے۔
ایک مشورہ بھی پیش ہے۔ کاش کہ قبول ہو…ماہنامہ کا کاغذ اگر اور کچھ بہتر ہو تو فائل رکھنے والوں کی آئندہ نسل بھی ان شماروں سے مستفید ہوسکتی ہے۔ بہرکیف رسالہ زیادہ سے زیادہ ہر لحاظ سے بہتر مقام کا حامل ہو یہ اللہ سے دعا ہے۔
عبدالمجید خان، وزیر پور ضلع سوائی مادھوپور، راجستھان
آج کی مظلوم عورت
ماہ دسمبر کا حجابِ اسلامی پیش نظر ہے۔ ٹائٹل خوبصورت اور منفرد ہے۔ تمام ہی مضامین پسند آئے۔
’خواتین اور کسب معاش‘ بہت اچھا اور متوازن مضمون لگا۔ افسانوں میں ’سندری کی موت‘ واقعی لاجواب ہے۔ میں سوچنے لگی کہ موجوہ زمانے میں عورت کی حیثیت کیا گائے بھینس کے برابر بھی نہیں۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر بتائیں کہ کیا آپ نے کبھی ایسی کوئی خبر سنی یا پڑھی ہے جہاں کسی گائے یابھینس کے مالک نے اسے قتل کردیا ہو یا جلا ڈالا ہو۔ نہیں ایسا نہ کبھی سنا ہے اور نہ پڑھا ہے۔
مگر افسوس کہ موجودہ زمانے میں عورت سے متعلق اس قسم کی خبروں سے اخبارات بھرے رہتے ہیں۔ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ انسان انسانیت کے درجے سے گر کر بہت نیچے پہنچ گیا ہے اور اسے اچھے اور برے کی تمیز نہیں رہی ہے۔ یہ ایک سماجی و معاشرتی صورتِ حال ہے جس میں مظلوم عورت ہے۔
اس صورت حال کو بدلنے کی فکر وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے قائل بھی ہوں اور عمل کرنے والے بھی۔ میں سوچتی ہوں کہ کاش ہم لوگ سماج کے اس درد کو محسوس کرسکتے اور کاش آج کی عورت پر جاری اس ظلم کے خلاف اٹھ سکتے۔ مگر شاید یہ ممکن نہیں کیونکہ… آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ آج کی عورت جس میں آپ اور میں سب شامل ہیں کچھ کرنا نہیں چاہتے۔
تبلیغی جماعت کا سبق آموز واقعہ، بچے والدین کی عزت کیوں نہیں کرتے، واقعی غوروفکر کی دعوت دینے والے ہیں۔ فکرِ صحت اور معلومات کے کالم میں دونوں مضامین معلوماتی اور مفید معلوم ہوئے۔
بشری جیلانی، غازی آباد، (یوپی)
مسلم خواتین کا رول
ماہ نومبر کا حجاب اسلامی خوبصورت ٹائٹل اور مفید مضامین کے ساتھ ملا۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ تمام ہی مضامین اچھے لگے۔ حجاب اسلام پسند خواتین کا منفرد اور واحد رسالہ ہے جو ایک طرف تو خواتین کو اسلامی معلومات فراہم کرتا ہے، دوسری طرف باطل افکار و نظریات پر تنقید کرتے ہوئے مناسب رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ حجابِ اسلامی کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ مسلم خواتین کا سماجی و معاشرتی اصلاح میں آخر کوئی قابلِ ذکر رول کیوں نظر نہیں آتا۔
ہم اگر ملک میں چل رہی سیاسی، سماجی اور اصلاحی تحریکوں اور اداروں کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہاں خواتین کا فعال رول ہے۔ مگر اس کے برعکس اگر ہم مسلم اداروں اور جماعتوں پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ ہمارے لیے اس سلسلے میں تین باتیں خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
٭ کیا ایسا اسلام اور اس کی تعلیمات کے سبب ہے؟
٭ کیا مسلم جماعتیں اور ادارے خواتین کی حصہ داری کے بغیر ہی اپنا کام انجام دینا چاہتے ہیں؟
٭ کیا مسلم سماج کی خواتین میں تعلیم یافتہ اور باشعور خواتین مفقود ہیں جو سماج میں تعمیری کردار ادا کرسکیں۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کے سبب ہے کہ مسلم سماج نے عورت کو حق و باطل کی کشمکش میں الگ کردیا ہے۔ ہمارے دینی اداروں اور جماعتوں کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ وہ کس طرح خواتین کی تربیت کرکے اس لائق بنائیں کہ وہ دعوتِ اسلامی اور نظریات کی جنگ میں ایک بہادر سپاہی کا کردارا ادا کریں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود باشعور مسلم خواتین آگے آئیں کیونکہ ان کی آمادگی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
ولیہ اختر، بھلائی، (ایم پی)
ذمہ دار کون؟
پچھلے کئی مہینوں میں کئی ایسے مضامین حجاب اسلامی میں شائع ہوئے ہیں جو موجودہ معاشرہ میں عورت کی صورت حال، اس کے مسائل اور اس کااستحصال کرنے والے عناصر سے آگاہی فراہم کرتے ہیں ۔’کرائے کی کوکھ‘ سے لے کر مسلم عورتوں کی تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی صورت حال تک پڑھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ ان سب کی ذمہ داری کسی نہ کسی صورت میں خود ہم مسلمان خواتین اور مسلمان سوسائٹی بھی ہے۔ مسلمان اپنے اوپر عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ صرف لیے پھر رہے ہیں مگر ان کی ادائیگی کے بارے میں قطعی طور پر نہیں سوچتے بلکہ انہیں ان ذمہ داریوں کا شعور تک نہیں ہے۔ جو لوگ کچھ شعور رکھتے ہیں ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بے عملی کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ بہت کرتے ہیں تو محض تقریروں اور تحریروں کے ذریعے کچھ لکھ بول لیتے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ ان کی آواز صرف کتابوں کے اوراق میں ہی دب کر رہ جاتی ہے۔ یا کچھ لوگ اس کو پڑھنے کے بعد اپنے ہم خیال لوگوں کی مجلسوں میں بحث و تبصرہ کرکے رہ جاتے ہیں۔ یہاں پر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ محض تبصرہ کرلینے سے ہم شیطنت کے اس دھارے کو موڑ نہیں سکتے جو موجودہ زمانے میں عورتوں کو بہائے چلا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ اس کے خلاف نعرہ بلند کیا جائے اور ہم خیال قوتوں کو جمع کرکے ایک مضبوط قوت تیار کی جائے ۔ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ جس تہذیب کی ہم نقالی کررہے ہیں اس کی چمک صرف چند روزہ ہے۔ اور اس نظریے کے پیچھے ہمارا استحصال اور ہماری ناکامی چھپی ہوئی ہے جو ہمیں جدید دور کے جگمگاتے ہوئے ستاروں کی وجہ سے نظر نہیں آرہی ہے۔ اور میں نہیں سمجھتی کہ کوئی اور طاقت یا گروپ اس ستحصال کے خلاف تحریک چلائے گا یا آواز اٹھائے گا۔ یہ ہمارے مسلم سماج اور اسلامی تحریک کا ہی کام ہے کہ وہ خواتین کے خلاف جاری اس ظلم و استحصال کو اشو بناکر عام خواتین کے درمیان جائے اور لوگوں کو آگاہ کرے۔ تحریک سے وابستہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں اور ایسی منصوبہ بندی کریں کہ مغربی تہذیب کے اس طوفان کا رخ موڑا جاسکے۔
صابرہ پروین، جمشید پور
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146