تیسرا خط
ہم نے ماہنامہ ’’حجابِ اسلامی‘‘ کا سالانہ چندہ 150/-روپئے ۸؍دسمبر ۲۰۰۸ء کو بذریعہ منی آرڈر روانہ کردیا تھا، جس کا MOنمبر 8051 تاریخ۸؍دسمبر ۲۰۰۸ء ہے۔ ایم او بھیجے ہوئے تین ماہ کا عرصہ ہورہا ہے لیکن افسوس ابھی تک آپ نے نہ ماہنامہ حجاب روانہ کیا اور نہ خریداری نمبر دیا۔ اس سے پہلے بھی ہم آپ کو دو خط لکھ چکے ہیں۔ یہ ہمارا تیسرا خط ہے۔ حالانکہ ہم دہلی کے دوچار ماہناموں کے سالانہ خریدار ہیں جو ہمیں وقت سے پہلے ہی مل جاتے ہیں۔ لیکن افسوس سالانہ چندہ بھیج کر بھی ہمیں تین ماہ کا عرصہ ہورہا ہے لیکن ابھی تک آپ نے نہ ہمیں حجاب روانہ کیا اور نہ ہمارے خط کا جواب دیا۔ لہٰذا آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ ہمیں فوراً ماہنامہ حجاب ارسال کریں۔ آخر کیا وجہ ہے جو اتنی تاخیر ہورہی ہے۔ آپ کے جواب و ماہنامہ حجاب کا منتظر!
عید روس بن شہاب، اورنگ آباد
]عید روس صاحب! آپ کا M.Oہمیں مل چکا ہے ہم جنوری سے آپ کو رسالہ بھیج رہے ہیں۔ چار شمارے آپ کو جاچکے ہیں اسی پتے پر جو آپ نے درج کیا ہے۔ آپ کے پچھلے دونوں خطوط کے جوابات بھی آپ کو دیے گئے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے اور الجھن بھی کہ ہم کیا کریں؟ آپ نے تین خط لکھے اور ایک بھی خط میں کوئی فون یا موبائل نمبر نہیں لکھا کہ آپ کو فون پر ہی اطلاع دے دیتے۔ اب مجبوراً یہ خط شائع کرکے آپ کو مطلع کررہے ہیں۔
یہ معاملہ صرف آپ کا نہیں، بہت سے قارئین کا ہے۔ انہیں رسالہ نہیں ملتا یا واپس آجاتا ہے۔ جن کا رسالہ واپس آجاتا ہے انہیں ہم خط لکھتے ہیں مگر کوئی جواب نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم رسالہ نہیں بھیجتے، یہ بدگمانی ہے۔ آپ کچھ سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ڈاک کا نظام بڑے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اور کچھ مسائل قارئین بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہر ماہ کئی رسالے اس لیے واپس آجاتے ہیں کہ پتہ درست نہیں ہوتا۔ ہم خط لکھتے ہیں مگر نتیجہ صفر۔ اب دیکھئے ہم مثال کے طور پر ایک پتہ آپ کو دیتے ہیں۔تسنیم آرا (ٹیچر) شانتی نگر، صوبہ داری، ہنمکنڈہ ، ورنگل 506001، اس پتے پر ہم سال بھر رسالہ بھیجتے رہے اور واپس آتا رہا۔ اب مارچ میں ان کی مدت خریداری ختم ہوگئی۔ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم نے ان کے پیسے ہضم کرلیے۔ حالانکہ ہم سال بھر ان کو رسالہ بھیجتے رہے۔ ایک مسئلہ اور ہے وہ یہ کہ جب رسالہ واپس آجاتا ہے تو ڈاکیہ اس پر کبھی پتہ کی سلپ پھاڑ کر واپس ہمیں بھیج دیتا ہے ،ایسے میں ہمیں یہ پتا نہیں چل پاتا کہ کس کا رسالہ واپس آیا۔ اس طرح ہر ماہ ایک درجن سے زیادہ رسالے واپس آتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ ہم کیا کریں ۔ ہماری گزارش ہے کہ قارئین آگاہ رہیں اور ادارے سے رابطہ بذریعہ ٹیلی فون کریں تو اچھا ہے۔ (مدیر)[
بلا عنوان
ماہ اپریل کا شمارہ ہمدست ہوا۔ مجموعی طور پر رسالہ اچھالگا۔ ’’حسنِ سلوک کے محرکات‘‘ بہت پسند آیا۔ ابوالمجاہد زاہدؔؒ پر لکھے گئے تمام ہی مضامین بہت پسند آئے۔ بے شک ان کی جدائی تحریک کے لیے اور ہمارے لیے بھی بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!
تنقید برائے اصلاح کسی بھی رسالہ کی روح ہوتی ہے جو اسے صحیح سمتِ سفر عطا کرتی ہے مجھے امید ہے کہ روایتی خطوط سے ہٹ کر اس کڑوی گولی کو حجابِ اسلامی میں ضرور جگہ ملے گی۔
کسی بھی موضوع کی انتہا پر پہنچ کر لکھنے اور اس کا حق ادا کرنے کا ملکہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ دو انتہاؤں پر لکھنے کے باوجود اپنی تحریر میں توازن قائم رکھنا ایک کامیاب قلم کار کی نشانی ہوتی ہے۔ اور خصوصاً ایک مسلمان کی۔
’’عورت: مشرق اور مغرب کے درمیان‘‘ کے مضمون نگار مغرب اور مشرق کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر اعتدال کی راہ چھوڑ بیٹھے اور خصوصاً برقعے کے بارے میں تو انھوں نے مغربی مستشرقین کو بھی مات دے دی۔ موصوف کے جملے ’’برقع کی تاریکی میں لپیٹ دینا‘‘ اور ’’برقع میں کفنا کر حیا میں دفنا دینا‘‘ جیسے الفاظ نے مجھے حیرت کے سمندر میں ڈال دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج تک برقعے کو جنھوں نے ظلم، تاریکی، کفن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ جیسے خطابات سے نوازا ہے وہ یا تو مرد حضرات ہیں جو برقع نہیں پہنتے ہیں، یا پھر وہ خواتین جنھوں نے برقع کو کبھی چھوا بھی نہیں۔ برقع کے بارے میں اس قسم کی رائے صرف وہ دے سکتے ہیں جنہیں اس کا تجربہ ہی نہیں ہے۔ اور یہ احساسات صرف میرے ہی نہیں ان کروڑوں بہنوں کے بھی ہیں جو برقع کو استعمال کرتی ہیں۔ پھر حیا کے متعلق طارق احمد صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’حیا خاموشی ہے‘‘ نہیں۔ حیا صرف خاموشی ہی نہیں حیا گویائی بھی ہے۔ کسی برائی کو دیکھ کر کوئی حیادار انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔ اس کی حیا اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ خاموشی کو توڑدے اور میرا یہ خط بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ اور امت میں حیا کے لیے سب سے مشہور شخصیت کسی خاتون کی نہیں، بلکہ وہ ایک مرد ’’حضرت عثمان غنیؓ‘‘ کی ہے۔
مضمون میں جابجا عریاں الفاظ کے استعمال نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا واقعی یہ ’حجابِ اسلامی‘ ہے؟ مدیر حجابِ اسلامی سے گزارش ہے کہ یا تو اس قسم کی تحریروں کو حجابِ اسلامی میں جگہ نہ دیں یا پھر اس کا نام تبدیل کرکے بے حجاب رکھ دیں۔
ہرچیز میں اعتدال کا دامن تھامے رہنا ایک مومن کی امتیا زی نشانی ہے۔ خصوصاً آج کے اس پر آشوب دور میں اس کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
امید ہے کہ اس خط کو من و عن شائع کرکے دیانت داری کا ثبوت دیں گے۔
ملا بصیرت بازغہ، ہبلی، کرناٹک
حضرت ابوالمجاہد زاہدؔ
اسلامی حلقہ ادب کے استاد اور شاعر محترم ابوالمجاہد زاہدؔ مرحوم کی موت اردو ادب کے لیے ایک سانحہ اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اُن کی غزلیں بہت ساری میں پڑھ چکی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنت کا حق دار بناکر ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور وہ نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں۔
پیکرؔ سعادت معز، صوبیداری، ہنمکنڈہ
قابل تعریف تحریریں
مسلم سماج میں آج جن تحریروں اور جن رسالوں کی ضرورت ہے، وہ ’’حجاب‘‘ کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ بے شک یہ ایک ایسا رسالہ ہے جو دورِ حاضرہ کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اور مسلم معاشرہ کی سیاسی، سماجی، معاشی اصلاح کے لیے ازحد مفید ہے۔ پچھلے دو ماہ سے اس رسالے کا مطالعہ کررہا ہوں۔ قابلِ تعریف تحریریں ہیں اورسبق آموز واقعات کے ساتھ ساتھ سچائی بھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس رسالے کو ترقی کی راہ پر گامزن فرمائے اور ان تحریروں میں اور بھی کشش پیدا فرمائے۔ (آمین!)
محمد سہیل تنویرؔ، ایوت محل، (مہاراشٹر)
عورت: مشرق و مغرب کے درمیان
ماہ اپریل کا شمارہ دیکھتے ہی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا پڑا۔ کیونکہ ابوالمجاہد زاہدؔ صاحب کی وفات کا علم مجھے حجاب ہی کے ذریعہ ہوا۔ وہ میرے اور میری بہنوں کے بھی استاد تھے۔ اس طرح ہمارے گھر میں ان کے شاگردوں کی تعداد پانچ ہے۔ ان کی وفات پر نہ صرف مجھے بلکہ میرے پورے گھر کو رنج ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آپ نے ان کی وفات پر ایک گوشہ شائع کرکے شاگردی کا کچھ ذرا سا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خوشی کی بات ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ ان پر ایک خاص نمبر شائع کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔
تازہ شمارے کے سبھی مضامین اچھے لگے۔ خصوصاً حسنِ سلوک کے محرکات، عورت، اسلام اور مسلم معاشرہ، بچوں کی تربیت اور ہو بہ ہو پسند آئے۔ کیا آپ بحران سے نمٹ سکتی ہیں؟کا انداز اچھا ہے۔ موجودہ دور میں لکھنے کا یہ بھی ایک انداز ہے۔ تیرونشتر کے تحت ’’عورت: مشرق و مغرب کے درمیان‘‘ تو واقعی تیرو نشتر ہی ہے جو مغرب کے اندھے پن کو بھی ظاہر کرتا ہے اور مشرق کی بے جان زندگی کو بھی بیان کرتا ہے۔ حجاب اسلامی میں اس مضمون کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ بہرحال مضمون پسند آیا۔ اگرچہ الفاظ شدید ہیں اور انداز جارحانہ ہے،مگر ہے حقیقت سے بہت قریب بلکہ حقیت۔ صحیح بات یہ ہے کہ مضمون نگار نے اس میں اپنی کوئی بات کہی ہی نہیں اس نے تو صرف دونوں طرف کے حقائق کو جوں کا توں پیش کردیا ہے۔ آپ نے ادارتی نوٹ دے کر لوگوں کو مثبت نتائج کی طرف آنے کی ترغیب دی ہے۔ میرے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی۔ اس لیے کہ باشعور قارئین کا کام ہی یہ ہے کہ وہ افراط و تفریط سے ہی توازن اور درمیان کا راستہ تلاش کریں جو اسلام کا عین مزاج ہے۔ مضمون واقعی قابلِ تعریف ہے اور دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ اسے پڑھ کر بدک جائیں گے اورسوچیں گے کہ آپ نے یہ کیا لکھ دیا۔
آپ نے حجاب کو جو رنگ و آہنگ دیا ہے اس پر کوششیں جاری رکھیے۔ اگرچہ اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے مگر موجودہ سیٹ اپ اطمینان بخش ہے۔ یہاں ہم حجاب کو مقبول بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ دعا ہے کہ حجاب ترقی کرے۔
مرزا ناصر بیگ، دوحہ قطر
عورت مشرق و مغرب کے درمیان
حجاب میں ’عورت مشرق و مغرب کے درمیان ‘ کے نام سے طارق صاحب کا مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں انہوں نے منصفانہ طور پر ایک بہت ہی خاص بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
مغرب پرست لوگ کہتے ہیںکہ مشرقی خواتین اپنے شوہروں کو اپنا مجازی خدا سمجھتی ہیں، ان کی بے پناہ خدمت بلکہ غلامی کرتی ہیں ، ان کی مار پیٹ برداشت کرتی ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرقی عورت کی پوری ازدواجی زندگی ساس سسر کی سیوا سے لے کر سینے پرونے، گل بوٹے بنانے، چکی پیسنے، چرخا کاتنے اور اسی جیسے دوسرے چھوٹے موٹے گھریلو کاموں میں صرف ہو جاتی ہے۔ آئیڈیل یا مثالی مشرقی عورت ہوائی جہاز نہیں چلا سکتی، میڈیکل کالج میں نہیں پڑھ سکتی، فوج میں بھرتی نہیں ہو سکتی، سائنسداں نہیں بن سکتی۔ الغرض مغرب پرست حضرات و خواتین، مشرقی عورت کی شبیہ کو انتہائی مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔
دوسری طرف مشرق میں مغربی خواتین کے متعلق انتہائی نازیبا باتیں کہی جاتی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مغربی خواتین میں چلو بھر بھی شرم و حیا نہیں پائی جاتی۔ وہ آوارہ اور بے لگام ہوتی ہے۔ مغرب میں عورت کو شو پیس بنا دیا گیا ہے۔ مغربی عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیاجا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
’عورت: مغرب و مشرق کے درمیان ‘ والے اس مضمون میں طارق صاحب نے کچھ نہیں کیاسوائے اس کے کہ مشرق و مغرب میں خواتین کے تعلق سے کی جانے والی اسی طرح کی منفی باتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔دراصل یہ مضمون مشرقی اور مغربی خواتین سے متعلق پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کی ایک بازگشت ہے۔ محترم مدیر نے اس مضمون پر بالکل صحیح نوٹ لگایا ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر اعتدال کی اسلامی راہ تلاش کی جا سکتی ہے۔
دنیا میں اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں ہیں، اور ہمیں بہ حیثیت امت مسلمہ ان غلط فہمیوں کو سمجھ کر ان کا جواب دینے کی کوشش کرنی ہے۔ اسی طرح اگر دنیا میں مغربی اورمشرقی خواتین کے متعلق کسی قسم کی غلط فہمی پائی جاتی ہے تو پہلے ان غلط فہمیوں کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے اس کے بعد ہی ان غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اب تک کسی مرد مصنف نے مغربی اور مشرقی خواتین کے متعلق صحیح رائے قائم کی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی مرد مصنف اس کا اہل ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ تو خالصتاً خواتین کے کرنے کا کام ہے کہ وہ مغرب و مشرق میں اپنی زبوں حالی کا خود اندازہ کریں اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ مرد اس کام میں معاون و مدد گار ہو سکتے ہیں لیکن خواتین کے مسائل کو حل کرنا تنہا ان کے بس کی بات نہیں۔اور یہ مناسب بھی نہیں ۔ اس لیے خواتین آگے آئیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں خود اپنے مسائل کو حل کریں ۔ اس مضمون میں ، اوراس پر لگائے گئے ادارتی نوٹ کی روشنی میں، یہی بات کہی جاسکتی ہے۔
نشاط بی ، شاہ آباد ، ہردوئی