والد صاحب دبئی کی ایک کمپنی میں انجینئر ہیں اور ان کی تنخواہ تقریباً ایک لاکھ روپئے ہے۔ والد صاحب اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان دنوں گھر کے حالات خراب تھے۔ والد صاحب کے تمام چھوٹے بھائی بہن پڑھ رہے تھے اور اس قابل نہ تھے کہ تعلیم چھوڑ کر محنت مشقت کرتے۔ والد صاحب ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لے چکے تھے۔ انھوں نے اپنا کورس مکمل کیا اور پھر دبئی کی ایک کمپنی میں ان کو نوکری مل گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات ٹھیک ہونے لگے کیونکہ ابو خوب کما رہے تھے، وہ رقم دادا جان کو بھجواتے تھے۔
پانچ سال دبئی میں کام کرنے کے بعد بیٹے کو ماں نے واپس بلوالیا کیونکہ وہ اب اس کماؤ بیٹے کی شادی کرنا چاہتی تھیں۔ تاہم ابو اور کمانا چاہتے تھے مگر ماں کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور انھوں نے سپر ڈال دی۔ دادی جان نے لڑکی ڈھونڈلی تھی، جو کافی خوبصورت تھی کیونکہ میری دادی حسن پرست تھیں، ان کو اچھی صورتیں بھاتی تھیں، خود ان کی اپنی صورت بھی لاکھوں میں ایک تھی۔ دراصل میرا ددھیال خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے بدشکل لوگوں کی یہاں گنجائش نہ تھی۔ دادی تو ملازمہ بھی حسین صورت والی رکھتی تھیں… یہ تھا دادی کا مزاج۔ ایک بات اور بتادوں کہ میرے دادا، چچا، پھوپھیاں سب ماشاء اللہ ایک سے بڑھ کر ایک حسین تھے۔ فطری بات ہے ایسے میں دادی بہو بھی خوبصورت ہی لانا چاہتی تھیں اور اس منصب کے لیے ا نھوں نے اپنی بھانجی کا انتخاب کرلیا تھا۔
خدا کا کرنا، ان ہی دنوں دادا جان کے ایک دوست نے اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے استدعا کی۔ اعظم صاحب بیمارتھے اور ان کے سوا اس بچی کا اس دنیا میں اور کوئی نہ تھا۔ دادا جان پر چونکہ اعظم صاحب کے کافی احسانات تھے، لہٰذا جب انھوں نے کہا کہ تم میری بیٹی سعدیہ کو اپنی بہو بنالو… تو دادا انکار نہ کرسکے۔
گھر آکر جب بیوی کو بتایا تو وہ آگ بگولا ہوگئیں۔ کہنے لگیں کیسے ہاں کرکے آگئے۔ پہلے مجھ سے تو پوچھا ہوتا، میں تو ملیحہ کے بارے میں طے کرچکی ہوں کہ اسے بہو بناؤں گی۔ شکر ہے کہ ابھی رشتہ نہیں مانگا ورنہ بڑی سبکی ہوتی۔ بہر حال دادا کے اصرار پر جب دادی لڑکی دیکھنے گئیں تو سخت مایوس ہوئیں۔ گھر آکر شوہر سے جھگڑنے لگیں۔ کیا سارے شہر میں تم کو یہی لڑکی ملی ہے بہو بنانے کو۔ ارے کیا صورت نہیں دیکھی، ناک اور گھنگھریا لے بال وہ تو بالکل ’’حبشن‘‘ لگتی ہے۔ حالانکہ ایسا قطعی نہ تھا۔ والدہ صاحبہ اس قدر بھی گئی گزری نہ تھیں، رنگ گندمی تھا، البتہ ناک چپٹی ضرور تھی۔ لیکن ہمارے ددھیال کے سامنے واقعی کم خوبصورت تھیں کہ یہ سب کے سب گورے چٹے تھے۔ تیکھے نقوش … بالکل یونانی شہزادے اور یونانی دیویوں ایسی صورتیں تھیں ان کی۔ اوپر سے قدو قامت بھی شاندار تھا۔ پھر دادی کیوں نہ غصہ ہوتیں۔
دادا نے ایک نہ سنی، کہا: صورتیں سب خدا کی بنائی ہوئی ہیں۔صورت سے زیادہ سیرت پر مرمٹنا چاہیے۔ بس میں نے دوست کو زبان دے دی، وہ بیچارا کینسر کا مریض ہے اور چند دنوں کا مہمان ہے۔ برے وقتوں میں اعظم نے مجھ کو بہت سہارادیا ورنہ ہم بھوکے مرجاتے اور تم انکار نہ کروگی۔ تمہاری بھتیجی اچھی صورت کی ہے، اس کی کسی اور جگہ شادی ہوجائے گی مگر سعدیہ بیچاری کی نہ ماں ہے اور نہ بہن بھائی ہیں۔ خالہ، ماموں، تایا، چچا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اس کو بیاہ کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوگا اور ہمارے نصیب ہماری اس نیکی سے جاگ جائیں گے۔ غرض گھر میں کچھ دن … ’’تو تو، میں میں ہوتی رہی اور پھر دادا کی جیت ہوگئی۔ وہ سعدیہ زہرا یعنی میری والدہ کو بیاہ کر لے آئے۔ والد صاحب اپنی رائے نہیں رکھتے تھے، وہ اپنے والد کے اس قدر تابع دار اور فرماںبردار تھے کہ انھوں نے ایک بار بھی لب نہ کھولے اور جیسا والدین نے چاہا، بلا حیل و حجت قبول کرلیا اور میری ماں یعنی سعدیہ ان کے گھر دلہن بن کر آگئیں۔
والدہ کی شادی کے چھ روز بعد میرے نانا جان رضائے الٰہی سے انتقال کرگئے اور امی کا آخری سہارا بھی جاتا رہا۔ اب سسرال والے ہی ان کے سب کچھ تھے۔ ایسی صورت حال ہو تو لڑکی کو ہر حال میں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ شادی کیونکہ ہماری دادی کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی، اس لیے وہ بہو سے ناخوش تھیں۔ جب ساس ہی بہو کو اہمیت نہ دے تو اس کی اولاد کیسے اس بھابی کو اہم جانے گی۔ میری پھوپھیاں بھی امی جان کو ایک ملازمہ جیسا ہی سمجھنے لگیں۔ تب والد صاحب نے بھی بیوی کو ایک بے معنی اور بے وقعت ہستی سمجھ لیا۔
والد صاحب کے سامنے دادی افسوس کرتیں کہ ہائے ایسی چاند سی میری بھتیجی چھوڑ کر تمہارے ابا نے کیسی بدشکل چپٹی ناک والی لڑکی کو تمہارے لیے چنا ہے، مجھ کو تو تیری قسمت پر رونا آتا ہے۔ ایسی باتیں والدہ اور بہنوں کی سن سن کر والد صاحب کے کان پک گئے، اب ان کو بھی اپنی بیوی میں سو کیڑے نظر آنے لگے، ان کو بیوی بہت بری لگنے لگی اور وہ بے حد اکھڑ مزاج ہوگئے۔ شادی کے کچھ ماہ بعد والد صاحب دوبارہ دبئی چلے گئے، وہاں جاکر ان پر کام کا بوجھ بڑھ گیا۔ وہ اور زیادہ چڑچڑے ہوگئے، فون پر صرف اپنی ماں سے بات کرتے تھے اور جب امی فون کرتیں تو آواز سن کر فون بند کردیتے تھے۔
والد صاحب ہر تین ماہ بعد گھر آتے اور ایک ماہ رہ کر جاتے مگر یہ ایک ماہ میری والدہ کے لیے خوشی کے بجائے بدقسمتی کا مہینہ ہوتا تھا۔ ابو دبئی سے آتے ہی اپنے کمرے میں چلے جاتے اور دروازے کو اندر سے لاک کردیتے۔ وہ سارا دن اپنے کمرے سے باہر نہ آتے۔ میری ماں ان کے اس رویہ سے گھبرا جاتیں اور سمجھتیں کہ شاید یہ میری وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اسی طرح سال بیت گیا۔ وقت گزرتا رہا۔ اور میری پہلی بہن ریحانہ نے جنم لیا۔ وہ نہایت خوبصورت تھی۔ تب دادی نے اس کو قبول کیا اور سینے سے لگالیا۔ سب کہتے تھے یہ اپنی دادی کی تصویر ہے۔
ڈیڑھ سال بعد میں پیدا ہوئی مگر صد افسوس کے ددھیال پر نہ گئی بلکہ ہو بہو اپنی ماں کی تصویر تھی، بس یہی میرا قصور تھا۔ دادی نے مجھ کو دیکھتے ہی رد کردیا اور اٹھا کر کلیجے سے لگانے کی بجائے پرے کردیا۔ کہنے لگیں: یا اللہ یہ تو بالکل اپنی ماں جیسی ہے۔ کالی، چپٹی ناک والی۔ میں تو خیر معصوم تھی، خدا جانے ان الفاظ کو سن کر میری ماں کے دل پر کیا گزری ہوگی؟
میری پیدائش کا دادی کو بہت افسوس ہوا تھا۔ ایک تو صورت ماں پر اور پھر وہ پوتا چاہتی تھیں، تاہم اس میں امی کا کیا قصور تھا۔ بہرحال وہ تھوڑے دن آرام کرنے کے بعد پھر سے گھر کے کام کاج میں لگ گئیں۔ کیوںکہ آرام ان کی قسمت میں نہ تھا، وہ تو ڈر کے مارے اپنا حق بھی نہ مانگ سکتی تھیں۔ وہ جاتیں بھی تو کہاں جاتیں، کوئی دوسرا ٹھکانہ بھی نہ تھا۔ دادی ریحانہ سے بے حد پیار کرتی تھیں کہ وہ ان کی ہم شکل تھی خوبصورت اور معصوم شکل جبکہ مجھ کو نفرت سے دھتکارتی تھیں، اپنے پاس نہ آنے دیتی تھیں۔ ہر وقت کہتی تھیں ’’چل ری بد شکل چپٹی ناک والی تو کہاں سے آگئی ہمارے خاندان میں …‘‘ یوں جب میں نے ہوش سنبھالا، میں احساس کم تری کا شکار ہوتی گئی، ہر وقت سنجیدہ اور افسردہ رہنے لگی۔ مجھ کو پینٹنگ کا شوق تھا، لیکن میں نے آج تک جتنی تصویریں بنائی ہیں، ان میں تمام چہروں سے اداسی اور ویرانی ٹپکتی ہے، شاید دادی کی نفرت نے مجھ کو اندر سے ماردیا تھا۔
دادی صاحبہ پوتا چاہتی تھیں، وہ ان کو نہ مل سکا اور والدہ کو اس ظالم خاندان کے ساتھ بندھ کر رہنا میری اور ان کی قسمت بن چکا تھا۔ کام کا بوجھ اور ایک بڑے کنبے کی ذمہ داریوں نے والدصاحب کو ہم سب سے بیزار اور چڑچڑا بنادیا تھا۔ وہ چڑچڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بے تحاشا سگریٹ پینے لگے تھے۔ ان کو اپنے والدین کے علاوہ سات بہن بھائیوں کا بوجھ اٹھانا تھا، اوپر سے خدا نے دو بیٹیوں سے بھی نواز دیا تھا لہٰذا وہ جب دبئی سے ایک ماہ رہنے کے لیے گھر آتے تو سارے گھر کو سر پر اٹھالیتے امی سہم کر رہ جاتیں اور ہم یہی آرزو کرتے کہ یا اللہ ہمارے ابو جلد واپس دبئی چلے جائیں۔
میرے بعد اللہ تعالیٰ نے امی کو ایک اور خوبصورت بیٹی کی ماں بنادیا۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میری دادی کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی زبان گنگ ہوگئی ورنہ تو تیسری بیٹی کی پیدائش پر انھوں نے امی جان کو گھر سے نکال دینے کا ارادہ کررکھا تھا۔ انھوں نے اپنی تیسری پوتی کو اٹھا کر سینہ سے لگایا کہ ارے میری بی آسیہ تو سب سے حسین ہے، اس کا حسن ہمارے خاندان کی آن ہوگا، وہ اس سے بھی پیار کرنے لگیں مگر مجھ کو انھوں نے کبھی پیار سے نہ بلایا۔ میں ان کے پیارکو ترستی تھی اور وہ مجھ کو چپٹی ناک والی بدشکل کہہ کر دھتکار دیتی تھیں جس سے میرے دل و دماغ پرچھریاں چل جاتی تھیں۔ دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ننھا منا بھائی دے دیا اور اب میری دادی کا دل باغ باغ ہوگیا ورنہ وہ میری ماں کو گھر سے نکالنے والی تھیں اور والد صاحب کو کہہ رکھا تھا، اب بیٹی ہوئی تو اس عورت کو طلاق دے دینا مگر انعام نے آکر میری ماں کو طلاق سے بچالیا۔ انعام کے بعد میری سب سے چھوٹی بہن طاہرہ نے جنم لیا۔ وہ بھی ہو بہو والد صاحب کی تصویر تھی، خوبصورت تھی۔ دادی نے کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ ان کو اب پوتے کی صورت میں خاندان کا وارث جو مل گیا تھا۔ریحانہ کی بدتمیزیاں عروج پر تھیں کیوںکہ وہ دادی کی لاڈلی تھی، ان کے پاس رہتی تھی، وہ امی کے پاس رہتی ہی نہ تھی، چچا نے بھی ریحانہ کو بہت پیار دیا تو وہ بالکل ہی سر چڑھ گئی۔ وہ امی کو بھی مارنے کو دوڑتی تھی۔ تب بھی دادی اس کو کچھ نہ کہتی تھیں۔
میرے باقی بہن بھائی دادی کے دیوانے تھے کہ انھوں نے ان سب کو پیار دیا مگر مجھ کو چڑیل کہہ کر پرے دھکیل دیا تو میںنے سہم کر اپنی ماں کے دامن میں ہی پناہ لی۔ میری بڑی بہن ریحانہ اور چھوٹی بہنوں نے مجھ پر حکمرانی کی، میں دادی کے ڈر سے ان کا ہر حکم بجالاتی تھی۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے، ہماری آزمائش کے دن ختم ہوگئے۔ جن دنوں میں فرسٹ ایئر میں تھی، دادی بیمار پڑگئیں۔ اب ان کی خدمت سے سب نے کنارہ کشی اختیار کرلی، حتی کہ ان کی سگی بیٹیاں بھی دور ہوگئیں۔ ایسے میںامی نے اورمیں نے ان کی خدمت کی۔ ان کو کھانا کھلانا، نہلانا دھلانا اور باتھ روم لے جانا۔ سب میرے ذمے تھا اور امی بھی ان کو وقت پر دوا پلاتیں اور ہر خدمت بجالاتیں۔ اب دادی کو ہوش آیاجب وہ معذور ہوکر بستر سے لگ گئیں۔ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی تھیں کہ ریحانہ فرزانہ،طاہرہ کو بلاتی رہ جاتی ہوں مگر وہ نہیں آتیں۔ آسیہ بھی قریب نہیں پھٹکتی۔ جن کو اتنا پیار دیا انھوں نے آنکھیں پھیر لیں اور جس کو دھتکارا بدشکل کہتی تھیں، آج وہی کام کرتی ہے۔ سب سے کہتیں لوگو اچھی صورت پر نہ جانا، وفا اچھی سیرت والوں میں ہوتی ہے۔ آج جب معذور ہوں، سگی اولاد خدمت سے خوف کھاتی ہے تو بہو ہی خدمت کررہی ہے۔ خدا اس کا صلہ سعدیہ کو دے۔ سعدیہ سے اچھا کوئی نہیں ہے۔
دادی جان اسی عالم میں دنیا سے رحلت فرماگئیں تب جاکر میری ماں کی آزمائش ختم ہوئی اور گھر پر ان کا راج ہوا مگر انھوں نے سب کو پیار دیا، پہلے کی طرح ہر کسی کی خدمت کی اورکسی سے گلہ شکوہ نہ کیا، جس کا اجر ان کو میرے والد صاحب کی محبت کی صورت میں ملا کہ جب انھوں نے بیوی کو بیمار ماں کی خدمت کرتے دیکھا تو دل میں معترف ہوگئے کہ میری بیوی واقعی اچھی نہ ہوتی تو بیمارساس کی خدمت سے جی چراتی۔ دادی کی وفات کے بعد میری بہنوں کو احساس ہوا کہ میری ماں کتنی عظیم عورت ہے، جو دن رات ان کے بھلے کا سوچتی ہے۔ انھوں نے امی جان کو ماں کا درجہ دیا۔ دادا جان کے سمجھانے سے وہ ماں کا ادب کرنے لگیں۔ گھر میں واحددادا تھے جو میری ماں کی قدر کرتے تھے کیونکہ وہی اپنے دوست کی بیٹی کو بہو بناکر لائے تھے۔
والد صاحب کافی عرصہ دبئی رہے مگر دادی کے بعد ان کا دل چاہتا تھا کہ گھر واپس آجائیں کیونکہ ان کی بچیاں بڑی ہورہی تھیں۔ ایک روز اچانک دادا جان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسے۔ والد صاحب نے دبئی کو خیر باد کہہ دیا اور گھر آگئے کیونکہ اب گھر کو ان کی ضرورت تھی۔ انھوں نے پہلے دونوں پھوپھیوں کی اور پھر چچاؤں کی شادیاں کیں۔ اس کے بعد ریحانہ، آسیہ کو بیاہ دیا۔ اب میری باری تھی۔ خدا کی قدرت میرے لیے جو رشتہ منتخب ہوا، وہ والد کے چچا زاد بھائی اشعر کا تھا اورا شعر ایک بہت خوبصورت نوجوان تھا۔ میں نے ان کو دیکھا تو میں ڈر گئی اور ماں سے لپٹ گئی۔ امی سے رو روکر التجا کی کہ آپ والد صاحب کو روکئے اور سمجھائیے کہ وہ میرے لیے ایسے خوبصورت لڑکے کا انتخاب نہ کریں کیونکہ مجھے اس قدر خوبصورت جیون ساتھی نہیں چاہیے۔
خوبصورت لوگ بے رحم ہوجاتے ہیں، ان کو اپنی خوبصورتی پر اتنا ناز ہوتا ہے کہ وہ کم شکل لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے، اس لیے خدارا جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے، وہ ظلم میرے ساتھ نہ ہونے دیں۔ میری شادی کسی معمولی صورت والے شخص سے کردیں، جو میری قدر کرے اور مجھ کو بدشکل ہونے کے طعنے نہ دے۔امی جان نے کہا: بیٹی کون کہتا ہے کہ تم بدشکل ہو، تم بدشکل نہیں ہو بلکہ تم خوبصورت ہو، اپنی بہنوں کی طرح… میں بدشکل نہیں ہوں تو دادی کیوں ایسا کہتی تھیں، وہ مجھ سے کیوں پیار نہیںکرتی تھیں۔ آپ مجھے بتائیے نا … جبکہ وہ ریحانہ، آسیہ اور طاہرہ پر جان چھڑکتی تھیں۔وہ اس لیے کہ تمہاری صورت مجھ پر گئی ہے اور میں تمہاری دادی کو قبول نہ تھی، وہ اپنی بھتیجی کو بہو بناکر لانا چاہتی تھیں چونکہ تمہارے دادا جان نے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی انہیں میری صورت بھی نہ بھاتی تھی اور تمہاری صورت چونکہ مجھ پر تھی، اس لیے تم سے وہ ایسا رویہ رکھتی تھیں، یہ ان کی نفسیاتی کمزوری تھی۔
بہرحال اب تو وہ اپنے رب کے پاس چلی گئی ہیں، تم ان کو معاف کردو میں نے معاف کیا۔ انسان کو صورت کا بالکل غرور نہ کرنا چاہیے اور جو لڑکا تمہارے والد نے پسند کیا ہے۔ بے شک وہ خوبصورت ہے لیکن اللہ کی مہربانی سے اچھے کردار کا ہے۔ تم کو انشاء اللہ اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے گی، یہ میری دعا ہے۔ چونکہ میں اپنی والدہ کا سب بہنوں سے زیادہ خیال رکھتی تھی اور ان کے ساتھ کام کاج میںہاتھ بٹاتی تھی، اس لیے مجھ کو ان کی دعائیں لگیں اور میری شادی اشعر سے ہوگئی تو انھوں نے مجھ کو بے حد سکھی رکھا، بہت پیار دیا اور کبھی یہ نہ کہا کہ تم بدشکل ہو یا چپٹی ناک والی ہو۔
خدا نے میری قسمت اچھی بنائی تھی کہ مجھ کو اشعر جیسا حسین اور اچھی سیرت والا شوہر ملا اور آج میں عیش کررہی ہوں، اپنی سب بہنوں سے زیادہ میری قسمت اچھی ہے، وہ بھی میری زندگی پر رشک کرتی ہیں۔ میں اس کو اپنی والدہ کی دعاؤں کا صدقہ ہی سمجھتی ہوں۔