اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں عبادت کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اخلاق ’’خلق‘‘ کی جمع ہے، جس کے معنی خصلت، عادت اور طبیعت کے ہیں۔ حسن اخلاق ہی وہ طاقت ہے، جس نے طلوع اسلام کے وقت لوگوں کو دائرہ اسلام میں جوق در جوق داخل کیا۔ اسلام اچھے اخلاق اور ہر اس بات کی ترغیب دیتا ہے جو معاشرے میں خیر و فلاح کا سبب بنتی ہے اور ہر اس بات سے روکتا ہے جو کسی بھی شر، فساد اور کسی کی دل آزاری کا سبب بنتی ہے۔ ہر انسان کی ایک ظاہری اور ایک باطنی صورت ہے۔ یہ انتہائی بری بات ہے کہ انسان کا ظاہر تو خوب صورت نظر آئے، مگر باطن بدصورت ہو۔ ایک انسان کا اچھے اخلاق والا ہونا اسلام میں مطلوب ہے۔
اسلام نے اچھے اخلاق کو ایمان کی نشانی بتایا ہے اور مسلمانوں کو یہ درس دیا ہے کہ برے اخلاق کسی بھی مومن کے شایان شان نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اچھے اخلاق کو اپنانے اور برے اخلاق سے بچنے کی تاکید کی ہے، چناں چہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ ‘‘(النحل:۹۰)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں، اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور (لوگوں کے مخفی) بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تمہیں اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک، اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات:۱۱،۱۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’ اور یقینا آپ کا اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر ہیں۔‘‘ (القلم)
حسن اخلاق رسول اللہﷺ کا محبوب اور مقرب بننے کا بہترین ذریعہ ہے، آپﷺ نے فرمایا:’’ میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے عادات و اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔ (بخاری)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:
’’قیامت کے دن مومن بندے کے میزان عمل میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں ہوگی اور یقینا اللہ تعالیٰ بد زبان اور بے ہودہ گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
ایک صحابیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: تم جہاں کہیں بھی رہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، برائی کے پیچھے نیکی کرلیا کرو۔ بے شک نیکی برائی کو مٹادے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ (ترمذی)
قرآن کریم اور آپﷺ کی احادیث طیبہ کے مطالعے سے حسن اخلاق کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپﷺ نے امت کو حکم دیا کہ وہ اچھے اخلاق اختیا رکرے اور بد اخلاقی سے دور رہے، چوں کہ حسن اخلاق کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد میں بہت محتاط رہنے کا حکم دیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کو اپنے حقوق کی نسبت زیادہ اہمیت دی ہے، لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ زمین پر سکون سے رہو، فساد سے بچو۔ عام طور پر لوگ حقوق اللہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں، مگر حقوق العباد میں سنجیدہ نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں عدل و احسان کا فقدان ہو جاتا ہے اور معاشرہ نفاق، انتشار اور عدم اطمینان کا شکار نظر آتا ہے۔ لہٰذا اخلاق و کردار کی درستی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہمیں نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہے۔ خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہر دل عزیزی حاصل کرنے کے لیے حسن اخلاق سب سے بہتر اور سب سے آسان ذریعہ ہے۔ انسان ہزار عالم و فاضل اور عابد و زاہد ہو، اگر وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم ہے تو اس کے علم و فضیلت و عبادت و ریاضت کا کوئی فائدہ نہیں۔
مسلمان ایک داعی امت ہے۔ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والی، اللہ اور اس کا دین جس حسن اخلاق کا مطالبہ کرتا ہے اگر وہ خود داعی کے اندر نہ ہو تو اس کی دعوت کا کیا خاک اثر ہوگا؟ ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے حسن اخلاق کی وجہ سے لوگ ایمان لاتے تھے مگر اپنی عملی زندگی میں اس بات کو نافذ نہیں کر پاتے۔ یہی تو کمزوری ہے جو آج ہماری دعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔