عملی اسلامی سماج کی ضرورت
حجابِ اسلامی کئی سالوں سے زیرِ مطالعہ ہے۔ ماشاء اللہ رسالہ دن بہ دن نکھرتا جارہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۹ء کا رسالہ خوب صورت بھی ہے اور خوب سیرت بھی۔ اداریہ اور گوشہ سیرت کے علاوہ موجودہ دور میں خواتین کے مسائل پورے سماج کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم معاشرہ کو جس کے پاس ایک نظامِ حیات بھی ہے اور خدائی رہنمائی بھی۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم سماج اور اس کی خواتین ان مسائل کو لے کر اٹھتیں اور لوگوں کو بتاتیں کہ اسلام ان مسائل کا حل اس طرح پیش کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ رہنمائی اور مسائل کا حل پیش کرنے والے خود گمراہی کا شکار ہیں اور خود انہی مسائل میں گرفتار ہوگئے ہیں جن میں پورا سماج گرفتار ہے۔
یہ وقت ہے کہ مسلم خواتین اور پورا مسلم سماج اپنا جائزہ لے اور دیکھے کہ برائیاں اور خرابیاںکہاں کہاں اور کیسے کیسے ان کے سماج میں بھی گھس آئی ہیں اور وہ اپنی اصلاح کی بھی فکر کریں اور لوگوں کو بھی مسائل کا حل سجھائیں۔
کیونکہ مسلم سماج عورت کے مسئلہ کو لے کر خود بے اعتدالی کا شکار ہے اس لیے اسلام دشمن طاقتیں اس پوری حالت و کیفیت کا ذمہ دار اسلام کو قرار دے کر اسے تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ دوسری طرف اسلام کے ماننے والے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دے کر صفائی پیش کرتے ہیں۔ لیکن کیا محض صفائی دینے سے اور یہ کہنے سے کہ اسلام نے عورت کو یہ یہ حقوق دیے اوراس اس طرح عزت دی لوگ مان لیں گے؟ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ اسلام نے عورت کو اس طرح وقار دیا ہے۔ یہ دنیا عمل کو دیکھتی ہے اور ہم اس وقت تک اس کیفیت سے نہیں نکل سکتے جب تک اپنے سماج کو اسلام کا عملی نمونہ بناکر اسلامی تعلیمات کی عظمت اور برتری کو لوگوں کے سامنے عملی طور پر ثابت نہ کردیں۔
بشری ترنم، رامپور (یوپی)
مشورہ
مارچ ۲۰۰۹ء کا شمارہ ملا۔ دل خوش ہوگیا۔ اس ماہ کا سرورق نہایت جاذب رنگوں و ڈیزائن میں تیار کیاگیا تھا۔ میرا ماہنامہ حجاب اسلامی کے ذمہ داران کو یہ مشورہ ہے کہ آپ ہر شہر اور ٹاؤن کے سینئر کالجز کا دورہ کرکے یہاں کی مسلم طالبات کو حجاب اسلامی کے مطالعے کے فوائد بتاکر خریدار بننے کی ترغیب دیں۔ اس کے لیے آپ مقامی سطح پر بھی دلچسپی رکھنے والے افراد کا تقرر کرسکتے ہیں تاکہ وہ فرد وہاں کی طالبات کو رسالہ سپلائی کرسکے۔ اس طرح حجابِ اسلامی کی افادیت طالبات تک پہنچ سکے گی اور وہ بھی اس کارِ خیر سے فیض یاب ہوں گی۔ اس کی بڑی شدید ضرورت ہے۔
مارچ کے شمارے میں کئی مضامین بہت زیادہ پسند آئے۔ ان میں اداریہ تو دل کو چھوگیا۔ ’دہشت گرد کون؟‘، ’امریکی افواج میں خواتین کی حالت‘ اور ’شیطان سے انٹرویو‘ (گوشہ نو بہار میں) کافی اچھے لگے۔ آئندہ شماروں میں حسبِ سابق نمایاں اور ٹاپر طلبہ وطالبات کے انٹرویوز شائع کرنے کی کوشش کریں اس سے بچوں اور والدین دونوں کو حوصلہ ملتا ہے۔
مومن انیس الدین، عزیز پورہ، بیڑ
]انیس صاحب! آپ کے دونوں مشورے قیمتی ہیں۔ ایک مشورے پر عمل تو ہمارا کام ہے اور ایک مشورہ کو عملی شکل دینا حجاب اسلامی کے بہی خواہوں کا کام ہے۔ ہم حجابِ اسلامی کے بہی خواہوں سے اور ان حضرات کو جو اس خیر کے کام میں تعاون کرسکتے ہیں اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر اسکولوں اور کالجوں کی طالبات اور تدریسی عملہ کے درمیان حجاب اسلامی کا تعارف کراکر انہیں اس کا قاری بنائیں۔ اس طرح وہ اس مشن میں ہماری مدد بھی کرسکتے ہیں۔ اور اجرو ثواب کے حق دار بھی بن سکتے ہیں۔
حجاب پاکر خوشی ہوئی
سب سے پہلے تو اس مراسلت کے ذریعے میں اپنے اُن شفیق محترم بزرگ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جن کی بدولت اس نئے سال کے شروع میں میرے ہاتھوں میں یہ پُر نور رسالہ ’’حجابِ اسلامی‘‘ جنوری کا شمارہ آیا۔ تقریباً آٹھ سال پہلے بھی ان ہی شفیق بزرگ کی بدولت میں اس رسالے کی متواتر قاری رہی تھی لیکن پھر حالات کچھ اس طرح ہوئے میں اس علاقے سے کہیں دور آگئی جہاں اس رسالے تک میری رسائی ناممکن ہوگئی اور مجھے اس محرومی کا احساس رہا کہ میں اب اس رسالہ کا مطالعہ نہیں کرپا رہی ہوں۔ اور اب اس طرح حجاب کو اپنے ہاتھوں پاکر خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ ایک ایک مضمون اور ایک ایک لفظ دل کو چھولینے والا ہے۔ آپ یقین کریے گا کہ اس ڈر سے کہ سارے مضمون اگر جلدی پڑھ لوں گی تو رسالہ جلدی ختم ہوجائے گا۔ اس لیے جان بوجھ کر اس کا دھیرے دھیرے مطالعہ کررہی ہوں۔ حالانکہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ ایک ہی سانس میں سارا پڑھ ڈالوں۔ اپنے دو ننھے ننھے بچوں کو اور اپنے شوہر کو بھی تقریباً سارے ہی مضمون سنا ڈالوں گی۔ بچے جو ابھی چھوٹے ہیں اور شوہر محترم جو ذرا اس طرح کی اردو کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے انہیں اپنی زبان میں سناؤں گی۔ خدا اس رسالے کو اور بھی زیادہ بلندیاں عطا فرمائے۔ آمین۔
رافعہ فرحت، باڑمیر، راجستھان
]آپ کا خط ہمارے لیے اسی طرح خوشی کاباعث ہے جس طرح حجاب اسلامی آپ کے لیے۔ آپ حجاب خود پڑھیے اور دوسروں کو بھی پڑھائیے اور رسالہ کے ساتھ تعاون کیجیے۔[
مضامین پسند آئے
فروری ۲۰۰۹ء کا شمارہ دستیاب ہوا۔ کرم فرمائی کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔ اس بار کے اداریہ نے دل کو چھولیا۔
فروری ماہ کے افسانوی ادب میں شامل سبھی افسانے بہت پسند آئے۔ جس میں خاص طور پر دادا جان کا پانچ کا نوٹ، چور، سوتی عقل کا جاگتا نصیب، اور جب ضمیر جاگ اٹھا بہت پسند آئے۔ عالمِ اسلام کے تحت شامل مضمون ’’لہو میں ڈوبا فلسطین‘‘ نے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ بے بسی ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ ہم میں کتنی پھوٹ پڑ چکی ہے۔ امریکہ اور اس کی اولاد اسرائیل کھلے عام دہشت گردی کررہے ہیں۔ لیکن ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلم ممالک عیش و عشرت میں مشغول ہیں۔ سبھی کے سبھی امریکہ کے غلام ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ اخبارِ حجاب، غذا و صحت، فکرِ صحت، تربیت، نفسیاتی صحت معلوماتی رہے، جس سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ تذکیر سے ہمیں یہ سبق ملا کہ بیوی شریکِ حیات ہوتی ہے نہ کہ ہماری غلام۔ دینیات اور بزمِ حجاب حسبِ معمول سب بہت پسند آئے اور نئی نئی چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ آج ٹی وی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ہمارے گھر سنیما ہال بن کر رہ گئے ہیں، جھگڑے فساد کی یہ جڑ ہے اور اس سے ہمارے ذہین بچوں میں ناچ گانا، ہماری عورتوں اور لڑکیوں میں بے حیائی، بہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میں ہم لوگ دوسری قوموں کو پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔
ہمارے خریدار صحابہ و صحابیات نمبر کی مانگ کررہے ہیں۔ اس پر غور فرمائیں۔
محمد امین الدین، جمونیا، مغربی چمپارن
اخلاق و عادات سنوارنے والے مضامین
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ جنوری ۲۰۰۹ء کا حجاب اسلامی اپنے عمدہ مشمولات کی بنا پر بہت اچھا لگا۔ آپ کا اداریہ فکر انگیز ہے۔ مضامین میں ’’بیٹی کے حقوق‘‘، ’’ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے‘‘، ’’آج کی عورت کی حالتِ زار‘‘ اور ’’توہم پرستی سے نجات کیسے ملے؟‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس طرح کے مضامین سے اخلاق و اطوار سنوارنے میں مدد ملے گی۔ مضمون نگاران کا شکریہ۔ میں حجاب اسلامی کو دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ میرے گھر کے بچے ’’گوشۂ نو بہار‘‘ کو پسند کرتے ہیں اور عورتوں کے درمیان یہ رسالہ مقبول ہے۔
مجیر احمد آزاد، دربھنگہ
خوشی ہوئی
حجاب پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ مسلمان بچیوں اور خواتین میں دینی بیداری پیدا کرنے اور اسلامی ماحول کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کو فروغ دے کر عملِ صالح اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سعی کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔
نور الصباح، آکولہ
——