جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے ظاہری اعمال میں بعض چیزیں، واجب اور بعض گناہ قرار دی ہیں، اسی طرح ہمارے باطنی اعمال میں سے بہت سے اعمال فرض ہیں اور بہت سے اعمال گناہ اور حرام ہیں۔ ان سے بچنا اور اجتناب کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ظاہری گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک باطن کی مہلک بیماری ’’حسد‘‘ ہے۔ حسد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا زہر ہے جو پیتا تو انسان خود ہے اور خواہش دوسروں کے مرنے کی کرتا ہے۔
کسی شخص میں دوسرے کے بارے میں کینہ اور بغض پیدا ہوجائے تو اس کا ظہور حسد کی صورت میں ہوتا ہے اور غیبت بھی اس کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ حسد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے آدمی کو جو حیثیت عطا کی ہے وہ اس کے پاس نہ رہے۔ یعنی حاسد دوسرے کو دی گئی نعمت کے زوال کی تمنا کرتا اور کسی دوسرے کی عزت، قابلیت اور نام وری کو نہیں دیکھ سکتا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کے اس فضل پر لوگوں سے جلتے ہیں جو اس نے انہیں دے رکھا ہے؟‘‘ تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بخشی تھی۔ (النساء:۵۴)
حسد نیکیوں کا خاتمہ کردیتا ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: حسد سے بچو! کیوںکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے کہ آگ ایندھن کو کھا کر ختم کر دیتی ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
اگر کوئی شخص نماز پڑھتا، روزے رکھتا اور دوسری بہت سی نیکیاں کرتا ہے لیکن جب وہ دل میں دوسرے بھائی کے ساتھ حسد اور بغض رکھتا ہے، تو یہ خصلت ان تمام نیکیوں کو ختم کر دیتی ہے۔ حسد ایک بہت بڑا جرم ہے اور اس کے جرم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حاسد دراصل اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے کہ دوسرے کو یہ نعمت، عزت اور دولت کیوں دی ہے، اور اسے کیوں نہیں دی۔ یعنی حاسد اللہ تعالیٰ کی عطا اور تقسیم کو درست نہیں سمجھتا۔ اس لیے وہ اس بندے سے اس نعمت کے زوال کی تمنا کرتا ہے۔ پھر حسد جرم اور گناہ اس وقت بن جاتا ہے جب حاسد کے دل میں کسی سے اس کو دی گئی نعمت کے زوال کی تمنا آجائے اور پھر وہ اس آدمی سے اس نعمت کے چھین لینے کی کوشش بھی شروع کردے۔ تب تو یہ ظلم ہے اور ظلم کاجرم اور گناہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
سورہ البقرہ میں ارشاد ہے: ’’بہت سے اہل کفر اپنے دل میں جلن کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لاچکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں حالاں کہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے تو تم معاف کردو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا (دوسرا) حکم بھیجے، بے شک اللہ ہر بات پر قاد رہے۔‘‘ (آیت:۱۰۹)
رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا، بد فالی، بدگمانی اور حسد۔ پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! پھر اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہوگا؟ تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم بدفالی کرو تو دوبارہ اس کی طرف نہ آؤ اور جب دل میں بد گمانی آجائے تو اس کی تحقیق و تفتیش میں نہ لگ جاؤ اور جب تم حسد کرنے لگو تو ظلم او رفساد مت کرو۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: کوئی آدمی ایسا نہیں جس میں حسد نہ ہو۔ پس یہ حسد جس آدمی کو گناہ اور فساد اور ظلم کی طرف نہ لے جائے تو اس حسد کا اس پر کوئی وبال نہیںہے۔‘‘ (فتح الباری)
کسی کا زوال چاہے بغیر اپنی ترقی کے لیے محنت اور کوشش کرنا حسد نہیں کہلاتا بل کہ اسے مسابقت کہا جاتا ہے۔ لیکن مسابقت اور مقابلے میں کسی کی ٹانگ نہ کھینچی جائے بلکہ ہمت و جہد مسلسل سے مقابلہ کیا جائے اور مثبت مقابلے کے ذریعے کوئی مقام حاصل کیا جائے۔ ترقی اور بہتری کے لیے کوشش کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
رسول اکرم نے فرمایا: حسد جائز نہیں ہے مگر دو خصلتوں میں، ایک آدمی کی خصلت پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو، پس وہ اس مال سے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہو، او ردوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہو، پس وہ اس پر رات دن عمل کرتا ہو۔‘‘
حسد پیدا ہونے کی بڑی وجہ حقیقت دنیا کے حوالے سے صحیح شعور کی عدم موجودی ہے۔ بالعموم ہم دنیا اور اس کے مال و متاع کے حصول کو کام یابی سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ اسلام ہمیںیہ بتاتا ہے کہ دنیا اور اس کا مال و متاع کامیابی نہیں، آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو زیادہ دے کر آزماتا ہے او رکسی کو تنگ دست بنا کر۔ یہ حسد ہی تھا جس نے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو شرمندگی دلوائی اور یہی حسد تھا جس کی بنیاد پر قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔ نبی اکرمﷺ نے اہل ایمان کو آپس کے معاملات اور تعلقات میں سے جن باتوں سے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک حسد بھی ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیںکہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم ایک دوسرے سے قطع تعلق مت کرو، اور ایک دوسرے سے پیٹھ مت پھیرو۔ اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی بنو۔ اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے (مسلمان) بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ سلام ترک کرے۔‘‘ (متفق علیہ)
حسد ان معاشرتی برائیوں میں سے ایک ہے جو معاشرے کے امن و سکون کو تباہ کردیتی ہیں۔ حسد میں مبتلا انسان اپنا سکون بھی برباد کرتا ہے اور جس سے وہ حسد کرتا ہے اس کا بھی برا سوچتا ہے اور اس کی غیر حاضری میں اس کے عیب بیان کرتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت نہ رہے اور سوئے ظن پیدا ہوجائے اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں…
قرآن کریم میں حاسد کے حسد سے پناہ کی تلقین کی گئی ہے اور اس سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ سورۃ الفلق میں ارشاد ہے: ’’کہہ دو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں، تمام مخلوق کے شر سے اور اندھیری رات کے شر سے، جب وہ آجائے اور گنڈوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حسد اور حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔