خانۂ کعبہ جس کی بنیاد آج سے تقریبا چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رکھی تھی۔ اسے کعبہ تو اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی لمبائی اور چوڑائی قریب قریب برابر یعنی مکعب نما ہے۔ اس کا دوسرا مشہور بل کہ اصل نام بیت اللہ (اللہ کا گھر) ہے۔ قرآن کریم میں اسے البیت الحرام (عزت والا گھر) البیت العتیق (قدیم ترین گھر) اور بعض دفعہ صرف البیت (گھر) بھی کہا گیا ہے۔ فارسی کے لفظ ’’خانہ‘‘ کے معنی گھر یا مکان کے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عربی میں بیت عموما جگہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بیت گھر کو نہیں بلکہ مکان کو کہتے ہیں۔ رہائشی مکان یا جگہ کو عربی میں ’’دار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کعبہ کو اللہ تعالیٰ کی نسبت دیتے ہوئے ’’دار اللہ‘‘ نہیں بلکہ کہ بیت اللہ کہتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جگہ نہیں رہتا، وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ ان ہی معنوں میں ہم مسجد کو اللہ کا گھر کہتے ہیں۔ اس لیے کہ مسجد کے بارے میں قرآن کریم میں آیا ہے۔
’’یقینا مساجد صرف اللہ کی عبادت کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی او رکو مت پکارو۔‘‘
بیت اللہ کے بارے میں سوچتے ہی ہر سچے مسلمان کے دل میں اس کی زیارت کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ حج کے معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں۔ لفظ حجہ کے معنی ’’برس اور سال‘‘ کے ہیں۔ اس طرح حج کے معنی ’’سالانہ زیارت‘‘ کے بنتے ہیں۔
عرب میں حج کے دنوں کو موسم حج اور بعض اوقات ’’موسم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ایام حج میں خانہ کعبہ کی زیارت کو جانا اور تمام مناسب حج پورے کرنا، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:’’لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اس کے گھر کا حج اور جو کفر و انکار کرے تو اللہ تعالیٰ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
اسلام میں بنیادی طور پر حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ ایام حج سے مراد قمری تقویم کے آخری مہینے ذو الحجہ کی آٹھ سے تیرہ تاریخ تک کے دن ہیں۔ اصل حج کا دن تو ۹ ذو الحجہ ہے مگر حج کے تمام مناسک مذکورہ تاریخوں میں پورے کیے جاتے ہیں۔ مناسب حج سے مراد وہ تمام شرعی احکام، رسوم اور قواعد و ضوابط ہیں جن کی حج میں پابندی کی جاتی ہے۔ اس میں میقات، احرام، طواف، سعی، عرفہ، رمی اور قربانی شامل ہیں۔
قرآن کریم میں مسلمانوں پر حج کے فرض ہونے کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی استطاعت کے ہوتے ہوئے حج نہ کرنے کو کفر کہا گیا ہے۔
حج اسلام کا وہ رکن ہے، جو عالمی بھائی چارے کا عظیم الشان مظہر ہے۔ اس موقعے پر سارے عالم سے خدائے واحد اور اس کے آخری پیغمبر اور رسولؐ کے پیروکار ایک جگہ جمع ہوتے اور ایک ہی کلمے کا ورد کرتے ہیں۔ حج کے موقعے پر سب ایک ہی لباس میں ایک جیسے مناسک ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ رفیع الشان جگہ ہے جہاں ساری تفریق ختم ہوجاتی ہے اور ہر قوم و ملت، زبان و تہذیب اور رنگ و نسل کے سارے امتیازات مٹ جاتے اور سب اپنے رب کے رنگ میں رنگ جانے کی عملی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ سب سے اچھا اور بہترین رنگ تو اللہ کا ہی ہے۔
حج اسلام کا وہ رکن ہے جو اپنے اندر ہر طرح کی عبادات سمیٹے ہوئے ہے۔ حج مالی اور جانی قربانی کا مجموعہ ہے۔ ضبط نفس کا یہ عظیم مظہر اسلام کا روشن چہرہ ہے۔ عالم اسلام کے خلاف اغیار کے پھیلائے ہوئے ناروا پروپیگنڈے کا موثر جواب حج ہی ہے، جو عالمی مساوات مرد و زن کا شاہ کار ہے۔
یہی وہ موقع تھا جب رسالت مآب رسولﷺ نے اپنے جان نثار صحابۂ کرام کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقعے پر انسانیت کا عالمی منشور پیش کیا، جس کی ہر شق بے مثل اور عالمی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
قرآن و سنت میں یہ بات واضح طو رپر بیان ہوئی ہے کہ آن حضرت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو اپنے عظیم جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کردہ سنت کی بنیادوں پر دوبارہ زندہ فرمایا۔ کعبہ کی پوری تاریخ میں اس قسم کے انسانوں کا سب سے پہلا بڑا اجتماع حجۃ الوداع تھا، جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جان نثاروں کو اپنے ساتھ لیے مناسک حج فرما رہے تھے اور اس کے بعد ہر سال حاجیوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔
اللہ پاک ہمارے دلوں میں بھی حج بیت اللہ کے لیے سچے جذبات پیدا فرمائے، اگلے برس ہمیں بھی حج بیت اللہ کی سعادت سے نوازے اور ہماری خواہش زیارت کعبہ پوری ہوجائے۔ آمین lll