حسنِ سلوک کے محرکات

محمد احسن عالم، ارریا

انسانی سلوک و معاملات کے پسِ پشت عوامل و محرکات کا دارو مدار دراصل انسان کے عقیدے اور نظریۂ حیات پر ہوتا ہے۔ ایک غیر مسلم شخص اگر سچ بولتا ہے، خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے، وعدے کا پابند ہے اور اسی طرح دیگر امور میں بھی خوشگوار طرزِ عمل اپناتا ہے تو اس کا محرک، ذاتی شرافت، مصلحت اور کسی نفع کی امید یا نقصان کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن مومن کے سلوک کے عوامل و محرکات اس سے مختلف ہوتے ہیں۔ جسے ہم مندرجہ ذیل نکتے سے واضح کرسکتے ہیں:
حسنِ سلوک
مومن اللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو۔‘‘ مومن کی خوش اخلاقی ذاتی مصلحت پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ اس کے مقصدِ حیات کے تقاضے کی تکمیل اور رب کی رضا کے لیے ہوتی ہے۔ خوش اخلاقی مومن کی بہترین صفات میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’مومن دوسروں سے مانوس ہوتا بھی ہے، اور انہیںمانوس کرتا بھی ہے اور جو کوئی ایسا نہ کرے۔ اس میں کوئی بھلائی نہیں، لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔‘‘ (جامع صغیر)
اللہ تعالیٰ نے بہترین اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ ہدایت بھی دی ہے کہ ہم اللہ کے راستے کی طرف بھی لوگوں کو حکمت اور بہترین خیر خواہی کے ساتھ دعوت دیں۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیں حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔‘‘ (النحل: ۱۲۵) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا تو سب سے اچھی بات ہے ہی لیکن بلانے کے لیے انداز بھی حکیمانہ اور دل کو موہ لینے والا اختیار کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے خود رسول ؐ اللہ کی صفت نرم دلی بتائی ہے۔ جو انسان کو خوشگوار سلوک کا پیکر بناتی ہے۔ ’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر آپؐ کہیں تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘ (آل عمران: ۱۵۹)
طرزِ سلوک
لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے کچھ فطری اصول و فوائد ہیں جو ساری دنیا میں اور تمام اقوام میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن انہیں تسلیم کرنے اور ماننے کا فائدہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہماری زندگی مخلصانہ طور پر انہی اصولوں پر استوار ہو اور حالات کی نرمی و سختی راہ میں حائل نہ ہو۔
اپنے علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے بھی لوگوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ایک انسان ذہین اور سمجھ دار ہوتا ہے۔ دوسرا کم عقل اور کم فہم ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں سے اُن کی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ہی بات کی جائے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ کوئی اُن کی باتیں توجہ سے سنے، اور اُن کی حوصلہ افزائی کرے یہ نہیں کہ ہمیشہ اپنی ہی باتیں سناتا رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں، جن میں آپؐ صحابہ کرامؓ کی ضرورتوں سے واقف ہوکر اُن کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ کسی شخص کو کسی کام کے کرنے یا اس سے باز رہنے کا مشورہ بھی نیکی ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں پر اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔ آپ جس چیز کی طرف دعوت دینا چاہتے ہیں، حسنِ سلوک و حسنِ اخلاق کے ساتھ دیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ فائد مند ہو اور سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو خوش کردیں، یا اس کی کوئی پریشانی دور کردیں، یا اس کا کوئی قرض ادا کردیں، یا اس کی بھوک مٹادیں، اگر آپ اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائیں تو مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ ایک مہینے تک مسجد میں اعتکاف کیے رہیں۔‘‘ (طبرانی)
مومن کا ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہوتا ہے۔ تاہم انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ قدردانی اور حوصلہ افزائی کو پسند کرتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے انسانوں کا شکریہ ادا نہ کیا، اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی نہیں کیا۔‘‘ (ترمذی) کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہنا اور دعا دینا بھی حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے۔ جس سے مزید اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہاں کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کرنی چاہیے۔
زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ منفی ہے۔ اس کی بنیاد لوگوں کی برائیوں ہی پر نظر رکھنے پر ہوتی ہے۔ اس میں غلطیاں اصلاح کی خاطر نہیں دیکھی جاتیں بلکہ خود غرضی اور لوگوں کے استحصال کا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ مثبت ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی خوبیوں پر توجہ دیں اور اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ برائیوں پر پردہ پوشی کریں۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘ (مسلم)
مومن کا طرزِ عمل
جس بندۂ مومن کا اپنے پروردگار پر سچا ایمان ہوگا اور آخرت کے محاسبے پر یقین ہوگا کہ ہر ایک نیکی اور بدی کا بدلہ اسے ضرور ملے گا تو اس کا یہ یقین اسے اس امر کا مستحق بنائے گا کہ اللہ کی ہدایت اور اس کے حکم پر چلنے کی توفیق اسے حاصل ہو۔ اسی طرح وہ رب کی نافرمانی سے بچے گا، لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے گا، دیانت دار اور امانت دار بن کر رہے گا۔ وعدہ خلافی نہیں کرے گا، نیکی کے کاموں میں تعاون کرے گا، اس کے لینے اور دینے کے پیمانے ایک ہوں گے اور اپنی زندگی اسی اصول پر استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ کا فرمان ہے:’’پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو۔‘‘ (الشعراء: ۱۸۱-۱۸۲) مومن خریدو فروخت میں کشادہ دلی سے کام لے گا۔ دوسروں پر اپنے حقوق کے تعلق سے نرمی کرے گا۔ کسی کو دھوکا نہیں دے گا وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پیشِ نظر رکھے گا کہ سچا دیانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ جنت الفردوس میں ہوگا۔ (قرآن کریم)
اسی طرح کاشتکار جو کھیتی کرتا ہے تو پیداوار کے منافع کے ساتھ ساتھ اسے اجر و ثواب بھی ملے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’جومسلمان کوئی پودا لگاتا ہے یا کھیت بوتا ہے۔ اس سے انسان، پرندے اور جانور جو بھی کھاتے ہیں، اسے اس کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ مومن معلم یا استاد اپنے فرائض کی اہمیت محسوس کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی مفید علم چھپایا وہ قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے ہوئے پیش ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری) مومن اپنے علم کے مطابق عملی نمونہ بھی پیش کرے گا تاکہ لوگوں پر علم کا فائدہ ظاہر ہوسکے اور وہ بھی علم سیکھنے کی کوشش کریں، ورنہ لوگ اس کے علم کو بے کار سمجھ کر اس سے بے نیازی اختیا رکریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ ’’جب عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو جاہل علم سیکھنے ہی سے رک جاتا ہے۔‘‘
نیکی کرنا اور دوسروں کو نیکی کرنے پر آمادہ کرنا بھی مومن کی ذمہ داری ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی نیکی کی طرف رہنمائی کی، اسے وہ نیکی کرنے والے جیسا ہی اجر ملے گا۔‘‘ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہتر نیکی لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا، انہیں سہارا دینا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، معذور کی مدد کرنا اور تحفہ دینا بھی نیکی ہے۔‘‘
مسند احمد میں حضرت ابوحزی جہمیؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی نیکی کو حقیر وکم تر نہ سمجھو، چاہے کسی کو رسّی کا ٹکڑا ہی دیا ہو، یا جوتے کی کیل ہی دی ہو یا کسی کے برتن میں پانی ہی ڈالا ہو، یا راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہی ہٹائی ہو یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے ہو۔‘‘
اسی طرح مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنا بھی عظیم نیکی ہے۔ جیسے مریض کی عیادت کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، سلام کرنا، دعوت قبول کرنا، چھینک آنے پر یرحمک اللہ کہنا، جنازے میں شریک ہونا وغیرہ۔ نیکی کے کام میں حضرت جابرؓ کی روایت ہے آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی کنواں کھودا تو انسانوں، جنوں، جانوروں اور پرندوں میں سے جو بھی پیاسا پانی پئے گا، اس کا ثواب اسے قیامت تک ملے گا۔‘‘ (بخاری)
انسانی مساوات
انسانوں کے ساتھ سلوک میں یہ بات بھی ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ (حضرت آدمؑ و حواؑ) کی اولاد ہیں۔ ان میں کسی طرح کا نسلی امتیاز نہیں ہے۔ دنیا کی حیثیت ایک گلشن کی ہے اور مختلف قوم وطن اور مختلف رنگوں کے لوگ اس گلشن کے رنگ برنگے پھولوں کی طرح ہیں۔ پھر علم و فضل، صحت و جسم، مال و دولت وغیرہ کی تقسیم اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ کے نزدیک بہتر صرف وہ ہوگا جو تقویٰ والا یعنی پاکباز ہوگا۔ لہٰذا ذہن میں کسی طرح کے تعصب و تنگ نظری کو دخل نہیں دینا چاہیے۔ تبھی معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ جس سے ماحول سازگار ہوگا۔
اتحاد پسندی
فرد معاشرے کا ایک جزو ہوتا ہے۔ اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لیے نہیں پیدا کیا کہ وہ اختلاف کا شکار ہوں بلکہ انہیں وحدت کا سبق دیا ہے۔ نماز باجماعت کی فضیلت اور تاکید اس کی ترغیب دیتی ہے۔ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان خود اپنے دائرے میں محدود ہوجائے۔ بلکہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ دیگر بھائیوں کے ساتھ منسلک و مربوط ہوکر رہا جائے۔ باہمی پھوٹ تو طاقت ور قوموں کو بھی کمزور کردیتی ہے اور کمزور قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔
سماجی خدمات
ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اس لیے سماجی خدمات کی بڑی اہمیت ہے۔ تعلیمی اداروں، یتیم خانوں، بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہوں اور بیماروں کے لیے شفا خانوں میں تعاون کرنا اور معاشرے کے دکھ درد کو بانٹنے کی کوشش کرنا بھی عین کارِ ثواب ہے اور یہ بھی انسانی سلوک کا ایک لازمی جز ہے کہ انسان حیوانوں کی سطح سے اوپر اٹھ کر دوسرے بھائیوں کی ہمدردی اور راحت رسائی کو بھی اپنی ذمہ داریوں میں شامل سمجھے۔
مومن کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اور داعی حق کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے اندر مومنانہ صفات پیدا کرے، پھر بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں کو حق کی دعوت دے اور وہ بھی حکیمانہ انداز میں۔ ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے اور دین کی دعوت دینا ہر مومن کا فرض۔!!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں