حرکت و عمل کے ضروری تقاضے

بشریٰ ناہید اورنگ آباد

لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ۔

’’نہیں ہے انسان کے لیے مگر وہ جس کے لیے وہ کوشش کرے۔‘‘

کسی بھی مقصد و کامیابی کے حصول کے لیے مسلسل کوشش اور جدوجہد لازمی ہے۔ انسان کتنا ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہو محض ذہانت سے کامیابی حاصل نہیں کرلیتا جب تک کہ وہ اس مقصد کے لیے درکار مطلوبہ محنت کا حق ادا نہ کرے۔ خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کو مختلف خصوصیات سے نوازا ہے ہم اپنے موضوع سے متعلق انسانی شخصیت کا جائزہ لیں تو اس کے دو متضاد رویے ہمارے سامنے آتے ہیں:

(۱) متحرک: چاق و چوبند، مستعد، متحرک و فعال، پرجوش (عملی) ہمہ وقت مصروفِ عمل، سخت محنت و مشقت کے عادی، متحرک رہنے اور متحرک رکھنے والے۔

(۲) جامد: سست و کاہل، کام چور، جامد و بے حس، صرف باتوں کی حد تک پرجوش (بے عمل)، ٹال مٹول کے عادی، محنت سے جی چرانے والے وغیرہ۔

سرگرم و متحرک رہنے والے افراد کی بھی دو قسمیں ہیں:

(۱) ترجیحات کا تعین کرکے متحرک رہنے والے

(۲) ہر جا و بے جا کام کے لیے سرگرمِ عمل۔

اب ظاہر ہے کہ پہلی قسم کے لوگ ہی کامیاب ہیں اور دوسری قسم کے ناکام اس لیے کہ متحرک رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی بے مقصد کاموں کا بوجھ اپنے اوپر لادے اس سے وقت ضائع ہوگا اور اہم مقصد سے توجہ ہٹ جائے گی جبکہ زندگی کیاہے؟ سراسر ’’وقت‘‘ اگر ہم اپنے اوقات ضائع کرتے ہیں تو گویا زندگی برباد کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی اسی صورت میں دینے کا وعدہ فرمایا ہے، جب وہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال بھی کریں، دونوں جہاں کی کامیابی کے لیے عمل ناگزیر ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی پھوپھی صفیہ اور بیٹی فاطمہؓ سے فرمایا کہ عمل کرو، عمل کرو قیامت کے دن تم لوگ اس لیے نہیں بخشے جاؤ گے کہ نبی کی بیٹی ہو یا عزیز ہو بلکہ بخشش عمل سے ہوگی۔

سید قطب شہیدؒ فرماتے ہیں: ’’یہ ناممکن ہے کہ عقیدئہ اسلامی کسی قلب میں جاگزیں ہو اور وہ جامد اور غیر متحرک رہے یا صرف چند عبادات و شعائر تک محدود ہو۔ نہیں،بلکہ یہ عقیدہ اسلامی تصورِ حیات کے مطابق جب تک کہ زندگی کو بدل نہیں ڈالتا خاموش نہیں رہ سکتا، بلکہ یہ ضروری ہے کہ عقیدئہ اسلامی عالمِ واقع میں قائم ہونے کے لیے آگے بڑھے اور ایک تخلیقی قوت کے طور پر اس دنیائے آب و گل میں ظاہر ہو۔ اس تخلیقی قوت کے طور پر جو کہ انسان کی پوری زندگی اور اس کی مختلف کیفیتوں، رنگوں اور بناوٹوںکے سارے مظاہر کو نئے سرے سے بدل ڈالے۔‘‘

حرکت و سرگرمیاں ان کاموں کے لیے دکھانی ہے جس کی افادیت خود اپنے لیے بھی ہو اور دوسروں کے لیے بھی۔ اس لیے مفید و نتیجہ خیز کاموں میں اپنے آپ کو ہمہ وقت مستعد رکھئے۔ محنت و مشقت سے کبھی جی نہ چرائیے۔ جو لوگ محنت سے گھبراتے اور کام کو آئندہ پر ٹالتے رہتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔

اوقات کا صحیح استعمال

اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے بچائیے۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی کام کو کل پر ٹالنے کی بجائے آج کا کام ابھی بلکہ اسی لمحہ سے شروع کرنے کے عادی بنیں ۔ اور اس کام کو اتنا ہی وقت دیں جتنے کا وہ مستحق ہے۔ سست و کاہل قسم کے افراد کاموں کو ٹالتے رہتے ہیں حتی کہ ان کے پاس کام کے انبار لگ جاتے ہیں۔ بعض لوگ کام کی ابتدا کے لیے مناسب تاریخ، دن یا اچھے موڈ میں ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح کام کا آغاز ہی نہیں ہوپاتا۔ حالانکہ ان کی عمرِ حیات انہیں کل کا سورج دیکھنے بھی دیتی ہے یا نہیں وہ خود نہیں جانتے۔ ٹال مٹول سے کام لے کر آخری وقت میں کام شروع کرنا یا اپنی محنتوں و قوت کا بڑا حصہ بے کار کاموں میں لگادینا ناکام لوگوں کی خصوصیت ہے۔

سلیقہ مندی

کسی بھی کام کو اس کے وقت پر انجام دیا جائے تو وہ کام صحیح اور بہترین ہوگا جبکہ آخری وقت میں کئے گئے کاموں میں بدسلیقگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہر کام کو وقت پر اور سلیقے سے انجام دینے کی کوشش کریں۔ مثلاً: چادر ایسے بچھائیے کہ اس پر ایک شکن تک نہ ہو، بک شیلف میں کتابیں ایک ترتیب میں رکھیے۔ کپڑے الماری میں سلیقے سے جمائیے۔ یعنی چھوٹے سے چھوٹا کام کیوں نہ ہو اسے بھی عمدگی و سلیقہ مندی سے انجام دیں۔ الٹے سیدھے و بے ڈھنگے انداز میں کام کرتے رہنے کی عادت ترک کردیں۔

محنت و لگن

بے کار لوگوں کا دماغ شیطان کا کارخانہ بن جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کاہلی سے پناہ مانگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ ہاتھ بہت محبوب ہیں جو کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف رکھیے۔ خود پر عائد تمام ذمہ داریوں کو نجی اور اجتماعی کاموں کو پوری محنت و لگن سے انجام دیں۔

خدمتِ خلق

خدمتِ خلق کے لیے ہر وقت تیار رہیے۔ قرابت دار، پڑوسی، دوست و احباب ہر کسی کے مشکل وقت میں کام آئیں، ضرورت پڑنے پرمددکریں۔ بعض کام چور قسم کی خواتین نہ اپنے کام کرتی ہیں نہ دوسروں کے کام آتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ لوگ ان کی خدمت پر مامور رہیں۔ اپنے کام خود کرنا اور دوسروں کے کام آنا اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔

مسلسل جدوجہد

مولانا ابوالکلام آزادؒ فرماتے ہیں : ’’دنیا تو اسی کا نام ہے کہ مصائب و مشکلات پیش آئیں، زندگی تلخ ہوجائے، اذیتوں کا طوفان امڈ پڑے۔ اس تلاطم میں انسان ہر ایک زحمت کے مقابلے کو اٹھ کھڑا ہو، اس کی کوششیں بار بار ناکام ثابت ہوں، قدم قدم پر ٹھوکریں لگیں، چلیں اور گر پڑیں، لیکن پھر سنبھلیں اور سب کو سنبھال لیں۔‘‘ ولیم شیکسپئر کہتا ہے: ’’عقلمند انسان بیٹھ کر تکالیف پر رونے کی بجائے تکالیف کے تدارک میں بخوشی مصروفِ عمل ہوجاتا ہے۔‘‘ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ انسان اگر ناکامیوں کے باوجود صبر و تحمل کے ساتھ اپنی سنجیدہ کوششیں جاری رکھے تو کامیابی یقینی ہے۔

مضبوط قوتِ ارادی

جن لوگوں پر ناکامی کا خوف حاوی ہوتا ہے وہ ضرور ناکام ہوتے ہیں۔ منفی سوچ انسان کی سرگرمیوں میں ڈھیلا پن و سست روی پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے کسی بھی مقصد میں کامیابی کے لیے مثبت و تعمیری سوچ اور مضبوط قوتِ ارادی و مستقل مزاجی لازمی ہے۔ لوگوں کی تنقید و مخالفت بھی ارادوں میں تزلزل پیدا کرتی ہے۔ تنقید ومخالفت سے نہ ڈریں اور طے شدہ اہداف کو ہر حال میں حاصل کرنے کا ڈھنگ سیکھیں۔

موت کی یاد

موت کو ہر وقت یاد رکھئے۔ موت کی یاد فرد کو جمود سے نکالتی ہے۔ نیک کاموں کے لیے تحریک پیدا کرتی ہے۔ عمل پر ابھارتی ہے۔ بھلے کام کے لیے اکساتی اور برے کام سے بچنے کے لیے قوت عطا کرتی ہے۔

ضروری چیزیں

وقت کی قدر کرنا سیکھیں۔ ذمہ داریوں کا احساس کریں ہر کام کو مستقل مزاجی سے انجام دیں۔ کتنی ہی ناکامیاں راہوں میں حائل ہوں صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑیں ، استقامت و باقاعدگی سے کرتے چلے جائیں۔ عزم و حوصلوں کو جواں رکھیں۔ مضبوط قوتِ ارادی کے مالک بنیں۔ اپنے مقصد، نصب العین و ترجیحات کا صحیح شعور حاصل کریں اور ان کے حصول کے لیے مستعد و چاق و چوبند ہوکر انتھک محنت اور کڑی جدوجہد کریں۔ بہتر نتائج کے لیے عجلت پسندی نہ دکھائیں۔ مایوسی کا شکار نہ ہوں ناکامی کے اندیشے نہ پالیں اپنے کام کے تئیں احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ آپ کتنا ہی بہترین کام کیوں نہ کرلیں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خامی تو رہ ہی جاتی ہے جس سے تنقید تو ہونی ہی ہے۔ لوگوں کی تنقید کو خوش آمدید کہیں اور اصلاح کی طرف توجہ دیں کسی بھی کام کی ادائیگی کے وقت اپنے ذہن کو انتشار و تناؤ کی کیفیت سے دور رکھئے۔ بہترین و نتیجہ خیز کاموں کو زبردست دلچسپی کے ساتھ انجوائے کرتے ہوئے انجام دیں۔

عجلت پسندی، مایوسی، عدم دلچسپی، تنقید کا خوف، احساسِ کمتری یہ چیزیں حرکت و عمل سے روکتی ہیں اور سستی و کاہلی پیدا کرتی ہیں، ان سے بچناضروری ہے۔ یہ چند باتیں ہیں جن کو اپنا کر خواتین و طالبات اپنی شخصیت میں خوبصورت انقلاب لاسکتی ہیں۔

جس میں نہیں انقلاب موت ہے وہ زندگی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں