حجاب کے نام
’حجاب‘ نہ صرف اردو ادب کا ترجمان ہے بلکہ تعمیر اخلاق کا ضامن بھی ہے۔ کسی بھی رسالہ کو بہتر بنانے میں مدیر کی سوچ اور شخصیت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ وسیع النظر اور مخلص شخص دلوں کو جیت لیتا ہے۔ پرچے کی صوری و معنوی شکل کا اثر قارئین پر بہت ہی اچھا مرتب ہوتا ہے۔ کسی بھی تخلیق کو بہتر طریقے پر چھاپئے تو وہ نہ صرف آنکھ کو بلکہ دل کو بھی لبھاتی ہے۔ اس سے نہ صرف فنکار کی عزت افزائی ہوتی ہے بلکہ پرچے کا وقار بھی بلند ہوتا ہے۔
اردو ادب کی خدمت کے لیے فنکار، مدیر اور قاری کی یکساں اہمیت ہے۔ ادب تفریح کا ذریعہ بھی ہے اور بصیرت کا بھی۔ اس سے انسانی زندگی بلند سے بلند تر ہوتی ہے۔ تخلیقات کے ذریعے مطالعہ کا ذوق آگے بڑھے، قاری قریب آئے اور پڑھنے والوں کی تعداد بڑھے، تو مثبت اثرات قائم ہوں گے۔ مجھے امید ہے ہم آپ اور قارئین اس پیاری اور میٹھی زبان کی ترقی میں معاون بھی ثابت ہوں گے اور قارئینکے ذہن و فکر کو روحانی غذا بھی فراہم کرسکیں گے۔ کوشش کیجیے کہ دلوں کو راحت بخشنے والی تحریریں عام کی جاسکیں، جس سے دلوں میں جوڑ پیدا ہو اور محبت و یگانگت کی فضا قائم ہوسکے۔
زندگی مقصد کے ساتھ جینے کا نام ہے، مقصد جتنا بلند ہوگا زندگی اتنی ہی اعلیٰ و ارفع ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فکر و نظر کی بنیادیں صحیح ہوں اور زاویۂ نگاہ درست ہو۔ موجودہ دور میں نالیج اکنامی کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اہلِ علم حضرات اور قلم کار احباب کا ایک نالیج ٹینک قائم ہو تاکہ فکر و فن کو اسلامی اقدار سے ہم آہنگ کیا جاسکے اور ادب کے ذریعہ ایک صالح معاشرہ پھر سے زندہ ہوجائے۔
فون کے ذریعہ آپ سے گفتگو ہوئی تھی۔ میں آپ کے خیالات کا خیر مقد کرتا ہوں۔ اس سلسلہ میں انشاء اللہ میرا تعاون برقرار رہے گا۔
’’لمبی راہوں کے مسافر‘‘ کی پسندیدگی اور شاملِ اشاعت کی اطلاع کے لیے مشکور ہوں۔ حسبِ فرمائش مزید چھ کہانیاں ارسالِ خدمت ہیں۔ مناسب وقت پر انہیں شائع فرمادیں۔ ’’لمبی راہوں کے مسافر‘‘، ’’نقطے‘‘ اور ’’پناہ‘‘ ایک کہانی کی تین کڑیاں ہیں، جو اپنی جگہ مکمل بھی ہیں اور دعوتِ فکر بھی دے رہی ہیں اور بین السطور اسلامی معاشرے سے جڑے رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ ایک تحریر دوسری تحریر کے لیے محرک ثابت ہوتی ہے اگرمیری کوشش مزید تحریریں پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائیںاور اس سے فوز و فلاح حاصل ہوجائے تو ہماری نجات کا باعث ہوں گی۔
کوشش کیجیے کہ صاف ستھری تخلیقات کو یکجا کرکے ایک ’افسانہ نمبر‘ شائع کیا جائے۔ اور ہاں مخلص شخص کے دو بول بھی سوکھی زمین پر بارش کا کام کرتے ہیں اور بہترین ادب تخلیق ہونے کا ذریعہ بھی۔
انور کمال، جونامبوکار، وانم باڑی، تملناڈو
عورت اور گھر کا محاذ
جنوری کا شمارہ لیٹ ملا۔ ہر ماہ پہلے ہی ہفتے میں مل جاتا تھا۔ کافی انتظار کرنا پڑا اس بار تو۔ ’’خواتین اور گھر کا محاذ‘‘ پسند آیا۔ حقیقت میں گھر ہماری خواتین کے لیے سب سے بڑا اور اہم محاذ ہے۔ اور اگر کوئی خاتون اس محاذ پر اپنی جدوجہد مرکوز کرتی ہے تو اس کے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ نے انسانوں کے لیے مرد و عورت کے جو میدانِ کار متعین کیے ہیں اس میں عورت کو گھر کا ’’راعی‘‘ قرار دیا ہے اور بال بچوں کی دیکھ ریکھ، صالح تعلیم و تربیت سے لے کر گھر کے انتظامات تک اس کے دائرہ عمل میں آتے ہیں۔ جو مائیں اپنے بچوں پر محنت کرتی اور ان کی اچھی تربیت کا انتظام کرتی ہیں وہ یقینا بڑی اور اہم ذمہ داری ادا کررہی ہیں۔ اس کے برخلاف اگر کوئی عورت گھر بار اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی قیمت پر گھر کے باہر چاہے کتنی بھی عظیم خدمت کرلے وہ نہ تو حقیقی خوشی و مسرت کا سبب بن سکتی ہے اور نہ سماج کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔
میرا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عورت گھر کے علاوہ کوئی کام نہیں کرسکتی یا اسے نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اس کی ترجیح اس کا گھر اور بال بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت ہو۔ اس کے ساتھ کوئی عورت اگر دوسری خدمات انجام دے تو اسے ضرور دینی چاہیے بلکہ ہر عورت کو اپنے گھر کے کاموں سے کچھ وقت ایسا ضرور نکالنا چاہیے جس میں سماج کی فلاح و رہنمائی اور دعوت و تبلیغ کا کام کرسکے۔
حجابِ اسلامی اچھے خیالات کا نمائندہ رسالہ ہے۔ اس کی یہ خوبی بہت خاص ہے کہ خواتین کے لیے اس میں وہ کچھ ہوتا ہے جس کی ہمارے گھروں کو ضرورت ہے۔ اپنی افادیت کے سبب یہ رسالہ اتنا اہم ہے کہ اسے لوگ دوسروں تک پہنچانے کوشش کریں۔ اس طرح معاشرے میں خصوصاً خواتین میں دینی بیداری پیدا ہوگی۔
محمد اسلام رضوی، گولا گنج، لکھنؤ
مضامین پسند آئے
فروری کا حجاب اسلامی خوبصورت رنگوں سے سجے ٹائٹل کے ساتھ موصول ہوا۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ میں پورا رسالہ ایک ہفتہ کے اندر اندر ختم کرلیتی ہوں اور کبھی کبھی تو اس سے بھی پہلے۔ میں ایک اسکول ٹیچر ہوں اس لیے وقت کم ملتا ہے ورنہ جی چاہتا ہے کہ ناول کی طرح ایک ہی بیٹھک میں پڑھ لوں۔
اس ماہ کے مضامین میں کئی مضامین بہت زیادہ اچھے لگے۔ ان میں سب سے زیادہ پسند آنے والا مضمون تھا ’’بیمار دل کا علاج یوں بھی ہوتا ہے۔‘‘ یہ مضمون اس لیے بھی پسند آیا کہ بالکل انہی دنوں ہمارے ایک کلیگ کو ہاٹ اٹیک پڑا تھا۔ میں نے اس کی فوٹو کاپی کراکر فوراً انہیں پہنچادی۔ شاید وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور اللہ تعالیٰ ان کو شفا سے نواز دے۔
گوشۂ سیرت کے تحت مضامین کا انتخاب پسند آیا۔ خاص طور پر ماہ رخ صاحبہ کا مضمون ’’رسول سے محبت کا تقاضہ‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ سرورق کے تحت کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار واقعی چونکا دینے والے ہیں۔ فکر صحت اور ازدواجیات پر مضامین مفید ہیں۔
افسانوں میں ’’بھکارن‘‘ سمجھنے میں دشواری ہوئی۔ ایٹی اور محبت کی پیاس پسند آئے۔ خواتین کے رسالوں میں قسط وار ناول پسند کیے جاتے ہیں۔ آپ بھی کوئی اچھا سلسلہ شروع کریں تو خواتین کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوگا۔
جلیلہ انور صالحاتی ،بھداروتی (کرناٹک)
ایک شکایت
جنوری کا حجاب اسلامی ابھی ابھی ملا ہے۔ یعنی ۱۹؍جنوری کو۔ مجھے حجاب اسلامی بہت پسند ہے اور میرے گھر کے دیگر افراد کو بھی۔ مگر میری ایک شکایت ہے کہ آپ پرچہ کبھی صحیح وقت پر بھیج دیتے ہیں اور کبھی کافی لیٹ ہوجاتا ہے۔ انتظار کی شدت میں کافی الجھن ہوتی ہے۔ براہِ کرم وقت پر پرچہ ارسال کیا کریں۔
شاذیہ تمنا، کلکتہ
]شاذیہ صاحبہ آپ کو پرچہ کافی لیٹ ملتا ہے۔ ہمیں افسوس ہے۔ مگر اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں، محکمۂ ڈاک کی کرم فرمائی ہے۔ آپ کو پرچہ ایک ماہ بعد مل تو گیا، کتنے قارئین ایسے ہیں جنہیں پرچہ ملتا ہی نہیں۔ آپ نوٹ فرمالیں کہ ہمارے یہاں سے ہر ماہ کی ۲۰،۲۱ تاریخ کو پرچہ پوسٹ کردیا جاتا ہے۔ پوسٹل ڈپارٹمنٹ نے یہی تاریخیں ہمیں دی ہیں۔ بیک ٹائٹل پر لکھا ہوا بھی ہوتا ہے۔ اگر ہم ان تاریخوں میں پرچہ پوسٹ نہ کریں تو ہمیں کئی گنا زیادہ فائن دینا پڑتا ہے۔ بہرحال تاخیر کا سبب ادارہ نہیں بلکہ ڈاک کا نظام ہے۔ اگر مسلسل آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو آپ اپنے ڈاک خانے میں تحریری شکایت درج کرائیں اور ریسیونگ کاپی ہمیں ارسال کریں ہم یہاں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے یہاں اس کی بنیاد پر شکایت کریں گے۔ایڈیٹر