[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

حسن خاتمہ

رضوانہ سارہ

اس دنیا میں انسان کی عمر ہی اس کا سرمایہ ہے، کیوں کہ کل آخرت میں اسی عمر کا حساب ہوگا اور یہاں انجام دیے گئے کاموں کے مطابق ہی نتیجہ سامنے آئے گا۔ اور اگر اس نے عمر کو برے کاموں میں استعمال کیا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہوا تو وہ ناکام اور نقصان میں ہے۔ عقلمند وہی شخص ہے جو اللہ کے محاسبہ کرنے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اور قبل اس کے کہ اس کے گناہ اس کی ہلاکت و بربادی کا سبب بنیں وہ گناہوں سے دور ہوجائے۔ ابن مسعودؓ نے فرمایا: ’’مومن اپنے گناہوں کو ایسا سمجھتا ہے گویا کہ وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور ڈر رہا ہو کہ وہ اس پر ٹوٹ نہ پڑے۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘ لہٰذا تقوی اور اسلام سے چمٹے رہنے کا حکم موت آنے تک برقرار ہے تاکہ بندہ حسنِ خاتمہ کی سعادت سے بہرہ مند ہو۔ نبیؐ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ فرمانبرداری کرتے اور گناہوں سے دور رہتے ہیں، لیکن وفات سے کچھ پہلے گناہ اور معصیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ان کے برے خاتمہ کا سبب بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں متعدد مقامات پر ایسی دعائیں سکھائی ہیں جن میں زندگی اور موت کو ایمان کی حالت میں طلب کیا گیا ہے۔ چنانچہ نماز جنازہ میں ہم جو دعا کرتے ہیں اس کے آخری الفاظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’اے اللہ تو ہم میںسے جسے زندہ رکھے اسے ایمان پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔‘‘
اہلِ ایمان کی اہم ترین خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہر حال میں ایمان پر قائم رہناچاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ایمان کی حالت ہی میں موت کے طالب ہوتے ہیں۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ دو چیزوں سے بہت زیادہ ڈرتے تھے: لمبی آرزو اور نفس کی پیروی سے۔ فرمایا: لمبی آرزو آخرت کو بھلا دیتی ہے اور نفس کی پیروی حق سے روک دیتی ہے۔ اور فرمایا: ’’سنو! دنیا پیٹھ کر پھیر کر بھاگ رہی ہے۔ اور آخرت تیزی ساتھ آگے بڑھتی چلی آرہی ہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ ناگہانی موت سے پناہ مانگتے تھے کیوںکہ وہ انسان کو اچانک اپنے چنگل میں لے لیتی ہے اور اسے اس بات کی بھی مہلت نہیں دیتی کہ وہ اپنے رب سے توبہ و استغفار کرکے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرلے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ناگہانی موت کی صورت میں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کا خاتمہ کہیں معصیت کی حالت میں نہ ہوجائے۔
سلف صالحین برے خاتمہ سے بہت زیادہ ڈرا کرتے تھے، سہل تفسیری فرماتے ہیں کہ سچے لوگ ہر قدم پر برے خاتمہ سے ڈرا کرتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ نے تعریف بیان کی ہے، فرمایا: وقلوبہم وجلۃ۔ (المؤمنون :۶۰)
’’ان کے دل کپکپاتے ہیں۔‘‘
اس لیے بندے کو چاہیے کہ ہر لمحہ سوئِ خاتمہ سے ڈرتا رہے کیونکہ خوف ہی عمل کاباعث ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں