حج روحانی امراض کے علاج کا ایک ایسا کورس ہے جس کو اگر اس کے تمام شرائط کے ساتھ کوئی شخص آخر تک نباہ لے جائے تو وہ تمام روحانی بیماریوں سے صحت یاب ہوکر ٹھیک اس فطرۃ اللہ پر پہنچ جاتا ہے، جس پر اللہ نے اس کو پیدا کیا ہے اور جس پر اللہ چاہتا ہے کہ یہ مرے۔ یہ حقیقت متعدد حدیثوں سے واضح ہوتی ہے لیکن اختصار کے خیال سے صرف ایک حدیث کا ترجمہ یہاں درج ہے جو بخاری و مسلم میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا کہ جس نے حج کیا اور اس دوران نہ اس نے کوئی شہوت کی بات کی اور نہ خدا کی کسی نافرمانی کا ارتکاب کیا وہ تمام گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوگیا جس طرح وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔‘‘
جنت کی ضمانت
حج چونکہ اسلام اور ہجرت کی طرح آدمی کے تمام گناہوں کو فنا کردیتا ہے۔ اس وجہ سے اس شخص کے لیے جس کو حج مبرور کی سعادت حاصل ہوجائے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی ضمانت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک عمرہ کے بعد آدمی اگر دوسرا عمرہ کرے تو یہ عمرہ درمیان کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے اور حج مبرور کا صلہ تو جنت سے کچھ کم ہے ہی نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
تجدیدِ عہد
حج کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے عہد کو ازسرِ نو استوار کرلیتا ہے جو ایک مسلم کی حیثیت سے اس نے اپنے رب سے کیا ہے۔ یہ تجدیدِ عہد اگرچہ ہر توبہ و استغفار سے ہوتی رہتی ہے لیکن جس تجدیدِ عہد کا عزم و ارادہ حج میں ظاہر ہوتا ہے وہ عام توبہ و استغفار میں نہ ظاہر ہوتا ہے اور نہ ظاہر ہوسکتا ہے۔ آدمی اس تجدیدِ عہد کے لیے رختِ سفر باندھتا ہے اور ایک طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے اور اپنے رب کے دروازے پر حاضری دیتا ہے۔ یہ گھر سے نکلنا اور مقصد کے لیے سفر کرنا ہی بجائے خود ایک بہت بڑی چیزہے یہ بندے کے اخلاص اور اس کی صدق طلبی کا ایک نہایت واضح نشان ہے اور اس سے خدا کی رحمت اس کے لیے جوش میں آجاتی ہے۔
پھر جب وہ حجرِ اسود کو بوسہ دیتا ہے یا اس کو ہاتھ لگاتا ہے تو گویا خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے عہدِ بندگی و اطاعت کی تجدید کرتا ہے۔
اسی طرح حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی جگہ پر پہنچ کر ان کی قربانی کی سنت کو تازہ کرنا درحقیقت اپنی زندگی کو ازسرِ نو خدا کی نذر کرنا ہے کیونکہ قربانی کی اصلی حقیقت اپنے آپ کو خدا کی حوالگی اور سپردگی میں دینا ہے۔ اور یہی حقیقت اسلام کی بھی ہے۔ اسلام کے معنیٰ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردینے کے ہیں یعنی خدا کی مرضی اور اس کی پسند کے آگے آدمی کو اپنی کوئی مرضی اور اپنی کوئی پسند ہی نہ رہ جائے۔ آدمی اپنی محبوب سے محبوب اور عزیز سے عزیز چیز بھی خدا کے لیے ہر وقت قربان کردینے کے لیے تیار ہے۔ اس حقیقت کو واضح شکل میں اور اس فلسفہ کو عمل کے جامہ میں پوری تاریخِ انسانی میں جس نے پیش کیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ انھوں نے اپنے محبوب بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو خدا کے لیے قربان کردینے کا پختہ عزم ظاہر کرکے یہ ثابت کردیا کہ فی الواقع انھوں نے اپنا سب کچھ بغیر کسی استثناء اور تحفظ کے خدا کے حوالے کردیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا یہ اقدام اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اس نے ان کو مسلم کے لقب سے نوازا اور جس بیٹے کو انھوں نے قربان کیا اس کی نسل سے ایک امتِ مسلمہ پیدا کی جس کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ وہ دین کی حامل بنے اور اسلام کی اصل حقیقت کو اپنے اندر برابر زندہ اور تازہ رکھنے کے لیے اس ابراہیمی قربانی کی یادگار منائے۔ اسی قربانی کی یادگار ہے جس کو حج کے مناسک میں شامل کیا گیا ہے جو اللہ کے بندے اس مقدس قربان گاہ تک پہنچ جاتے ہیں وہ وہاں پہنچ کر اس قربانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں جو مشکلات اور مواقع کے سبب وہاں نہیں پہنچ پاتے وہ اپنی بستیوں ہی میں اس قربان گاہ کی یادگار مناتے ہیں تاکہ ان کے اندر اسلام کی اصل حقیقت کا شعور بھی زندہ رہے اور ان کی طرف سے ان کے اس عمل سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا رہے کہ وہ اصل قربان گاہ پر پہنچ کر اس قربانی کی سعادت حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
اس قربانی کی اصل حقیقت خدا کی راہ میں جان کی قربانی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنی مہربانی سے ہمیں اس بات کا موقع دیا ہے کہ ہم اپنی طرف سے کسی جانور کی قربانی کرکے اپنی جان کا فدیہ ادا کردیتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک بہت بڑی رعایت ہے اور اس نے جو جانور ہماری خدمت کے لیے پیدا کیے ہیں جب وہ خدا کی راہ میں ہمارے بدل کی حیثیت سے قربان ہوتے ہیں تو یہ سب سے بڑی خدمت ہے جو ہماری وہ انجام دیتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ اشرف مقصد ہے جس میں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں جو لوگ ہر چیز کو صرف معاشی پیمانوں سے ناپتے ہیں وہ ان کی قدروقیمت نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے ان پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ان کے نزدیک بھیڑوں، بکریوں کی قدروقیمت حضرت ابراہیمؑ کی قربانی سے زیادہ ہے۔
امت کی وحدت کا مظاہرہ
حج کے اندر بعض نہایت اہم اجتماعی برکتیں بھی ہیں مثلاً یہ کہ صرف حج ہی کا ایک موقع ایسا موقع ہے جس میں یہ حقیقت سورج سے بھی زیادہ روشن ہوکر ہر شخص کے سامنے آجاتی ہے کہ اس امت کے مختلف اجزا کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والی اور ان کو بنیانِ مرصوص بنانے والی چیز دراصل کیا ہے؟ زبانیں مختلف، رنگ مختلف، قومیتیں اور جنسیں مختلف، ذوق و طبائع مختلف، لباس مختلف حد یہ کہ نمازیں ادا کرنے کے طریقے بھی بعض ظواہر میں ایک دوسرے سے مختلف لیکن لبیک لبیک کی صدا سب کی زبانوں پر، احرام کی چادریں سب کے جسموں پر، بیت اللہ پر سب نثار، سب پروانہ وار ایک ہی امام کی اقتدا میں بیت اللہ کے ارد گرد سب مصروفِ رکوع و سجود، اختلاف کے اندر وحدت کا اور گونا گونی و بوقلمونی کے ساتھ ہم آہنگی و ہم رنگی کاجو مظاہرہ حج میں ہوتا ہے، وہ صرف حج کے ساتھ مخصوص ہے جس کو حج کی سعادت حاصل نہ ہوئی وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ——