عورت اور مسلم سماج
ماہ جنوری کا حجاب اسلامی سامنے ہے۔ جاذبِ نظر ٹائٹل کے ساتھ ساتھ مضامین بھی پسند آئے۔ اس شمارے میں توہم پرستی سے نجات کیسے ملے؟ اچھا لگا۔ اسی طرح بزمِ حجاب میں سیدہ زرین رائچور کا مضمون بھی پسند آیا۔ انھوں نے بڑے اچھے انداز میں وقت کی قدر کرنے اور وقت کو مینج کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ افسانوی ادب میں قبر کا بچھو واقعی لرزا دینے والا اور سبق آموز ہے۔ فکرِ صحت میں یوگا کے سلسلے میں جو مضمون شائع ہوا ہے، وہ مفید ہے۔ اپنے فکرِ صحت کے کالم میں خواتین کو ورزش اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ فکرِ صحت کے کالم میں آئندہ بھی یہ رہنمائی جاری رہے گی۔
ہمارے اردو رسائل کا ایک خاص رنگ اور پیٹرن چلا آرہا ہے جو بڑی حد تک روایتی ہے۔ اس چیز نے بہت سے رسالوں کی جاذبیت کو کم کردیا ہے۔ حجاب اگرچہ قدیم و جدید کاامتزاج معلوم ہوتا ہے مگر بازار میں موجود دوسرے ہندی و انگریزی رسائل سے نہ صرف پیچھے ہے بلکہ بہت پیچھے ہے۔
خواتین و طالبات کا رسالہ ہونے کی حیثیت سے حجاب کی اہمیت بھی عام رسالوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے اور اس کام میں نزاکت بھی بہت ہے۔ حجاب اسلامی جس انداز میں نکل رہا ہے، وہ اگرچہ اطمینان بخش ہے مگر کچھ باتیں آپ کی خدمت میں اس لیے عرض کرنی ہیں کہ آپ ان پر غور کریں۔
٭ عام طور پر دینی رسالوں میں اور علما کی تقریروں و تحریروں میں یہ بات ملتی ہے کہ اسلام نے عورت کو بڑے حقوق و اختیارات دیے، بڑی عزت دی اور بڑا احترام دیا۔ یہ بات صدفیصد درست ہے مگر ہمارے سامنے تو سوال یہ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات جو عورتوں کے سلسلے میں دی گئی ہیں موجودہ سماج میں کہاں ملتی ہیں اور ان کا کوئی اثر کیا آج کے مسلم سماج میں نظر آتا ہے؟
٭ مسلم معاشرے میں جب بھی خواتین کے کسی اشو پر گفتگو یا بحث ہوتی ہے تو اس میں مرد علماء نمائندگی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو یہ دیا، یہ دیا اور اس کے مقام و مرتبہ کو یوں بلند کیا اور اس طرح اٹھایا۔ آخر اس طرح کے موضوعات پر بولنے اور لکھنے کے لیے مسلم خواتین نایاب کیوں ہیں؟
اسلام اور مسلم سماج کی دورنگی پر قلم اٹھانے سے اچھے اچھے قلم کار کتراتے ہیں۔ اور شاید آپ بھی۔ اس لیے کہ اندرونی حقائق اگر سامنے آئیں گے تو شاید ہم برداشت نہ کرسکیں۔ یہاں مدھیہ پردیش کے بہت سے علاقوں میں دیہی خواتین کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عملاً مسلم اور غیر مسلم سماج میں کوئی فرق نہیں۔ مسلم سماج میں عورت کی حالت زار پکا ہوا پھوڑا معلوم ہوتی ہے مگر نشتر لگانے والا کوئی نہیں۔ شاید اس نشتر کی تکلیف برداشت نہ ہوسکے۔ مگر یہ نشتر لگانا اب ضروری ہے تاکہ درد اور تکلیف سے مستقل نجات مل سکے۔
میں ایک قاری کی حیثیت سے آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ روایتی انداز سے ہٹ کر خواتین بہت سے موضوعات پر سنجیدہ اور اسلام کی روشنی میں بحث کا آغاز کریں تاکہ آپ کا رسالہ خواتین میں حقیقی اسلامی شعور کی بیداری کا ذریعہ بن سکے اور اسلام کی نشاطِ ثانیہ میں تاریخی کردار کے لیے انہیں تیار کرسکے۔ وہ تاریخی کردار جو صحابیات نے ادا کیا۔ امید ہے کہ ناپسندیدہ باتوں پر معاف فرمائیں گے۔
ڈاکٹر حنا سعید، بھوپال
چند مشورے
فروری کا رسالہ موصول ہوا۔ دل خوش ہوگیا۔ سبھی مضامین پسند آئے۔ اس شمارے میں عبدالعزیز صاحب کا مضمون بے حد پسند آیا۔ انھوںنے بچوں میں احساس کمتری اور اس کے علاج کے سلسلے میں بڑی کارآمد رہنمائی کی ہے۔ جہیز ایک معاشرتی بوجھ اور ذرا صورت دیکھئے… دعوت غوروفکر دیتے ہیں۔
حجاب اسلامی اگرچہ خواتین و طالبات کارسالہ ہے مگر گھر کا ہر فرد اسے دلچسپی سے پڑھتا ہے۔ یہ رسالہ کی کامیابی کی علامت ہے۔ مگر میرے خیال میں حجاب اسلامی کو اور زیادہ مفید، کارآمد اور عوام کے درمیان مقبول بنانے کی ضرورت ہے۔
میرے خیال میں اگر آپ خواتین کے مختلف اداروں اور ان کی سرگرمیوں کا تعارف کرائیں تو خواتین کے لیے معلوماتی بھی ہوگا اور ان اداروں کے حلقوں میں حجاب اسلامی کی رسائی بھی ہوگی۔ اس طرح آپ کی اشاعت میں بھی اضافہ ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے رسالے میں ایسے غیر مسلم یا مسلم اداروں کاتعارف بھی بلا تفریق کرایا جانا چاہیے، جو خواتین اور بچوں سے متعلق کسی بھی میدان میں کام کررہے ہوں۔ اس طرح کے تعاف سے قارئین کی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اور بہ وقت ضرورت مدد و رہنمائی بھی حاصل کی جاسکے گی۔ تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ ایسی مسلم خواتین کا تعارف بھی کرانے کا سلسلہ شروع کریں جو مسلم خواتین بیداری اور دیگر میدانوںمیں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہ چیز انٹرویو کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔ اس سے ہماری خواتین میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ کئی سالوں پہلے آپ نے ایران اور ملیشیا وغیرہ میں مسلم خواتین کی تنظیموں اور سرگرمیوں کا تعارف کرایا تھا۔ مگر اب وہ سلسلہ بند ہوگیا۔ اگر مسلم ممالک کی خواتین تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا جائے تو اچھا ہوگا۔
عائشہ زریں، اورنگ آباد
]عائشہ صاحبہ! آپ کے مشورے ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں۔ اگرچہ بیک وقت ان باتوں پر مکمل عمل آوری دشوار ہے۔ مگر ہم یہ یقین دلاسکتے ہیں کہ انشاء اللہ ہم انہیں روبہ عمل لانے کی کوشش کریں گے۔ آپ اپنے مفید مشوروں سے نوازتی رہیں۔ اس طرح ہم حجاب اسلامی کو اور زیادہ مفید اور بہتر بناسکیں گے۔ ایڈیٹر[
——
؟؟؟
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ جنوری ۲۰۰۹ء کا حجاب اسلامی اپنے عمدہ مشمولات کی بنا پر بہت اچھا لگا۔ آپ کا اداریہ فکر انگیز ہے۔ مضامین میں ’’بیٹی کے حقوق‘‘، ’’ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے‘‘، ’’آج کی عورت کی حالتِ زار‘‘ اور ’’توہم پرستی سے نجات کیسے ملے؟‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس طرح کے مضامین سے اخلاق و اطوار سنوارنے میں مدد ملے گی۔ مضمون نگاران کا شکریہ۔ میں حجاب اسلامی کو دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ میرے گھر کے بچے ’’گوشۂ نو بہار‘‘ کو پسند کرتے ہیں اور عورتوں کے درمیان یہ رسالہ مقبول ہے۔
مجیر احمد آزاد، دربھنگہ
؟؟؟
حجاب پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ مسلمان بچیوں اور خواتین میں دینی بیداری پیدا کرنے اور اسلامی ماحول کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کو فروغ دے کر عملِ صالح اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سعی کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔
نور الصباح، آکولہ
——