تمام مضامین اچھے لگے
ماہنامہ ’’حجابِ اسلامی‘‘ کا ماہ اپریل ۲۰۰۹ء کا شمارہ باصرہ نواز ہوا۔ سرِ ورق پرمولانا ابوالمجاہد زاہدؔ مرحوم کی تصویر دیکھ کر وہی کیفیت طاری ہوگئی جو انتقال کی خبر پڑھ کر ہوئی تھی۔ خصوصی گوشہ کے تحت مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ پر گوشہ میں شامل تمام تاثراتی مضامین معلوماتی ہیں۔ آپ نے اپنے مضمون کے آخر میں جو ’’شکوہ‘‘ کیا ہے وہ بجا ہے۔ کاش لوگ اس شکوہ کی روح سے آشنا ہوسکیں اور ان کی آنکھوں سے ناقدر شناسی کا پردہ ہٹ سکے۔ اس شمارے میں مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ کے کلام کو شامل کرکے آپ نے بہت بہتر کام کیا ہے۔ اس طرح نئی نسل بھی زاہدؔ صاحب کے کلام اور خیالات سے آشنا ہوجائے گی۔
’’مغربی دنیا میں تشدد کے واقعات‘‘ عنوان کے تحت اداریہ میں آپ نے جس خوش اسلوبی سے مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے وہ آپ کی مثبت فکر اور وسیع نظر کا غماز ہے۔
شمارے میںشامل تمام مضامین اچھے ہیں۔ مگر ’’عورت – مشرق و مغرب کے درمیان‘‘ کافی کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ افسانوں میں نقشِ قدم، چھوٹا بھائی اور مجبوری متاثر کرنے والے ہیں۔
منظور پروانہ، چکن شاپی، نظیرآباد، لکھنؤ
معلوماتی اور مفید رسالہ
مئی کا شمارہ خوبصورت اور جاذبِ نظر ٹائٹل کے ساتھ باصرہ نواز ہوا۔مضامین پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد یکے بعد دیگرے اپنی پسند کے مضامین پڑھنے لگی۔ اداریے کے تینوں عنوانات پسند آئے۔ آپ نے ایک ماہ کے اداریے میں کئی موضوعات پر مختصراً معلومات دینے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اچھا ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔ اس طرح ایک ہی شمارے میں کئی موضوعات پر رہنمائی مل جاتی ہے۔ ویسے خواتین کے رسالوں میں سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھنے کا رواج کہا ںہے۔ آپ خواتین کو حالاتِ حاضرہ سے واقف کراتے ہیں یہ ایک اچھی چیز ہے اس سے خواتین کے فکر و شعور کویقینا جلا ملے گی۔
تجہیز و تکفین کے احکام پڑھ کر معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ایسا موضوع ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری خواتین ہی کیا مرد حضرات بھی میت کو غسل دینے سے کتراتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلے کے امور و مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ چیز بڑا مسئلہ پیدا کردیتی ہے اور میت کو غسل دینا ایک مشکل مسئلہ ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میت کو غسل دینے جیسا نیک کام جو بڑے اجر کا ذریعہ ہے اب پیشہ ور لوگوں کے حصہ میں آگیا ہے اور ہمارا سماج نیکیوں کے بہت سے ذرائع سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر میرے اندر ایک اعتماد پیدا ہوا اور اب میں کسی بھی میت کو غسل دینے میں ہمیشہ آگے رہنے کی کوشش کرو ںگی۔
فکر صحت پر خصوصی گوشہ معلومات افزا ہے۔ قانون کے میدان میں کیئریر پر رہنمائی فراہم کرکے آپ نے اچھا کام کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری طالبات وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس میدان میں بھی اتریں گی۔ چھٹیوں میں بچے کیا کریں؟ اس موضوع پر دی گئی تحریر مفید ہے۔ جس سے یقینا والدین استفادہ کریں گے۔
معلومات کے تحت خود ساختہ مسیح کے بارے میں پڑھ کر حیرت ہوئی کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک میں کیسے کیسے اوہام پرست لوگ رہتے ہیں۔ دراصل یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کا معاشرہ روحانی اور مذہبی اعتبار سے دیوالیہ ہوگیا ہے اور ہوشیار و مفاد پرست لوگ اسے بھی تجارت بنائے ہوئے ہیں۔
رسالہ مجموعی اعتبار سے معلوماتی اور مفید ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ گھروں تک پہنچانے کی کوشش ہو۔
وصیہ سلطانہ، حیات نگر، حیدرآباد
]وصیہ صاحبہ! آپ کو رسالہ پسند ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔ آپ ہمیں بتائیں کہ رسالے کو کس طرح اور زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے۔ ایڈیٹر[
طالبات کی رہنمائی کی ضرورت
ماہنامہ حجابِ اسلامی میرا پسندیدہ رسالہ ہے۔ میں اس کی پانچ کاپیاں ہر ماہ منگاتا ہوں اور مختلف پڑھنے والے احباب کو تقسیم کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح میں نیک کام انجام دے رہا ہوں اور اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہوں۔ آپ کا رسالہ خواتین و طالبات میں دینی و فکری بیداری کا ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہورہی ہے۔ اور اس وقت مسلم طالبات بھی تعلیم کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ انجینئر بن رہی ہیں، ڈاکٹر بن رہی ہیں اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں بیداری کا دخل ہے، وہیں شہر شہر کھلے تعلیمی اداروں کا بھی کردار ہے۔ میرے ذہن میں ایک بات بار بار آتی ہے کہ مسلم سماج کی جو لڑکیاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہیں اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کررہی ہیں ان میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور دینی بیداری کے لیے مسلم سماج کی طرف سے ایک ایسی مہم شروع ہونی چاہیے کہ ان کے اندر اس بات کا شعور پیدا ہو کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بھی ترقی کی اعلیٰ منزلیں طے کرسکتی ہیں۔ اسلام پسند لوگ کیونکہ اس طرح کی طالبات کو قریب کرنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے وہ جدید تہذیب کے سانچے میں ڈھل کر اسلام سے دور ہوجاتی ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول تو ہے ہی ایسا آزاد کہ وہاں اسلامی اخلاق و اقدار کے ساتھ رہنا ایک چیلنج ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں اپنے رسالے میں رہنمائی کرتے رہیں تاکہ طالبات کی تحریک کو رہنمائی اور حوصلہ ملے۔
منیر زیدی، بنگلور
]منیر صاحب! آپ نے بجا فرمایا ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور ہم ان شاء اللہ اس موضوع پر تحریریں شائع کرتے رہیں گے۔ ایڈیٹر[
مہم کو آگے بڑھانے کی ضرورت
حجابِ اسلامی میں گزشتہ ایک سال سے پڑھ رہا ہوں۔ یہ ایک مفید رسالہ ہے جس کی ضرورت ہر مسلم گھرانے کو ہے۔ آپ مختلف دینی، تعلیمی اور تربیتی موضوعات پر جو تحریریں شائع کرتے ہیں وہ مسلم سماج میں اصلاح و بیداری کی مہم ہے اور اس مہم کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں مسلمان تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں اور لڑکیاں اور خواتین اور بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔ آپ اپنے رسالے کے ذریعے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کی کوشش کریں۔ تعلیم ہی کے ذریعے سماج میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ عورت ایک تعلیم یافتہ مرد سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا رسول اور صحابہ اور ان کے بعد کے دور میں جس قدر اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین موجود تھیں اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں ملتی ہے؟ مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ اسلامی تاریخ کے بڑے علماء نے خواتین عالمات سے درس لیا تھا۔ اور جس طرح کوفہ و بغداد میں مرد علماء کے حلقے چلتے تھے، اسی طرح خواتین عالمات و فاضلات کے بھی حلقے چلتے تھے جن میں نہ صرف عورتیں شریک ہوتی تھیں بلکہ مرد بھی شریک ہوتے تھے۔
ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور عبرت حاصل کریں۔
وصی احمد (ایڈوکیٹ)،اندور
پسندیدہ اشعار کے بارے میں
کالم پسندیدہ اشعار میں اکثر گھسے پٹے، عامیانہ اور پچاس ہزار بار سنے ہوئے اور پڑھے ہوئے اشعار شائع ہوتے ہیں جو بہت بور کرتے ہیں لہٰذا ایسے اشعار کو اب نظر انداز کریں توبہتر ہے۔
اشعار میں جدت، ندرت، کچھ نیا پن اور منفرد انداز ہونا چاہیے۔
مدیحہ عبید بن شباب، اورنگ آباد
]مدیحہ صاحبہ! پسندیدہ اشعار کے تحت جو اشعارشائع ہوتے ہیں، وہ بچے بچیوں کے ارسال کردہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے بچوں کے انتخاب میں ندرت، جدت، اور نیاپن آنامشکل ہے۔ ان بچوں کے ذریعے بھیجے گئے اشعار کو آپ اپنے معیار پر پرکھنے کی کوشش نہ کریں یہ تو محض بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔
ایڈیٹر[
——