فلسطینی مجاہد
۲۲؍مارچ کو فلسطین کے معذور مگر عظیم مجاہد شیخ احمد یٰسین کو اسرائیلی حکومت نے اپنی افواج کے ذریعہ شہید کرادیا۔ ویسے تو اسرائیل گذشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے عرب فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہا ہے اور ہزاروں ہزار بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں ان کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں مگر شیخ احمد یٰسین کی شخصیت بڑی عظیم اور قدآور تھی۔ وہ گذشتہ دنوں سے یہودیوں کے نشانہ پر تھے۔
ان کی شہادت نے پورے مسئلہ فلسطین کو نیا موڑ دے دیا۔ اور عرب فلسطینیوں کے دلوں میں جارح اسرائیل کے لیے نفرت کے فوارے ابلنے لگے جو انھیں کچھ بھی کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ویسے اسرائیل نے، مجھے لگتا ہے، شیخ کو شہید کراکر اسٹرٹیجک غلطی کی اور اس کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ یہ دیگر تجزیہ نگاروں کی بھی رائے ہے۔
مجھے جس چیز پر حیرت ہوئی ہے اور جو میں قارئین کو بتانا چاہتاہوں کہ وہ یہ ہے کہ شیخ یٰسین بچپن میں ہی معذور ہوگئے تھے۔ ان کی بینائی بھی بہت کم تھی اور اپنے آپ چل پھر بھی نہیں سکتے تھے مگر پھر بھی اس فرد واحد نے نہ صرف امت فلسطین کو منظم و متحد کیا بلکہ عالمی سطح پر لوگوں کے درمیان زبردست بیداری پیدا کی۔ شیخ کی زندگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عزائم اور مقاصد کی راہ میں کوئی بھی چیز روڑہ نہیں بن سکتی خواہ وہ جسمانی معذوری ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک سبق آموز اور عزم و حوصلہ سے بھرپور زندگی تھی جو تمام ہوئی اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
وحیدہ اطہر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
حجاب کی نئی اشاعت
اپنے ایک دوست کے گھر مارچ کا حجاب اسلامی دیکھا۔ اور فوراً زبان سے نکلا ’’ارے کیا حجاب نکلنے لگا۔‘‘ اٹھایا اور الٹ پلٹ کر دیکھا۔ بہت خوشی ہوئی اسے دیکھ کر۔ مگر مجھے حیرت ہے کہ ابھی تک مجھے حجاب کی اشاعت کے بارے میں معلوم نہ ہوسکا تھا۔ اور بھی بہت سے حجاب کے قارئین ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں گے کہ حجاب تو بند ہے۔
میری گزارش ہے کہ آپ مختلف رسائل و جرائد میں اشتہار وغیرہ دے کر اس اطلاع کو عام کیجیے کہ حجاب اب حجاب اسلامی کے نام سے نکل رہا ہے اور اب یہ دہلی سے شائع ہورہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کا یہ اشتہار حجاب کے بہت سے متوالوں کے لیے اچھی خبر ہوگا۔ امید کہ میری بات پر دھیان دیں گے۔
خلیل ناصر،دھنباد، (جھارکھنڈ)
تبدیلی خوش آئند ہے
مارچ اور اپریل کے دو شمارے مجھے پڑھنے کو ملے۔ میری خواہش ہے ، گذشتہ شمارے بھی مجھے حاصل ہوجائیں تاکہ تسلسل قائم رہے اور میں فائل بھی بناسکوں۔ میرے گھر میں حجاب کی دسیوں سال پرانی فائلیں مجلد رکھی ہیں۔ حجاب کا مطالعہ مجھے ورثہ میں ملا ہے۔ میری والدہ اس وقت سے اس کی قاری تھیں جب سے مرحوم مائل خیرآبادی نے اسے جاری کیا۔
گذشتہ پندرہ سالوں سے حجاب کا مطالعہ شعور کے ساتھ ہونے لگا۔ میرے مطالعہ میں مائل صاحب اور ابن فرید صاحب دونوں ہی کے دور کا حجاب رہا ہے۔ اب دو تین سال کے بعد جب حجاب ملا تو بڑی خوشی ہوئی۔ اس میں جو تبدیلیاں آپ نے کی ہیں وہ ہمہ جہت ہیں۔ گیٹ اپ سے لے کر مواد تک میں آپ نے بہت سے ایسے گوشے لے لیے جو پہلے شامل حجاب نہ تھے۔ اس پہلو سے یہ تبدیلی خوش آئند ہے کہ خواتین و طالبات کی ضرورتوں کی تکمیل میں اب کا حجاب زیادہ تیز رفتار معلوم ہوتا۔
میری خواہش ہے اور دعا بھی کہ حجاب مستقل جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مسائل کو حل فرمائے اور حجاب کو جو اب حجاب اسلامی کے نام سے شروع ہوا ہے خوب ترقی دے۔ آپ کوششیں جاری رکھئے معیار کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھئے۔ اللہ آپ کی مدد فرمائے گا۔
ساجدہ نوریں، اجین (ایم پی)
— ادارہ معذرت خواہ ہے کہ آپ گذشتہ تمام شمارے فراہم نہیں کراسکتا۔ البتہ نومبر، دسمبر اور جنوری کے چندشمارے موجود ہیں قارئین کے مطالبہ پر انھیں فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ڈاک کا اضافی خرچ برداشت کرنا ہوگا۔ ایڈیٹر
حجاب کے لطائف
میں اکثر و بیشتر دوسرے رسالوں کا مطالعہ کرتا تھا اور حجاب سے بالکل انجان تھا۔ لیکن جب سے حجاب پڑھنا شروع کیا ہے اس کا انتظار کرتا رہتا ہوں۔ ابھی اپریل کا حجاب موصول ہوا ہے۔ اس میں فکرو آگہی ، احساس، اور کہانیاں پسند آئیں۔ اقوال زریں بھی روح پرور ہیں۔ آپ کی محبت ہمارے دلوں میں ایک مہکتا ہوا پھول ہے۔ اللہ کرے یہ رسالہ آفتاب و ماہتاب کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے۔ حجاب کو پڑھ کر ہماری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور انشاء اللہ اور اضافہ ہوگا۔آپ سے صرف یہ درخواست ہے کہ لطائف اچھے اور مزیدار شائع کرنے کی کوشش کریں۔ کیوںکہ حجاب کے لطائف کو پڑھ کر ’’ہنسنے کے بجائے رونا آتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ حجاب کو آسمان کے ستاروں کی طرح روشن کرے۔ اللہ حافظ
محمد فہیم ازہرؔ
اینگلو عربک، سینئر سیکنڈری اسکول، دہلی
قابل غور
موقر ماہنامہ حجاب اسلامی مسلسل مل رہا ہے۔ الحمدللہ چند ہی دنوں میں رسالہ کو کافی ترقی ملی۔ آپ کی محنت اور جہد مسلسل سے کافی نکھار آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ حجاب اسلامی کے ذریعہ قارئین کو آپ نے جو معیار اور وقت کی پابندی دی ہے اسے برقرار رکھا جانا چاہیے۔ یہی ہماری خواہش ہے اور آئندہ اسی کی توقع ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حجاب کے دوسرے صفحے پر بانی دور اول اور پھر بانی دور ثانی لکھا ہے اس پر آپ کو نظر ثانی کرنی چاہیے۔
دراصل کسی بھی فاؤنڈیشن کا بانی ایک ہی ہوتا ہے اور دوسرے لوگ جو مختلف ادوار اور حالات میں تحریک پیدا کرتے ہیں یا نئی زندگی بخشتے ہیں ، یا دوسری نشأت عطا کرتے ہیں وہ بانی نہیں کہلاتے بلکہ محرک ہوتے ہیں۔ بانی تو وہی ہوتا ہے جس نے عمارت کی پہلی اینٹ رکھی ہو۔ اور میری معلومات کی حد تک ایسا نہیں تھا کہ مائل خیر آبادی صاحب نے حجاب بند کردیا تھا اور الگ سے ابن فرید صاحب نے اس کی بنیاد از سر نو رکھی ہو بلکہ نامساعد حالات کی وجہ سے مائل خیر آبادی صاحب بند کرنا چاہتے تھے تو جناب ابن فرید صاحب نے اسے لے لیا اور ایک نئی جان ڈالی۔ مجھے امید ہے کہ آپ نے اس پر غور بھی کیا ہوگا۔ بہر حال میرے خیال میں تو بانی صرف مائل خیر آبادی صاحب کو رکھنا چاہیے اور نشاۃ ثانیہ یا ادارت ثانیہ کے بطور ابن فرید صاحب اور ام صہیب کا نام رکھنا چاہیے۔
ابوالقاسم اصلاحی،رتنا گیری
مغربی تہذیب
ماہنامہ حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ نظر نواز ہوا۔ ’’خواتین کا عالمی مسئلہ‘‘ پڑھ کر حالات حاضرہ کی معلومات میں اضافہ ہوا۔ میں اس کے لیے ادارہ کا شکر گزار ہوں۔ بلاشبہ مغربی تہذیب نے عورت اور مرد کی بنیاد پر جاری تفریق کو ختم کرکے یکساں مواقع کا درس دیا جو خوش کن بات ہے۔ یہ بات بھی قابل تردید نہیں ہے کہ مساواتِ مردو زن سے ممالک و اقوام کا استحصال ہی ہوا ہے۔ اگر خواتین ملت کو مغربی تہذیب کے خلافت تحریک چلانے پر آمادہ نہ کیا گیا تو ملت اسلامیہ کو انجام بد سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ الا ماشاء اللہ۔ کالم ’’کلام باری تعالیٰ‘‘ اور ’’کلام خیر الانام‘‘ کی تشریح قابل تعریف ہے۔
صاحب عالم انصاری، الہ آباد، یوپی