کوئی اگر مرنے سے پہلے وصیت کرتا ہے تو ہم اس وصیت کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں فکر ہوتی ہے کہ اس وصیت کو جلد سے جلد پورا کردیں تاکہ مرنے والے کی روح کو سکون مل سکے۔ یہ متوفی سے ہماری محبت کا تقاضا ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے وصال سے پہلے خطبہ حجۃ الوداع میں مسلمانوں کو وصیت کی تھی کہ ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور ایک میری سنت، جب تک تم ان دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامے رہوگے، کبھی گم راہ نہ ہوگے۔‘‘
دوسری وصیت یہ کی تھی کہ ’’خبردار میرے بعد گم راہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘
آج ہم محمد ﷺ کی ان دونوں وصیتوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ کیسی محبتِ رسول ہے کہ محبت کا دعویٰ بھی ہے اور ان کی وصیت کاکوئی پاس نہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ معبوث ہوئے، اس وقت لوگو ںکا کیا حال تھا؟ ان کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا تھا، قرآن نے ان کی اس حالت کی نشان دہی ان الفاظ میں کی ہے:’’تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی تھی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ آپ بہترین معلم تھے، جو لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیا کرتے اور ان کی زندیاں سنوارا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں ہی اسلام کو غلبہ عطا فرمادیا اور اس کی تعلیمات کے طفیل ایسا امن قائم ہوا کہ تاریخِ انسانی میں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ آپ نے اپنے دشمنوں تک کو معاف کردیا۔ عفو و درگزر کی ایسی کوئی دوسری نظیر ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم مسلمان جب تک اس وصیت پر عمل کرتے رہے، ساری دنیا پر چھائے رہے۔ تمام علوم و فنون پر ہماری حکمرانی قائم رہی، لیکن جوں جوں ہم اپنے فریضے سے غافل ہوتے گئے، کتاب وسنت سے رہنمائی حاصل کرناچھوڑ دیا تو ہمارا نہ صرف نظامِ تعلیم بے روح ہوکر رہ گیا بلکہ بحیثیت مجموعی ہم ہر شعبۂ حیات میں پستیوں کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے صالح اکٹھے ہوں اور معلمین و معلمات کی اجتماعی قوت سے کام لیتے ہوئے کتاب و سنت کی روشنی میں راہِ عمل متعین کریں۔ جب تک نوجوان نسل کو تعلیم دینے والے استاد ایک اچھے انسان اور اچھے مسلمان نہیں ہوں گے مہنگی سے مہنگی تعلیم بھی معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی زوال کو ختم نہیں کرپائے گی۔ آج کے ڈاکٹر، انجینئر،معلّم اور حکمراں سب اسی بے روح نظامِ تعلیم کا ثمرہ ہیں۔اگر آج ہم وہ تعلیم دینا شروع کردیں جو قول و فعل کے تضاد سے مبرا ہو، طبقاتی تقسیم کو فروغ نہ دیتی ہو، تو ایسی تعلیم پاکر فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ہمارے تابناک مستقبل کی ضمانت ہوں گے۔