’’حج‘‘ ایک اہم ترین عبادت ہے اور اسلام کا بنیادی ستون ہے۔ حج ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو بیت اللہ تک آنے جانے کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر خانہ کعبہ تک پہنچنے کی وسعت اور قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘اس طرح حج زندگی میں صرف ایک بار صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے۔ حج مسلمانوں پر اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر عبادت ہے اور اسلام کے نظامِ عبادت کو مکمل کرنے والا ہے، اس عبادت میں مال بھی خرچ ہوتا ہے، اس عبادت میں جسمانی محنت بھی کرنی پڑتی ہے، اس عبادت میں عاجزی، تقویٰ، عبدیت اور قربانی کے تمام جذبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ حج کرنے والا شخص کامل طور سے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیتا ہے، وہ اپنے گھر، اپنے بیوی بچوں، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سب کو چھوڑ کر اللہ کے پاک گھر میں اللہ کی رضا کی تڑپ لے کر حاضر ہوتا ہے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر وہ محض اللہ کی خوشنودی کا طالب ہوتا ہے، اس کی آرزو ہوتی ہے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے، وہ اس عبادت میں کچھ اس طرح منہمک ہوتا ہے کہ نہ اسے بھوک و پیاس کا احساس ہوتا ہے، نہ اسے اپنے کپڑوں کا احساس ہوتا ہے۔ بس وہ تو گرد آلود، تھکا ماندہ لبیک لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہے۔
قرآن و حدیث میں حج کی بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ حج کے دوران انسان کس طرح کے فائدوں کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے اور کیسی کیسی برکتیں اس کو حاصل ہوتی ہیں، اس کا اندازہ اس آیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان عام کردو کہ وہ آپ کے پاس دور دراز مقامات سے پیدل اور دبلے اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔‘‘ (الحج: ۲۷-۲۸) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حج بیت اللہ کے دوران جو فائدے انسانوں کو حاصل ہوتے ہیں ان کا ایک حاجی بہت اچھی طرح مشاہدہ کرسکتا ہے۔ حج کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ انسان حج کے دوران اپنے مقصد حقیقی کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پانے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ حج کے بعد اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ حاجی کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے یہاں حاضر ہے، اس دوران وہ صرف اللہ کی توحید کے نعرے بلند کرتا ہے اور اس کا ذہن دنیا و مافیہا سے ہٹ جاتا ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ حج سے تزکیہ نفس کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دورانِ حج بہت سی چیزوں کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ جن سے اس کے نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج اور عمرہ کے لیے جانے والے اللہ تعالیٰ کے خصوصی مہمان ہیں، وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ قبول فرماتا ہے اور مغفرت چاہیں تو بخش دیتا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے حج کو جنت کی ضمانت قرار دیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، اس کی نیت بھی خالص ہو، وہ شخص جنت کا مستحق ہے لیکن اگر کوئی شخص صاحب استطاعت ہونے کے باوجود حج کرنے سے غفلت برتے تو اس کے بارے میں قرآن نے اس کی اس روش کو کفر کی روش قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور جس کسی نے کفر کی روش اختیار کی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ اندازہ کیجیے کہ حج کتنی اہم عبادت ہے۔
حج میں اللہ کے گھر کا طواف کیا جاتا ہے۔ ’’طواف‘‘ حج کا اہم ترین رکن ہے۔ اس رکن کی ادائیگی کے بعد ہی حج کی تکمیل ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے۔’’اور انہیں چاہیے کہ اس قدیم ترین گھر کا طواف کریں۔‘‘ مزدلفہ میں قیام اور عرفات میں جانا بھی حاجی کے لیے اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر جب عرفات سے پلٹو تو مشعرِ حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اسی طرح یاد کرو جس کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔‘‘ (البقرہ: ۱۹۸)
حجاج کرام کے لیے عرفات جانا بھی ضروری ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’پھر تم (اہل مکہ) بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے معافی چاہو بلاشبہ اللہ معاف فرمانے والا اور بہت زیادہے رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۱۹۹) جس طرح مزدلفہ میں قیام کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح منی میں بھی قیام کا حکم دیا گیا ہے۔ منی میں قیام گیارہویں، بارہویں، تیرہویں ذی الحجہ کو کیا جاتا ہے۔ حج سے فراغت کے بعد ان دنوں میں منی میں قیام کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اللہ کو یاد کرو گنتی کے ان چند دنوں میں، پھر جوکوئی (منی سے) واپسی میں جلدی کرے اور دو ہی دن میں پلٹ آئے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کے پلٹے تو بھی کوئی حرج نہیں، بشرطے کہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں اور بچو اللہ کی نافرمانی سے، اور یقین رکھو کہ ایک دن اس کے حضور تم سب کو پیش ہونا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۰۳) گویا منی میں دو دن قیام ہو یا تین دن مگر یہ وقت اللہ کی یاد میں گزرنا چاہیے۔ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا بھی مناسک حج میں سے ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جب کہ بت پرستی کا دور دورہ تھا، چپہ چپہ بر بت رکھ دیے گئے تھے، خود خانہ کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے، اسی طرح بت پرستوں نے صفا اور مروہ پر بھی کچھ بت رکھ دیے تھے، جب کچھ زمانہ گزرگیا تو یہ سمجھا جانے لگا کہ کوہ صفا اور مروہ پر سعی ان بتوں کے طواف کا نام ہے۔ جب اسلام آیا، لوگ مسلمان ہوئے اور حج کے دوران کوہ صفا اور کوہ مردہ کی سعی کو برقرار رکھا گیا تو مسلمانوں کے دل میں کھٹک پیدا ہوئی کہ شاید کوہ صفا اور مروہ کی سعی تو ایام جاہلیت کا اضافہ ہے، اور غالباً مناسک حج سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس غلط فہمی کو قرآن نے دورکردیا۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے۔‘‘ (البقرہ: ۱۵۸)
کوہ صفا اور مروہ کی سعی اس وقت کو یاد دلاتی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مشیت ایزدی کے مطابق اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے معصوم بچہ حضرت اسماعیل کو بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں چھوڑ گئے تھے۔ دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ حضرت ہاجرہ بے چین و بے قرار تھیں اور اسی بے چینی میں پانی کی تلاش میں کبھی وہ کوہ صفا پر چڑھ جاتی تھیں اور کبھی کوہ مروہ پر۔ اس طرح حضرت ہاجرہ سات مرتبہ کوہ صفا پر چڑھیں، اتریں اور سات بار کوہ مروہ پر، اس کے بعد جب ننھے اسماعیلؑ کے پاس گئیں تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ بہہ رہا ہے۔ جلدی جلدی انھوں نے اس کے گرد مٹی لگائی۔ غرض یہ کہ حضرت ہاجرہ کا بار بار کوہ صفا پر چڑھنا اللہ کو بے حد پسند آیا اور حج کے دوران کوہِ صفا و مروہ کی سعی سے اس منظر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
دورانِ حج شعائر اللہ کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ زبردست تربیت کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں شکار کرنا منع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اے مومنو! خدا پرستی کی ان نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو، نہ حرمت کے مہینوں کی بے حرمتی کرو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالو جو اپنے پروردگار کے فضل کی تلاش اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں۔‘‘ (المائدہ:۲)
شعائر اللہ کے احترام سے تقویٰ کامقصد حاصل ہوتا ہے اور حج کے دوران جن ارکان کی ادائیگی کی تکمیل کی تاکید کی گئی ہے، ان سے انسان تقویٰ کے قریب ہوتا ہے اور جو شخص متقی و پرہیز گار ہوجائے وہ یقینا کامیاب و بامراد ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: ’’اور جو خدا پرستی کی ان نشانیوں کا احترام کرے جو خدا نے مقر رکی ہیں تو یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے۔‘‘ (الحج: ۳۲)
حج کے دوران بندے کو اس طرح تربیت کا موقع ملتا ہے ۔ اسے اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو پورے طور پر کنٹرول میں رکھے، شکار بھی نہ کرے، کسی جاندار چیز کو نہ ہلاک کرے، بال اور ناخن بھی نہ کٹوائے اور وہ محسوس کرے کہ اس کا زیب و زینت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے لیے احرام باندھنا ضروری ہے، جو سلا ہوا نہ ہو، بلکہ صرف چادر ہو، ایسے ہی اس تربیت کے دوران اسے اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں، جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں شہوانی باتیں نہ ہوں اور نہ اللہ کی نافرمانی کی باتیں ہوں۔‘‘ (الحج: ۱۹۷)