منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ رکھنا گوارا نہیں کرسکتے تھے لیکن ایک تو بچے کی صحت کی فکر، دوسرے اپنے برابر والوں سے ہیٹے بن کر رہنے کی ذلت یہ خرچ برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر دم اس کے گلے کا ہار بنا رہتا۔ اس وجہ سے دایہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی مگر شاید سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مروت کے باعث دایہ کو جواب دینے کی جرأت نہ کرسکتے تھے۔ بڑھیا ان کے ہاں تین سال سے نوکر تھی۔ اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کیڑے نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا مگر شاکرہ اس معاملے میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایہ انہیں لوٹے لیتی ہے۔ جب دایہ بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی، لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ وہ اس کی لائی ہوئی چیز کو گھنٹوں دیکھتی، بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اتنا مہنگا ہوگیا؟ دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب ملائمت سے دیتی، لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہوجاتیں تو وہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔ قسمیں کھاتیں، صفائی کی شہادتیں پیش کرتی۔ تردید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے۔
قریب قریب روازانہ یہی کیفیت رہتی۔ اور روز یہ ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہوجاتا۔ اس کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہناشاکرہ کے شکوک کی آب ریزی کرتا تھا۔ اسے کبھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچے کی محبت سے پڑی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو ایسے لطیف جذبے کی حامل نہیں سمجھتی تھی۔
٭٭٭
اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہوگئی۔ وہاں دو کنجڑیوں میں بڑے جوش و خروش سے مناظرہ ہو رہا تھا۔ ان کا مصور طرز ادا، ان کا اشتعال انگیز استدلال، ان کی متشکل تضحیک، ان کی روشن شہادتیں اور منور روایتیں، ان کی تعریض اور تردید سب بے مثال تھیں۔ زہر کے دو دریا تھے یا دو شعلے جو دونوں طرف سے امڈ کر باہم گتھ گئے تھے۔ کیا رواں زبان تھی گویا کوزے میں دریا بھرا ہوا۔ ان کا جوش اظہار ایک دوسرے کے بیانات سننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ ان کے الفاظ کی ایسی رنگینی، تخیل کی ایسی نوعیت، اسلوب کی ایسی جدت، مضامین کی ایسی آمد، تشبیہات کی ایسی موزونیت اور فکر کی ایسی پرواز پر ایسا کون شاعر ہے جو رشک نہ کرتا۔ صفت یہ تھی کہ اس مباحثے میں تلخی یا دل آزاری کا شائبہ بھی نہ تھا۔ دونوں بلبلیں اپنے اپنے ترانوں میں محو تھیں۔ ان کی متانت، ان کا ضبط، ان کا اطمینان سب حیرت انگیز تھا۔ ان کے ظرف دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے اور بدرجہا زیادہ سننے کی گنجائش معلوم ہوتی تھی ۔ الغرض یہ خالص دماغی، ذہنی مناظرہ تھا اپنے اپنے کمالات کے اظہار کے لیے۔ ایک خالص زور آزمائی تھی اپنے اپنے کرتب اور فن کے جوہر دکھانے کے لیے۔
تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ وہ مبتذل کنایات و اشارات جن پر بے شرمی کو شرم آتی اور وہ کلمات رکیک جن سے عفونت بھی دور بھاگتی، ہزاروں رنگین مزاجوں کے لیے محض باعثِ تفریح تھے۔
دایہ بھی کھڑی ہوگئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے پر تماشا اتنا دل آویز تھا کہ اسے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا۔ یکایک نو بجنے کی آواز کان میں پڑی تو سحر ٹوٹا۔ وہ لپکی ہوئی گھر کی طرف چلی۔
شاکرہ بھری بیٹھی تھی۔ دایہ کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی: ’’کیا بازار میں کھو گئی تھیں؟‘‘
دایہ نے خطاوارانہ انداز سے سرجھکالیا اور بولی: ’’بی بی! ایک جان پہچان کی ماما سے ملاقات ہوگئی اور باتیں کرنے لگی۔‘‘
شاکرہ اس جواب سے اور بھی برہم ہوئی۔ ’’یہاں دفتر جانے کو دیر ہورہی ہے، تمہیں سیر سپاٹے کی سوجھی ہے۔‘‘ مگر دایہ نے اس وقت دبنے میں خیریت سمجھی۔ وہ بچہ گود میں لینے چلی مگر شاکرہ نے جھڑک کر کہا: ’’رہنے دو، تمہارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔‘‘
دایہ نے اس حکم کی تعمیل ضروری نہ سمجھی۔ بیگم صاحبہ کا غصہ فرو کرنے کی اس سے زیادہ کارگر کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔ اس نے نصیر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا، اس کی طرف چلا۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھا لیا اور دروازے کی طرف چلی لیکن شاکرہ باز کی طرح جھپٹی اور نصیر کو اس کی گود سے چھین کر بولی: ’’تمہارا یہ مکر بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ یہ تماشے کسی اور کو دکھائیے۔ یہاں طبیعت سیر ہوگئی۔‘‘
دایہ نصیر پر جان دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ شاکرہ اس سے بے خبر نہیں۔ اس کی سمجھ میں شاکرہ اور اس کے درمیان یہ ایسا مضبوط تعلق تھا جسے معمولی ترشیاں کمزور نہ کرسکتی تھیں۔ اسی وجہ سے باوجود شاکرہ کی سخت زبانیوں کے اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ واقعی اسے نکالنے پر آمادہ ہے۔ لیکن شاکرہ نے یہ باتیں کچھ اس بے رخی سے کہیں اور بالخصوص نصیر کو اس بے دردی سے چھین لیا کہ دایہ سے ضبط نہ ہوسکا، بولی: ’’بیوی! مجھ سے کوئی ایسی بڑی خطا تو نہیں ہوئی۔ بہت ہوگا تو پاؤ گھنٹے کی دیر ہوئی ہوگی۔ اس پر آپ اتنا جھلا رہی ہیں۔ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا دروازہ دیکھو۔ اللہ نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے گا۔ مزدوری کا کال تھوڑا ہی ہے۔‘‘
شاکرہ: تو یہاں تمہاری کون پروا کرتا ہے؟ تمہاری جیسی مامائیں گلی گلی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں۔
دایہ: ہاں، خدا آپ کو سلامت رکھے۔ مامائیں، دائیاں بہت ملیں گی۔ جو کچھ خطا ہوئی ہو، معاف کیجیے گا۔ میں جاتی ہوں۔
شاکرہ: جاکر مردانے میں اپنی تنخواہ کا حساب کرلو۔
دایہ: میری طرف سے نصیر میاں کو اس کی مٹھائیاں منگوادیجیے گا۔
اتنے میں صابر حسین بھی باہر سے آگئے۔ پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘
دایہ : کچھ نہیں، بیوی نے جواب دے دیا ہے۔ گھر جاتی ہوں۔
صابر حسین خانگی ترددات سے یوں بچتے تھے جیسے کوئی برہنہ پا کانٹوں سے بچے۔ انہیں سارا دن ایک ہی جگہ کھڑے رہنا منظور تھا پر کانٹوں میں پیر رکھنے کی جرأت نہ تھی۔ چیں بہ جبیں ہوکر بولے: ’’کیا بات ہوئی؟‘‘
شاکرہ: کچھ نہیں، اپنی طبیعت۔ نہیں جی چاہتا نہیں رکھتے۔ کسی کے ہاتھوں بک تو نہیں گئے۔
صابر: تمہیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک کھچڑ سوجھتی رہتی ہے۔
شاکرہ: ہاں! مجھے تو اس بات کا جنون ہے۔ کیا کروں؟ خصلت ہی ایسی ہے۔ تمہیں یہ بہت پیاری ہے تو لے جاکر گلے باندھو۔ میرے یہاں ضرورت نہیں ہے۔
دایہ گھر سے نکلی تو اس کی آنکھیں لبریز تھیں۔ دل نصیر کے لیے تڑپ رہا تھا کہ ایک بار بچے کو گود میں لے کر پیار کرلوں پر یہ حسرت لیے اسے گھر سے نکلنا پڑا۔
نصیر دایہ کے پیچھے پیچھے دروازے تک آیا لیکن جب اس نے دروازہ باہر سے بند کردیا تو مچل کر زمین پر لیٹ گیا اور ’’انا، انا‘‘ کہہ کر رونے لگا۔ شاکرہ نے چمکارا، پیار کیا، گود میں لینے کی کوشش کی۔ مٹھائی کا لالچ دیا، میلہ دکھانے کا وعدہ کیا۔ اس سے کام نہ چلا تو بندر اور سپاہی اور لولو اور ہوا کی دھمکی دی مگر نصیر پر مطلق اثر نہ ہوا یہاں تک کہ شاکرہ کو غصہ آگیا۔ اس نے بچے کو وہیں چھوڑ دیا اور آکر گھر کے دھندوں میں مصروف ہوگئی۔ نصیر کا منہ اور گال سرخ ہوگئے۔ آنکھیں لال ہوگئیں۔ آخر وہ وہیں زمین پر سسکتے سسکتے سوگیا۔
شاکرہ نے سمجھا تھا کہ تھوڑی دیر میں بچہ رو دھو کر چپ ہوجائے گا پر نصیر نے جاگتے ہی پھر انا کی رٹ لگائی۔ تین بجے صابر حسین دفتر سے آئے اور بچے کی یہ حالت دیکھی تو بیوی کی طرف سے قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا اور بہلانے لگے۔ آخر نصیر کو جب یقین ہوگیا کہ دایہ مٹھائی لینے گئی ہے تو اسے تسکین ہوئی مگر شام ہوتے ہی اس نے پھر چیخنا شروع کردیا۔ ’’انا مٹھائی لائی؟‘‘
اس طرح دو تین دن گزر گئے۔ نصیر کو انا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ وہ بے ضرر کتا جو ایک لمحے کے لیے اس کی گود سے جدا نہ ہوتا تھا، وہ بے زبان بلّی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا، وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا سب اس کی نظروں سے پرواز کرگئے۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ انا جیسی جیتی جاگتی، پیار کرنے والی، گود میں لے کر گھمانے والی، تھپک تھپک کر سلانے والی، گا گا کر خوش کرنے والی چیز کی جگہ ان بے جان، بے زبان چیزوں سے پر نہ ہوسکتی تھی۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا اور انا انا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا گویا اسے بلا رہا ہو۔ انا کی خالی کوٹھڑی میں جاکرگھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسے امید ہوتی تھی کہ انا یہاں آتی ہوگی۔ اس کوٹھڑی کا دروازہ بند پاتا تو جاکر کواڑ کھٹکھٹا تا کہ شاید انا اندر چھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلنے کی آواز سنتا تو انا انا کہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں باپ دونوں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس کر رہ گئے۔ اگر بہت گدگدانے اور چھیڑنے پر ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں، محض دل رکھنے کے لیے ہنس رہا ہے۔ اسے اب دودھ سے رغبت تھی نہ مصری سے، میوہ سے نہ بیٹھے بسکٹ سے اور نہ تازہ امرتیوں سے۔ ان میں مزہ تھا جب انا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں مزہ نہ تھا، دو سال کا ہونہار لہلہاتا ہوا شاداب پودا مرجھا کر رہ گیا۔ وہ لرکا جسے گود میں اٹھاتے ہی نرمی، گرمی اور وزن کا احساس ہوتا تھا اب استخوان کا ایک پتلا رہ گیا تھا۔ شاکرہ بچے کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی اور اپنی حماقت پر پچھتاتی۔ صابر حسین جو فطرتاً خلوت پسند آدمی تھے، اب نصیر کو گود سے جدا نہ کرتے تھے۔ اسے روز ہوا کھلانے جاتے، نت نئے کھلونے لاتے پر مرجھایا ہوا پودا کسی طرح نہ پنپتا تھا۔ دایہ اس کی دنیا کا آفتاب تھی۔ اس قدرتی حرارت اور روشنی سے محروم ہوکر وہ سبزے کی بہارکیوں کر دکھاتا؟ دایہ کے بغیر اسے چاروں طرف اندھیرا، سناٹا نظر آتا تھا۔ دوسری انا تیسرے ہی دن رکھ لی گئی تھی پر نصیر اس کی صورت دیکھتے ہی منہ چھپا لیتا تھا گویا وہ کوئی دیونی یا بھتنی ہے۔
عالم وجود میں دایہ کو نہ دیکھ کر نصیر اب زیادہ تر عالمِ خواب میں رہتا۔ وہاں اس کی اپنی انا چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ اس کی وہی گود تھی اور وہی محبت، وہی پیاری باتیں، وہی پیارے پیارے گیت، وہی مزے دار مٹھائیاں، وہی سہانا سنسار اور وہی دلکش لیل و نہار۔ اکیلے بیٹھا انا سے باتیں کرتا: ’’انا! کتا بھونکے۔انا! گائے دودھ دیتی۔ انا! اجلا اجلا گھوڑا دوڑتا۔‘‘ سویرا ہوتے ہی دایہ کی کوٹھڑی میں جاتا اور کہتا: ’’انا ! پانی پی۔ دودھ کا گلاس لے کر اس کی کوٹھڑی میں رکھ آتا اور کہتا: ’’انا سوتی۔‘‘ شاکرہ کھانے بیٹھتی تو رکابیاں اٹھا اٹھا کر انا کی کوٹھڑی میں لے جاتا اور کہتا: ’’انا کھانا کھائے گی۔‘‘ انا اس کے لیے اب ایک آسمانی وجود تھی جس کی واپسی کی اب اسے مطلق امید نہ تھی۔ وہ محض گزشتہ خوشیوں کی دلکش یادگار تھی جس کی یاد ہی اس کا سب کچھ تھا۔
نصیر کے انداز میں رفتہ رفتہ طفلانہ شوخی اور بیتابی کی جگہ ایک حسرت ناک توکل، ایک مایوسانہ خوشی نظر آنے لگی، اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ برسات کا موسم تھا۔ کبھی شدت کی گرمی، کبھی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے۔ بخار اور زکام کا زور تھا۔ نصیر کی نحافت ان موسمی تغیرات کو برداشت نہ کرسکی۔ شاکرہ احتیاطاً اسے فلالین کا کرتا پہنائے رکھتی، پانی کے قریب نہ جانے دیتی، ننگے پاؤں ایک قدم نہ چلنے دیتی مگر رطوبت کا اثر ہوہی گیا۔ نصیر کھانسی اور بخار میں مبتلا ہوگیا۔
صبح کا وقت تھا۔ نصیر چارپائی پر آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ ڈاکٹروں کا علاج بے سود ہورہا تھا۔ شاکرہ چارپائی پر بیٹھی اس کے سینے پر تیل کی مالش کررہی تھی اور صابر حسین صورتِ غم بنے، بچے کو پردرد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اب شاکرہ سے کم بولتے تھے۔ انہیں اس سے ایک نفرت سے ہوگئی تھی۔ وہ نصیر کی اس بیماری کا سارا الزام اسی کے سر رکھتے تھے۔ وہ ان کی نگاہوںمیں نہایت کم ظرف، سفلہ مزاج، بے حس عورت تھی۔
شاکرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا: ’’آج برے حکیم صاحب کو بلا لیتے۔ شاید انہی کی دوا سے فائدہ ہو۔‘‘
صابر حسین نے کالی گھٹاؤں کی طرف دیکھ کر ترشی سے جواب دیا: ’’بڑے حکیم نہیں، لقمان بھی آئیں تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
شاکرہ: تو اب کیا کسی کی دوا ہی نہ ہوگی؟
صابر: بس اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نایاب ہے۔
شاکرہ: تمہیں تو وہی دھن سوار ہے۔ کیا عباسی اسے امرت پلاد ے گی؟
صابر: ہاں وہ تمہارے لیے چاہے زہر ہو لیکن بچے کے لیے امرت ہی ہے۔
شاکرہ: میں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی مرضی میں اسے اتنا دخل ہے۔
صابر: اگر نہیں سمجھتی ہو اور اب تک نہیں سمجھی تو روؤگی، بچے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
شاکرہ: چپ بھی رہو۔ کیسی بدشگونی کی بات کرتے ہو۔ اگر ایسی جلی کٹی سنانی ہیں تو یہا ںسے چلے جاؤ۔
صابر: ہاں، میں تو جاتا ہوں مگر یاد رکھو یہ خون تمہاری گردن پر ہوگا۔ اگر لڑکے کو پھر تندرست دیکھنا چاہتی ہو تو اس عباسی کے پاس جاؤ۔ اس کی منت کرو، التجا کرو۔ تمہارے بچے کی جان اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔
شاکرہ نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
صابر کیا مرضی ہے؟ جاؤں، اسے تلاش کروں؟
شاکرہ: تم کیوں جاؤ گے؟ میں خود چلی جاؤں گی۔
صابر: نہیں، تم معاف کرو۔ مجھے تمہارے اوپر اعتبار نہیں۔ نہ جانے تمہارے منہ سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی بھی ہو تو نہ آئے۔
شاکرہ نے شوہر کی طرف نگاہ ملامت سے دیکھ کر کہا: ’’ہاں اور کیا! مجھے اپنے بچے کی بیماری کا قلق تھوڑے ہی ہے۔ میں نے شرم کے مارے تم سے کہا نہیں لیکن میرے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوا ہے۔ اگر مجھے دایہ کے مکان کا پتہ معلوم ہوتا تو میں اسے کب کی منا لائی ہوتی۔ وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہو لیکن نصیر سے اسے محبت ہے۔ میں آج ہی اس کے پاس جاؤں گی، اس کے قدموں کو آنسوؤں سے تر کردوں گی اور وہ جس طرح راضی ہوگی، اسے راضی کرکے لاؤں گی۔‘‘
شاکرہ نے بہت ضبط کرکے یہ باتیں کہیں مگر امڈے ہوئے آنسو اب نہ رک سکے۔ صابر حسین نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا او رنادم ہوکر بولے: ’’میں تمہارا جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں خود ہی جاتا ہوں۔‘‘
عباسی دنیا میں اکیلی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سرسبز شاداب درخت تھا، مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرادیں۔ بادِ حوادث نے درخت پامال کردیا اور اب یہی سوکھی ٹہنی ہرے بھرے درخت کی یادگار باقی تھی۔
مگر نصیر کو پاکر اس کی سوکھی ٹہنی میں جان سی پڑگئی تھی۔ اس میں ہری پتیاں نکل آئی تھیں۔ وہ زندگی جو اب تک خشک اور پامال تھی، اس میں پھر رنگ و بو کے آثار پیدا ہوگئے تھے۔ اندھیرے بیابان میں بھٹکے ہوئے مسافر کو شمع کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔ اب اس کی جوئے حیات سنگ ریزوں سے نہ ٹکرائی تھی۔ وہ اب ایک گلزار کی آبیاری کرتی تھی۔ اب اس کی زندگی مہمل نہیں تھی۔ اس میں معنی پیدا ہوگئے تھے۔
عباسی، نصیر کی بھولی بھالی باتوں پر نثار ہوگئی مگر وہ اپنی محبت کو شاکرہ سے چھپاتی تھی اس لیے کہ ماں کے دل میں رشک نہ ہو۔ وہ نصیر کے لیے ماں سے چھپ کر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلا کر خوش ہوتی۔ وہ دن میں دو دو تین تین بار اسے ابٹن ملتی کہ بچہ خوب پروان چڑھے۔ وہ اسے دوسروں کے سامنے کوئی چیز نہ کھلاتی کہ بچے کو نظر نہ لگ جائے۔ ہمیشہ دوسروں سے بچے کی کم خوری کا رونا رویا کرتی اور اسے نظرِ بد سے بچانے کی لیے تعویذ اور گنڈے لاتی رہتی۔ یہ اس کی خالص مادرانہ محبت تھی، جس میں اپنے روحانی حظ کے سوا کوئی غرض نہ تھی۔
اس گھر سے نکل کر آج عباسی کی وہ حالت ہوگئی جو تھیٹر میں یکایک روشنی گل ہوجانے سے ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی صورت ناچ رہی تھی، کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں۔ اسے اپنا گھر پھاڑے کھاتا تھا۔ اس کال کوٹھڑی میں اس کا دم گھٹا جاتا تھا۔
رات جوں توں کرکے کٹی۔ صبح کو وہ مکان میں جھاڑو دے رہی تھی۔ یکایک تازہ حلوے کی صدا سن کر بے اختیار باہر نکل آئی۔ معاً یاد آگیا آج حلوہ کون کھائے گا؟ آج گود میں بیٹھ کر کون چہکے گا؟ وہ نغمہ مسرت سننے کے لیے جو حلوہ کھاتے وقت نصیر کی آنکھوں سے، ہونٹوں سے، اور جسم کے ایک ایک عضو سے برستا تھا، عباسی کی روح تڑپ اٹھی۔ وہ بے قراری کے عالم میں گھر سے نکلی کی چلوں نصیر کو دیکھ آؤں پر آدھ راستے سے لوٹ گئی۔
نصیر، عباسی کے دھیان سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اترتا تھا۔ وہ سوتے سوتے چونک پڑتی۔ معلوم ہوتا نصیر ڈنڈے کا گھوڑا دبائے چلا آتا ہے۔ پڑوسنوں کے پاس جاتی تو نصیر ہی کا چرچا کرتی۔ اس کے گھر کوئی آتا تو نصیر ہی کا ذکر کرتی۔ نصیر اس کے دل و جان میں بسا ہوا تھا۔ شاکرہ کی بے رخی اور بدسلوکی کے ملال کے لیے اس میںجگہ نہ تھی۔
وہ روز ارادہ کرتی کہ آج نصیر کو دیکھنے جاؤں گی، اس لیے بازار سے کھلونے اور مٹھائیاںلاتی۔ گھر سے چلتی لیکن کبھی آدھے راستے سے لوٹ آتی، کبھی دو چار قدم سے آگے نہ بڑھا جاتا۔ کیا منہ لے کر جاؤں؟ جو محبت کو فریب سمجھتا ہو اسے کیا سمجھاؤں؟ کبھی سوچتی اگر نصیر نے مجھے نہ پہچانا تو! بچوں کی محبت کا اعتبار کیا؟ نئی دایہ سے رچ گیا ہوگا۔ یہ خیال اس کے پیروں میں زنجیر کا کام کرجاتا تھا۔
اس طرح دو ہفتے گزر گئے۔ عباسی کا دل ہر دم اچاٹ رہتا جیسے اسے کوئی لمبا سفر درپیش ہو۔ گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں۔ کھانے کی فکر نہ کپڑے کی۔ بدنی ضروریات بھی دل کا خلا پر کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اتفاق سے اسی اثنا میں حج کے دن آگئے۔ محلے میں کچھ لوگ حج کی تیاریاں کرنے لگے۔ عباسی کی حالت اس وقت پالتو چڑیا کی سی تھی جو قفس سے نکل کر پھر کسی گوشے کی تلاش میں ہو۔ اسے اپنے تئیں بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ مل گیا۔ وہ آمادہ سفر ہوگئی۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں۔ دہلی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا۔ کچھ گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف اک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ دنیا اس وقت بھی جانے والوں کے دامن پکڑے ہوئے تھی۔ کوئی بیوی کو تاکید کررہا تھا: ’’دھان کٹ جائے تو تالاب والے کھیت میں مٹر بو دینا اور باغ کے پاس گیہوں۔‘‘ کوئی اپنے جوان لڑکے کو سمجھا رہا تھا: ’’اسامیوں پر بقایا لگان کی نالش کرنے میں دیر نہ کرنااور دو روپے سیکڑہ سود ضرور مجرا کرلینا۔‘‘ ایک بوڑھے تاجر صاحب اپنے منیم سے کہہ رہے تھے: ’’مال آنے میں دیر ہو تو خود چلے جائیے گا اور چلتو مال لیجیے گا ورنہ روپیہ پھنس جائے گا۔‘‘ مگر خال خال ایسی صورتیں بھی نظر آتی تھیں جن پر مذہبی ارادات کا جلوہ تھا۔ وہ یا تو آسمان کی طرف تاکتی یا محو تسبیح خوانی تھیں۔
عباسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سوچ رہی تھی: ’’ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکر نہیں چھوڑتی۔ وہی خرید و فروخت، لین دین کے چرچے! نصیر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت روتا۔ میری گود سے کسی طرح نہ اترتا۔ لوٹ کر ضرور اسے دیکھنے جاؤں گی۔ یا اللہ! کسی طرح گاڑی چلے، گرمی کے مارے کلیجہ بھنا جاتا ہے۔ اتنی گھٹا امڈی ہوئی ہے، مگر برسنے کا نام نہیں لیتی۔ معلوم نہیں یہ ریل والے کیوں دیر کررہے ہیں۔ جھوٹ موٹ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ چٹ پٹ گاڑی کھول دیں۔ مسافروں کی جان میں جان آئے۔‘‘ یکایک اس نے صابر حسین کو بائیسکل لیے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور کپڑے تر تھے۔ وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے۔ عباسی محض یہ دکھانے کے لیے میں بھی حج کرنے جارہی ہوں، گاڑی سے باہر نکل آئی۔ صابر حسین اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آئی اور بولے: ’’کیوں عباسی! تم بھی حج کو چلیں؟‘‘
عباسی نے فخریہ انکسار سے کہا: ’’ہاں! یہاں کیا کروں؟ زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہوجائیں۔ خدا کے یہاں منہ دکھانے کے لیے بھی تو کوئی سامان چاہیے۔ نصیر میاں تو اچھی طرح ہیں؟‘‘
صابر بولے: ’’اب تو تم جارہی ہو۔ نصیر کا حال پوچھ کر کیا کروگی؟ اس کے لیے دعا کرتی رہنا۔‘‘
عباسی کا دل دھڑکنے لگا۔ گھبرا کر بولی: ’’کیا دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے؟‘‘
’’اس کی طبیعت تو اسی دن سے خراب ہے، جس دن تم وہاں سے نکلیں۔ کوئی دو ہفتے تک تو ’’انا انا‘‘ کی رٹ لگاتا رہا اور اب ایک ہفتے سے کھانسی اور بخاری میں مبتلا ہے۔ ساری دوائیں کرکے ہار گیا، کوئی افاقہ ہی نہیں ہوتا۔ میں نے ارادہ کیا تھا چل کر تمہاری منت سماجت کرکے لے چلوں۔ کیا جانے تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت کچھ سنبھل جائے لیکن تمہارے گھر پر آیا تو معلوم ہوا کہ تم حج کرنے جارہی ہو۔ اب کس منہ سے چلنے کو کہوں؟ تمہارے ساتھ سلوک ہی کون سا اچھا کیا تھا کہ اتنی جرأت کرسکوں اور پھر کارِ ثواب میں رخنہ ڈالنے کا بھی خیال ہے۔ جاؤ! اس کا خدا حافظ ہے۔ حیات باقی ہے تو صحت ہو ہی جائے گی ورنہ مشیتِ ایزدی سے کیا چارہ؟‘‘
عباسی کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ سامنے کی چیزیں تیرتی معلوم ہوئیں۔ دل پر ایک عجیب وحشت کا غلبہ ہوا۔ دل سے دعا نکلی: ’’اللہ میری جان کے صدقے میرے نصیر کو بال بیکا نہ ہو۔‘‘ رقت سے گلا بھر آیا ’’میں کیسی سنگ دل ہوں! بچہ رو رو کر ہلکان ہوگیا اور میں اسے دیکھنے تک نہ گئی۔ شاکرہ بدمزاج سہی، بد زبان سہی۔ نصیر نے میرا کیا بگاڑا تھا؟ میں نے ماں کا بدلہ نصیر سے لیا۔ یا خدا! میرا گناہ بخشیو! پیارا نصیر میرے لیے ہڑک رہا ہے۔ (اس خیال سے عباسی کا کلیجہ مسوس اٹھا اور آنکھو ںسے آنسو بہہ نکلے) مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اتنی محبت ہے ورنہ شاکرہ کی جوتیاں کھاتی اور گھر سے قدم نہ نکالتی۔ آہ! نہ معلوم بیچارے کی کیا حالت ہے؟‘‘ انداز وحشت سے بولی: ’’دودھ تو پیتے ہیں نا!‘‘
صابر: تم دودھ پینے کو کہتی ہو۔ اس نے دو دن سے آنکھیں تو کھولی نہیں۔
عباسی: ’’یا میرے اللہ! ارے اوقلی! قلی! بیٹا! آکے میرا اسباب گاڑی سے اتار دے۔ اب مجھے حج وج کی نہیں سوجھتی۔ ہا ںبیٹا! جلدی کر۔ میاں دیکھئے کوئی یکہ ہو تو لے لیجیے۔‘‘
یکہ روانہ ہوا۔ سامنے سڑک پر کئی بگھیاں کھڑی تھیں۔ گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ عباسی بار بار جھنجھلاتی اور یکہ بان سے کہتی تھی: ’’بیٹا! جلدی کر، میں تجھے کچھ زیادہ دے دوں گی۔‘‘ راستے میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے غصہ آتا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ گھوڑے کے پر لگ جائیں، لیکن جب صابر حسین کا مکان قریب آگیا تو عباسی کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ سر تیورا گیا۔ بار بار دل سے دعا نکلنے لگی:’’سب خیرو عافیت ہو۔‘‘
یکہ صابر حسین کی گلی میں داخل ہوا۔ دفعتاً عباسی کے کان میں کسی کے رونے کی آواز آئی۔ اس کا کلیجہ منہ کو آگیا۔ معلوم ہوا دریا میں ڈوبی جاتی ہے۔ جی چاہا یکے سے کود پڑے۔ مگر ذرا دیر میں معلوم ہوا کہ کوئی عورت میکے سے جدا ہورہی ہے تو تسکین ہوئی۔
آخر صابر حسین کا مکان آپہنچا۔ عباسی نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف تاکا جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑکا شام کو بھوکا پیاسا گھر آئے اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نگاہ سے دیکھے کہ کوئی بیٹھا تو نہیں ہے۔ دروازے پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ باورچی بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ عباسی کو ذرا ڈھارس ہوئی۔ گھر میں داخل ہوئی تودیکھا کہ نئی دایہ بیٹھی پولٹس پکار ہی ہے۔ کلیجہ مضبوط ہوا۔ شاکرہ کے کمرے میں گئی تو اس کا دل گرما کی دوپہری دھوپ کی طرح کانپ رہا تھا۔ شاکرہ نصیر کو گود میں لیے دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے تاک رہی تھی، غم اور یاس کی زندہ تصویر بنی۔
عباسی نے شاکرہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ نصیر کو اس کی گود سے لے لیا اور اس کے منہ کی طرف چشم پرنم سے دیکھ کر کہا: ’’بیٹا نصیر! آنکھیں کھولو!‘‘
نصیر نے آنکھیں کھولیں۔ ایک لمحے تک دایہ کو خاموش دیکھتا رہا۔ تب یکایک دایہ کے گلے سے لپٹ گیا اور بولا: ’’اناآئی، انا آئی۔‘‘
نصیر کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ روشن ہوگیا۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑجائے۔ ایسا معلوم ہوا گویا وہ کچھ بڑھ گیا ہو۔
ایک ہفتہ گزرگیا۔ صبح کا وقت تھا۔ نصیر آنگن میں کھیل رہا تھا۔ صابر حسین نے آکر اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کرکے بولے: ’’تمہاری انا کو مار بھگادیں؟‘‘ نصیر نے منہ بنا کر کہا: ’’نہیں روئے گی۔‘‘
عباسی بولی: ’’کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہیں جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟‘‘
صابر حسین نے مسکرا کر کہا: ’’تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہوگیا۔ اس حج کا نام حجِ اکبر ہے۔‘‘
——