حسنِ اخلاق

پروفیسر محمد یونس

حسنِ اخلاق انسان کے کردار اور رویے کو دلکش بناتا ہے اور ایسے آدمی کی شخصیت عوام الناس کے درمیان پرکشش اور ہر دل عزیز ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی اخلاقی خوبیوں کی بنا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ ہمارے سچے اور حقیقی راہنما اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں۔ جب ہم اُن کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں تمام فضائل اخلاق سے آراستہ پاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نوعِ انسانی کے لیے نمونہ بناکر بھیجا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھر پور زندگی بسر کی۔ آپ روزمرہ کے کام کاج میں حصہ لیتے، خریدوفروخت کرتے، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے، دوسروں کے ساتھ شائستہ انداز میں گفتگو کرتے، ساتھیوں کی تربیت کرتے، دشمنوں کے ناپاک عزائم سے باخبر اور ہوشیار رہتے۔ صحابہ کے ساتھ سنجیدہ گفتگو کرتے اور کبھی کبھی خوش طبعی بھی فرماتے۔ آپؐ اس رویے اور طرزِ عمل کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی پیش پیش تھے۔ پنجگانہ نمازوں کے علاوہ آپؐ رات کے اوقات میں نفل نمازیں بھی پڑھتے، رمضان کے روزے تو فرض ہیں، ان کے علاوہ بھی ہر مہینے کئی کئی دن نفل روزے رکھتے۔ تاہم رات کے اوقات میں آرام فرماتے۔ دن کو دوپہر کے وقت تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جانابھی آپؐ کے معمول میں شامل تھا۔ چونکہ آپﷺ کی زندگی سراسر متوازن تھی اس لیے خالقِ کائنات نے لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب:۲۱) ’’تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی میں اچھا نمونہ موجود ہے۔‘‘ کے الفاظ قرآن میں نازل فرماکر انسانوں کے لیے صراطِ مستقیم پر چلنے کا عملی مظہر فراہم کردیا۔
رسول اللہ ﷺ کے مقصد بعثت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کو شرفِ انسانیت سکھائیں اور شرفِ انسانیت فضائل اخلاق ہی کا دوسرا نام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنما بعثت معلماً۔ (سنن ابن ماجہ)
’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ جہاں آپؐ نے معلّمین کی عظمت واضح کی، وہاں اساتذہ کی ذمہ داری بھی بتادی کہ وہ اپنے متعلّمین کے لیے مثالی کردار کے حامل بنیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
بعثت لاتمم حسن الاخلاق۔(مؤطا)
’’مجھے اخلاقی خوبیوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی فضائل اخلاق کی مظہر تھی۔ آپؐ نے اپنے ساتھیوں کی اس طرح تربیت کی کہ اُن میں سے ہر فرد اخلاقی خوبیوں سے متصف نظر آتا ہے۔
جان لینا چاہیے کہ حسنِ اخلاق نام ہے دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
احسن خلقک للناس یا معاذ بن جبل۔
’’اے معاذ! لوگوں کے لیے اپنے اخلاق کو بہتر بناؤ‘‘
گویا اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے مفید ہو اور ہر کوئی اس کی اذیت سے مامون و محفوظ ہو۔
رحم دلی اچھی عادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر رحم کرنے اور معاف کرنے کا درس دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
لا یرحم اللّٰہ من لا یرحم الناس۔(بخاری)
’’وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے محروم رہیں گے، جن کے دلوں میں دوسرے آدمیوں کے لیے رحم نہیں۔‘‘
کسی انسان یا جانور کو تکلیف یا مشکل میں دیکھ کر اس کی مدد کے لیے آگے بڑھنا بہت بڑی نیکی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے میرے کسی امتی کی حاجت پوری کردی، اس کا دل خوش کرنے کے لیے، تو اس نے مجھے خوش کیا، اورجس نے مجھے خوش کیا، اس نے میرے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ کو خوش کیا اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کا کفیل ہے۔ وہ سب کا روزی رساں اور ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے والاہے۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ پس جو آدمی اللہ کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، وہ اللہ کا پسندیدہ بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ پس اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت ان بندوں سے ہے، جو اُس کی مخلوق کے ساتھ احسان کریں۔‘‘
مشرکین مکہ نے رسول اکرم ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں پر اس قدر ظلم کیا کہ انہیں مکہ چھوڑ کر مدینہ میں پناہ لینی پڑی۔ لیکن فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے عام معافی کا اعلان فرماکر کہ’’میں تم سے وہی کہوں گا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: آج تمہارے اوپر کوئی گرفت نہیں جاؤ، پس تم آزاد ہو۔‘‘ حسنِ اخلاق کا وہ نمونہ چھوڑا کہ دنیا اس کی دوسری مثال پیش نہیں کرسکتی۔
بدلہ لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کرنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ ایثار و قربانی بہت بڑی اخلاقی خوبی ہے۔ یہ خوبی آپؐ کے کردار میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ آپؐ کئی کئی دن کے فاقے برداشت کرلیتے تھے۔ لیکن دوسروں کے سوال کو کبھی ردّ نہ فرماتے تھے۔ آپؐ کے صحابہ کرام ؓ میں بھی یہ خوبی نمایاں تھی کہ وہ اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے۔ قرآنِ مجید میں مؤمنین صادقین کی ایک یہ صفت بیان کی گئی ہے :
ویؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ۔ (الحشر: ۹)
’’وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں چاہے وہ خود تنگی میں ہوں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی رہنمائی میں وہ معاشرہ وجود میں آیا جس کے افراد باہم شیروشکر اور الفت و محبت کے رشتے میں منسلک تھے۔ کسی دوسرے کی تکلیف کو گوارا نہ کرتے تھے، بلکہ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کے لیے راحت کا سامان بہم پہنچاتے تھے۔ سیرتِ صحابہؓ میں اس قسم کے بے شمار واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔
باہم نفرت و عداوت، حسد اور بدگمانی، بغض اور کینہ، یہ سب رذائل اخلاق ہیں۔ ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نرم مزاجی، حلم و بردباری، خوش کلامی، صدق وامانت، قناعت اور استغناء، شرم و حیا اور صبرو شکر اخلاقی خوبیاں ہیں، جن کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
ان اثقل شیٔ یوضع فی میزان المؤمن یوم القیامۃ خلق حسن۔ (صحیح البخاری)
’’قیامت کے دن مؤمن کی میزانِ عمل میں سب سے زیادہ وزنی اور بھاری چیز جو رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔‘‘
حسنِ اخلاق میں یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے شگفتہ روئی کے ساتھ ملاقات کی جائے۔ اس کام میں نہ تو کوئی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، جبکہ یہ بھی بڑے اجرو ثواب کا کام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو۔ اگر تم اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہو تو یہ بھی ایک قابلِ قدر نیکی ہے۔
پس ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اخلاقی خوبیاں اپنائے۔دوسروں کے لیے نیک اور مفید جذبات رکھے۔ کسی اخلاقی خوبی کو معمولی خیال نہ کرے اور رذائلِ اخلاق سے اپنے دامن کو بچا کر رکھے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں