حج کے عملی تقاضے

عتیق الرحمن سنبھلی

حج، جو کہ ایک بڑے درجے کی عبادت ہے اور نماز، روزے کے مقابلے میں مشکل اور مہنگی عبادت ہے، حاجی کی زندگی میں ایک بڑے تغیر کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز، روزے کی طرح اگر اس کے اعمال وارکان کو بھی اس کی اصلی روح، یعنی عشق و محبت کی والہانہ کیفیات، اور اس کے تقاضوں اور مطالبات کے پورے شعور کے ساتھ ادا کیا جائے تو حج کے بعد حاجی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوجانا لازمی ہے۔
حج کے ایک ایک عمل کو دیکھئے اور ان اعمال کی ساری فہرست پر نظر ڈال جائیے۔ پوری فہرست عاشقانہ اور مجنونانہ اداؤں کا مجموعہ نظر آئے گی۔ کفن جیسا لباس، لبیک لبیک کا مجنونہ شور، کعبہ کے ارد گرد والہانہ طواف، حجرِ اسود کو بڑھ بڑھ کے چومنا، چومنے کا موقع نہ ملے تو محبت کی نظر اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی حسرت کا اظہار کردینا، صفا و مروہ کے درمیان سعی، عرفہ کا وقوف، بال بکھرے ہوئے، جسم غبارِ راہ سے اَٹا ہوا، اور رہ رہ کے وہی ایک لبیک لبیک کی رٹ— گویا یہ عبادت عبد و معبود کے درمیان علاقۂ عشق کا مظہرِ اتم ہے، ورنہ یہ ادائیں عشق کے سوا اور کس مذہب میں جائز ہیں، اور خود احادیث سے اس عبادت کی یہ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے: الحاج الشعث التفل۔ سچا حاجی وہ مست ہے جسے اپنی کچھ خبر نہ ہو، بال بکھرے ہوئے، اور لباس و جسم پر میل چڑھا ہوا۔ حاجی کے اسی حالِ بے حالی کو دیکھ کر باری تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: انظروا الی زوار بیتی قد جاء نی شعثا غبرا۔ میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو، میرے در پہ کس شان سے آئے ہیں کہ نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے، نہ جسم کے گردو غبار کا ہوش!
اگر ان عاشقانہ افعال اور مجنونانہ وضع کے ساتھ حاجی کے دل میں کسی قدر گرمیِ عشق بھی موجود ہو اور ساتھ ہی دل و دماغ کو کچھ بیدار رکھ کر وہ اس پر بھی غور کرتا جائے کہ حج کا ہر ہر عمل اُس سے کیا مطالبہ کررہا ہے، تو بہت واضح طور پر چند مطالبات اس کے سامنے آئیں گے۔ گھر بار اور اہل و عیال کو چھوڑ کر اس کا اللہ کے لیے نکل پڑنا، اور پھر جسم کے کپڑے تک اتار کے کفن جیسا لباس پہن لینا، اور اپنے ظاہر و باطن کو سب سے کاٹ کر لبیک لبیک پکارتے ہوئے مطلق عبدیت کا اعلان کرنا، اس سے مطالبہ کرے گا کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اپنے بارے میں فیصلہ کرے کہ:
إن صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمینo (انعام:۱۶۲-۱۶۳)
’’میری قربانی، میری موت اور میری زندگانی سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہے، مجھے یہی حکم ملا ہے، اور میرا کام تعمیلِ حکم ہے۔‘‘
اگریہ فیصلہ نہیں ہے تو پھر اس احرام اور اس تلبیہ کے کیا معنی ہیں، جس میں اللہ کی لاشریک الوہیت، ربوبیت اور حاکمیت کا اقرار اور اس کی مطلق طاعت و بندگی کے لیے عاجزانہ اور نیاز مندانہ حاضری کا اعلان ہے۔
پھر مکۂ معظمہ پہنچ کر ’’اللہ کے گھر‘‘ کا طواف کرتے وقت وہ اگر سوچے گا تو صاف طور پر اس عمل کا تقاضا محسوس کرے گا کہ اس گھر والے کی محبت اور اطاعت ہر دوسری چیز کی محبت اور اطاعت پر غالب ہوجانی چاہیے، اور اس کی رضا طلبی کی فکر دوسری ہر چیز کی رضا طلبی سے مقدم ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس کا گھر بار، مال و اولاد اور اقارب و احباب کو چھوڑ کر اتنی دور آنا اور بلا کسی دنیوی مقصد و منفعت کے آنا، پھر سر سے پاؤں تک مجنوؤں اور سائلوں کی سی صورت بنانا، پھر مستانہ وار وحدہٗ لا شریک کے نام کاراگ الاپنا، پھر اس کے گھر کو دیکھ کر دیوانہ وار اس کے ارد گرد چکر لگانا، ایک نہیں دو نہیں، ایک ایک مرتبہ میں سات سات چکر لگانا، پھر ایک دن نہیں روز روز اور ہر روز بار بار کا یہی مشغلہ، اس کی دیواروں سے لپٹنا، رونا، گڑگڑانا، اور مجسم صورتِ سوال بن جانا۔ یہ تو اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گھر جس کی تجلی گاہ ہے، وہ سب سے بڑا محبوب اور سب سے برتر مطاع ہے، اور اسی کی رضا اس قابل ہے کہ اس کی جستجو میں بندے کے پائے فکر و عمل کو ہر دم سرگرداں اور طواف کناں رہنا چاہیے۔
طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی کا نمبر آتا ہے، اس کے متعلق معلوم ہے کہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے سے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑتی تھیں اور پھر صاحبزادے کی تنہائی کے خیال سے واپس ہوجاتی تھیں۔ ان کی یہ سعی اسی جگہ ہوئی تھی، بس ان کی سعی کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے یہ سعی مقرر فرمادی ہے۔
اس میں امتِ مسلمہ کے لیے دو بڑے اہم اور قیمتی سبق اور دو تقاضے اور مطالبے مضمر نظر آتے ہیں۔ صفا و مروہ کی سعی سے جس واقعے کی یاد تازہ ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے اکلوتے صاحبزادے کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں، چنانچہ آپ نے حکم کی تعمیل فرمائی اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ کو اس غیر آباد اور بنجر سرزمین میں چھوڑ کر چلے آئے، ان کے پاس جو دانہ پانی کا مختصر سا ذخیرہ تھا، چند دن میں ختم ہوگیا۔ حضرت اسماعیلؑ پیاس سے بے چین ہوئے، بولنے کی عمر نہ تھی، شدتِ تکلیف سے ایڑیاں رگڑتے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر دوڑتی تھیں، جب کچھ دور نکل جاتیں صاحبزادے کی تنہائی کا خیال آتا تو لوٹ آتیں۔ تنہا اللہ کی ذات ان کا سہارا تھی، اس سے دعا بھی جاری تھی اور اپنی سی کوشش بھی، آخر کار ایک دفعہ جو پلٹ کر آئیں تو یہ منظر دیکھا کہ صاحبزادے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے، وہاں سے پانی پھوٹ رہا ہے۔‘‘
یہ ہے وہ واقعۂ صفا و مروہ کی سعی جس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریت کے اس واقعے میں امتِ مسلمہ کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے اور اس کی عبادت اور بندگی کو عالم میں عام کرنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی نہ جھجکنا چاہیے۔ اس سے بڑا کیا خطرہ ہوسکتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتی اولاد کے لیے مول لیا کہ انھیں تنہا ایک ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں نہ انسان نہ کوئی اور جان دار، نہ سبزہ نہ پانی، نیچے تپتی زمین، اوپر تپتا آسمان، دو نازک سی جانیں ا وربس اللہ نگہبان… ایسا کیوں کیا گیا؟ صرف اللہ کے دین کے لیے۔ قرآن پاک اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کرتا ہے:
ربنا انی اسکنت من ذریتی بوادٍ غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوٰۃ۔ (ابراہیم: ۳۷)
’’میرے مالک میں نے اپنی کچھ آس اولاد تیرے محترم گھر کے پاس بن کھیتی والی ایک وادی میں بسادی ہے تاکہ اے پروردگار وہ نماز کو قائم کریں۔‘‘
یہ واقعہ ہمیں دوسرا سبق یہ دیتا ہے کہ حاجات اور ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، ہماری حاجت روائی نہ کسی دوسری ہستی کے بس میں ہے نہ اسباب پر موقوف، بندہ اس بات پر یقین رکھے اور اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے اس وحدہٗ لاشریک کے سامنے دستِ سوال دراز کرے پھر اسباب ظاہری کی نامساعدت میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس داتا کی داد و دہش اور اعانت کو روک سکے۔
اس بے آب و گیاہ سرزمین میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کے لیے دانے پانی کی ساری راہیں بظاہر مسدود اور اسباب ایک ایک کرکے مفقود تھے، لیکن حضرت ہاجرہؓ کی سعی اور دعا پر مسبب الاسباب کا حکم ہوا تو بے وہم و گمان اس جلتی بھنتی اور خشک دھرتی کی چھاتی سے پانی کادھارا پھوٹ نکلا۔ سچ فرمایا کرتے تھے نبی امی : فدہ ابی و امی!
لا مانع لما اعطیت۔
’’داتا تیری داد و دہش کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔‘‘
یہ دو سبق ہیں جو اس واقعے سے ہمیں ملتے ہیں۔ پس جو لوگ صفا و مروہ کی سعی کرکے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں، انھوں نے اگر غوروفکر کی قوت کو معطل نہیں کررکھا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ ان کا یہ عمل (سعی) ان سے دوباتوں کا مطالبہ کرتا ہے:
(۱) اللہ کے دین کو فروغ دینے اور اس کی عبدیت و عبادت والی زندگی کو دنیا میں رائج کرنے کے لیے اپنی محبوب اور عزیز ترین چیزوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کریں، خواہ وہ اپنی جان ہو یا اپنے بیوی بچوں کی زندگیاں۔ اس مقصد کے لیے بیوی بچوں کی جدائی اگر ضرورت ہو تو اسے گوارا کریں، غریب الدیاری کی نوبت آجائے تو اس میں پس و پیش نہ کریں، بھوک پیاس اور شدائد وخطرات کی کیسی ہی خوفناک تصویریں ذہن میں گھوم جائیں مگر دینی جدوجہد کے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں۔
(۲) دین کے فروغ اور سربلندی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لیے بھی اور اپنی انسانی ضروریات کے پانے کے لیے بھی اپنی طاقت و استطاعت کی حد تک تو کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں، مگر یہ یقین رکھیں کہ ہماری کوششوں کے کامیاب نتائج برآمد کرنے والا، حقیقی داتا اور حقیقی مشکل کشا تنہا اللہ ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں۔ لہٰذا اس کے حضور میں اپنی انتہائی عاجزی اور بے بسی کے استحضار کے ساتھ اپنی کوششوں کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لیے دعا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کریں۔
الغرض اگر غور سے دیکھا جائے تو حج کے یہ اعمال و اشغال اپنے اندر کچھ ایسے تقاضے لیے ہوئے ہیں کہ اگران کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ہمارے حجاج کی زندگیوں کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، اور حج سے واپس آنے کے بعد ہر سال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نئے نمونے پیدا ہوجایا کرتے۔
حج کے اعمال و اشغال اور ایامِ حج کی پابندیاں مومن کی مثالی زندگی کی ٹریننگ ہے جو ہر سال امتِ مسلمہ کے لاکھوں نفوس کو بیک وقت دے دی جاتی ہے، جس میں ان کو اسلامی زندگی کے اصول، قواعد و ضوابط اور خصوصیات کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ اللہ کی ذاتی و صفاتی توحید کا گہرا اعتقاد، شرک کا بہر صورت و بہر نوع قلبی انکار، تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ کے لیے ماننا اور اسے اس معاملے میں مختار مطلق ماننا، اس سے بے انتہامحبت اور اس کی اطاعت، زہد و توکل، انفاق فی سبیل اللہ، نفس کشی، سادگی اور جفا کشی، جماعت اور امارت، لایعنی باتوں سے پرہیز، باہمی نزاع اور جدل و جدال سے مکمل اجتناب، گناہوں کا بالکلیہ ترک، اخلاق میں طینت، کلام میں نرمی، شعائر اللہ کی عظمت، اس کے اعدا خصوصاً شیطان سے نفرت، غرض اسلامی زندگی کے سارے اجزاء و عناصر کی ایسی مکمل عملی مشق ان دنوں میں کرادی جاتی ہے، جو اس وقت دنیا کے ہر کام سے زیادہ مشکل نظر آرہا ہے۔ اتنی آسانی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے انقلابی دماغ تحیر اور سکتے کے عالم میں رہ جائیں۔ پھر اس مکمل دینی تربیت کے ساتھ ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں:
(۱) حجرِ اسود کا استلام
حجرِ اسود کو احادیث میں یمین اللہ (اللہ تعالیٰ کا دستِ مبارک) قرار دیا گیا ہے، لہٰذا اس کا استلام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے قائم مقام ہے۔ گویا یہ عمل عہدِ اطاعت، اور اس بات کا پیمان ہے کہ وہ جس ذات کی کبریائی اور آقائی کا زبانِ حال و قال سے کلمہ پڑھ چکا ہے، اس سے بے وفائی نہ کرے گا، گویا ٹریننگ کے درمیان میں ہی اس بات کا عہد لے لیا گیا ہے کہ اب ساری بقیہ عمر کو اسی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور اب باقی زندگی ویسی ہی گزرے گی جیسی زندگی کی یہاں مشق کرائی گئی ہے۔
یوں تو اس عہد کے بغیر خود وہ ٹریننگ ہی اس بات کی متقاضی تھی کہ اب تک اگر زندگی اس تربیتی نقشۂ زندگی سے مختلف رہی ہے تو اب یہ اختلاف مٹ جانا چاہیے، لیکن استلام کے وقت اگر لطیف الحس انسان واقعی ایسا محسوس کرے کہ گویا وہ اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے رہا ہے تو اس کے لیے کوئی گنجائش ہی اس بات کی نہیں رہ جاتی کہ اب بھی اس کی زندگی اس تربیتی نقشہ کے مطابق نہ بنے۔
(۲) ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ بشارت دی ہے کہ ’’جس نے محض اللہ کی رضا مندی کے لیے حج کیا اور بے حیائی کی باتوں سے، بے حیائی کے کاموں سے، اور عام گناہوں سے محفوظ رہا، تو وہ ایسا پاک ہوکر لوٹتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تربیت اور عہدِ وفا کے بعد یہ تیسری چیز ہے جو حجاج سے زندگی کو پوری طرح اسلامی اور ایمانی زندگی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اس بشارت کی پکار ہے: ادخلوا فی السلم کافۃ۔ ’’پورے پورے فرماں بردار اور اطاعت گزار ہوجا۔‘‘ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں