س: میں اس سال حج بدل کے لیے جا رہا ہوں، لیکن میں نے حج نہیں ہے۔ کیا حج بدل کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے، جس نے خود پہلے حج نہ کیا ہو۔ براہِ کرم رسالہ میں جواب دیں۔ (ا۔ب)
ج: کسی شخص پر حج فرض ہوگیا ہو اور وہ مرض، بڑھاپے کسی اور وجہ سے حج نہ کرسکے، تو وہ دوسرے شخص کو اپنی جگہ پر بھیج سکتا ہے اسے حج بدل کہتے ہیں۔ حج بدل زندہ شخص کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے اور میت کی طرف سے بھی۔
حضرت فضل بن عباس سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے اللہ کے رسولؐ سے دریافت کیا اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے۔ میرے باپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں، اتنے کہ سواری پر ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آں حضرتﷺ نے جواب دیا ہاں!
حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن اس کا انتقال ہوگیا اور وہ حج نہ کرسکی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے حج کرو۔ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اگر تمہاری ماں پر کسی کا قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا نہ کرتیں؟ یہ اللہ کا قرض ہے۔ اس کا زیادہ حق ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔ (بخاری:۱۸۵۲)
ان احادیث کی بنا پر جمہور فقہاء (احناف، شافعی اور حنابلہ) حج بدل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ البتہ مالکیہ اس کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حج بدنی عبادت بھی ہے اسے کسی شخص کی طرف سے کوئی دوسرا شخص ادا نہیں کرسکتا۔
جس شخص نے خود حج نہ کیا ہو، کیا وہ دوسرے شخص کی طرف سے حج کرسکتا ہے؟ اس سلسلے میں حج کے جواز کے قائل فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ شافعی اور حنابلہ کہتے ہیں کہ حج بدل صرف وہی کرسکتا ہے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ دلیل میں وہ حضرت ابن عباس سے مروی ایک حدیث پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’شبرمہ کی طرف سے لبیک‘‘ آپﷺ اس سے دریافت فرمایا: یہ شبرمہ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا: میرا بھائیـ۔ آپﷺ نے پھر سوال کیا: کیا تم اپنا حج کرچکے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: پہلے اپنا حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔‘‘
(ابوداود:۱۸۱۱، ابن ماجہ: ۲۹۰۳)
احناف کے نزدیک جس شخص نے اپنا حج نہ کیا ہو وہ بھی حج بدل کرسکتا ہے۔ لیکن ایسے شخص سے حج کرانا مکروہ ہے۔ اگر اس پر اپنا حج واجب ہو تو اس سے حج کرانا مکروہ تحریمی اور واجب نہ ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ وہ جواز کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ آں حضرتؐ نے خشعمی عورت سے کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی تھی کہ وہ اپنا حج کرچکی ہے یا نہیں، اور اس سے مطلقاً فرمایا تھا کہ وہ اپنے باپ کی طرف سے حج کرے۔lll