حسن کا راز

نثار فاطمہ

بہت سی بہنیں یہ عنوان پڑھ کر شاید توقع کریں کہ اب میں ان کے سامنے کچھ ایسے مرکبات پیش کروں گی جن کے استعمال سے ان کا چہرہ چاند کی طرح خوبصورت ہوجائے گا، یا کچھ ایسے نسخے لکھوں گی جن سے ان کے بال لمبے ہوجائیں گے یا پھر ایسی ورزشوں کے طریقے بیان کروں گی جن پر عمل کرنے سے ان کا قد طویل اور صحت بہتر ہوجائے گی۔ لیکن میں ایسی کوئی بات پیش کرکے اپنا اور اپنی بہنوں کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتی۔ میں ان کو ایک ناپائیدار شے کے حاصل کرنے میں وقت گنوانے کا مشورہ ہر گز نہ دو گی۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ میں ان کی شخصیت کو پُرکشش اور حسین ضرور بنانا چاہتی ہوں۔

میں ان کو ایک ایسا غازہ استعمال کرنے کا مشورہ دوں گی جو نہ پسینہ آنے سے پھیکا پڑے نہ منہ دھونے سے اتر بلکہ ان کے وجود میں وہ اس طرح سرایت کرجائے کہ پھر زندگی بھر الگ نہ ہو۔ ان کو اگر جوانی میں حسن و کشش بخشے، تو اس سے کہیں زیادہ بڑھاپے کی جھرّیوں کو حسین بنادے۔ اگر جوانی میں حسین ہوں تو بڑھاپے میں ڈھلتے سورج کی طرح اور زیادہ خوبصورت نظر آنے لگیں۔ انہیں ایسا حقیقی حسن حاصل ہو جو زمان و مکان کی حدیں پار کرکے زوال یا فنا سے محفوظ ہوجائے۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو انسان اسی شرف کا مستحق ہے کہ وہ ایک پائیدار اور دائمی حسن کا مالک ہو، ورنہ جہاں تک عارضی حسن کا تعلق ہے تو وہ کائنات کی ہر شے کو حاصل ہے۔ باغ ہے اس پر بھی کچھ عرصے کے لیے بہار آجاتی ہے، پھول ہے وہ بھی چند گھڑیوں کے لیے مرکزِ نگاہ بن جاتا ہے۔ چاند ہے، وہ بھی چند راتیں اجالا کردیتا ہے، زمین جو ہمیشہ خشک اور بے آب و گیاہ رہتی ہے اس میں بھی موسم آنے پر سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انسان کا حسن بھی اسی طرح چند روز بہار دکھا کر ختم ہوجانے والا ہونا چاہیے؟ اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو انسان کا شرف قابلِ افسوس ہے۔ لیکن غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ہماری ہی غلطی ہے۔ دراصل ہم نے حسن کے نظریہ کو بدل دیا ہے اور کائنات کے مظاہر کو دیکھ کر ہماری چشم صورت پرست نے دھوکا کھایا ہے ورنہ حسن کے متعلق ہمارا فیصلہ یہ نہ ہوتا کہ

’’وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی‘‘

حسن کو زوال کے ساتھ باندھنا ایک غیر فطری بات ہے۔ سب سے پہلے یہ سوچئے کہ حسن کا خالق کون ہے، کیا اس پر کبھی زوال آیا ہے یا مستقبل میں آنے کی توقع ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر یہ نظریہ آپ سے آپ باطل ہوجاتا ہے کہ اس کائنات میںوہی حسین ہے جو زوال پذیر ہو۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ جو حسن قائم و دائم ہو درحقیقت وہی حقیقی حسن ہے۔ حسن بذات خود کوئی ناپائیدار چیز نہیں لیکن اس کوتاہ فہمی کا کیا علاج کہ ہم نے حسن نام رکھ دیا ہے ناپائیداری کا اور ہر ناپائیدار شے کو حسین کہنے لگے ہیں۔ ہم اگر اس غلط فہمی کو دور کرلیں تو پھر اس ’’حسن پری‘‘ کو قید کرسکتے ہیں جس کے متعلق سب مایوس ہیں کہ وہ آتی تو ہے لیکن جاتی کا پتہ نہیں لگتا اور جاکر پھر کبھی واپس نہیں آتی۔ اب شاید آپ یہ سوچنے لگیں کہ میں شکل و شباہت کی مخالفت کررہی ہوں حالانکہ یہ ایک امر مسلم ہے کہ اچھی شکل و صورت بھی ایک حسن ہے۔ یہ ٹھیک ہے لیکن آپ یہ یاد رکھیے کہ انسان ایک جذباتی مخلوق ہے اور ہر وہ چیز جو اس کے جذبات میں ارتعاش پیدا کردے اسے ضرور بھلی لگتی ہے لیکن دنیا کے کام جذبات پر کبھی نہیں چلتے اور نہ جذبات کو حقائق سے کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ایک حسین و جمیل پری پیکر کو دیکھ کر جذباتی طور پر متاثر ہوجائیں۔ لیکن یہ تاثر کچھ دیرپا ثابت نہیں ہوگا، بلکہ جذبات کے ساتھ ٹھنڈا پڑ جائے گا اگر اس میں سوائے پری پیکر ہونے کے کوئی اور خوبی نہیں۔ اس کے برعکس نیکی کا اثر آپ کے دل پر ہمیشہ اسی طرح سے قائم رہتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کسی حسین و جمیل نازک اندام کے کبرو ناز سے متاثر نہیں ہوتا لیکن ایک بھدّے اور بے ہنگم صورت آدمی کے حسن اخلاق سے متاثر ہوجاتا ہے۔

حقیقت حسن کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں آپ کے سامنے حسنِ ظاہر کے متعلق مغرب کے چند مفکرین کے اقوال رکھتی ہوں:

٭ ’’حسن بہت ہی جلد زائل ہوجانے والی چیز ہے ۔‘‘ (ڈی لنکر)

٭ ’’حسن قدرت کا عورت کو سب سے پہلا عطیہ ہے اور یہی سب سے پہلے اس سے چھین بھی لیا جاتا ہے۔ ‘‘ (مہرہ)

٭ ’’مرد کو شادی کے معاملے میں زیادہ حسن سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ حسن قبضہ میں آتے ہی گھٹ جاتا ہے مگر اس کی مصیبتیں زندگی بھر باقی رہتی ہیں۔‘‘ (روسو)

میرا اندازہ ہے کہ صورت پرست لوگ ہمیشہ حسنِ شکل کے جال میں گرفتار رہتے ہیں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں۔ اگر حسن شکل ہی اصل حسن ہے تو وہ بلاشبہ ناپائیدار ہے اور اس کی حقیقت زوال ہے۔ لیکن آپ دیکھتی ہیں کہ محض حسنِ شکل کبھی کسی کو مثاثر نہیں کرتا اوراگر متاثر کرتا بھی ہے تو یہ تاثر بالکل ’’آنی جانی‘‘ ہوتا ہے جو ادھر آیا، ادھر چلا گیا۔

یہ مشہور مقولہ آپ نے سنا ہوگا کہ ’’چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے‘‘ درحقیقت یہ بالکل صحیح ہے۔ ایک بدمعاش اور مکار انسان ہزار نیکوں کا روپ اختیار کرلے مگر دیکھنے والا دیکھتے ہی اس کے چہرے بشرے سے اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ اس فطرت کا انسان ہے۔ اسی طرح ایک بے گناہ انسان اگرچہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے لیکن ہر صاحب نظر اسے دیکھتے ہی معاً پکار اٹھے گا کہ یہ چور نہیں ہوسکتا۔ آپ اظہار کریں یا نہ کریں، لیکن آپ کو دیکھنے والے دیکھتے ہی اندازہ کرلیں گے کہ آپ خوش ہیں یا غمگین۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟بات یہ ہے کہ انسان کے خیالات و جذبات چہرے پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ ہماری بیرونی شکل اندرونی خیالات سے بنتی ہے، اس لیے محض گورا رنگ آپ کو خوبصورت نہیں بناسکتا بلکہ اس کے لیے اس اکسیر خاص کی ضرورت ہے جس کا نام ہے ’’حسنِ اخلاق‘‘۔ اسی کے ذریعہ آپ دائمی حسن حاصل کرسکتی ہیں۔ یہ ایسا نسخہ ہے کہ بلال حبشیؓ کو حسنِ یوسف عطا کرتا ہے۔ چہرے کی سیاہی اور داغ دھبوں کو اس طرح دور کردیتا ہے کہ جس طرح آفتاب عالم تاریکیوں کو کافور کردیتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر ساری خدائی کا حسن بھی آپ کے چہرے میں کیوں نہ سمٹ آئے وہ بات پیدا نہیں ہوسکے گی جس کی آپ خواہاں ہیں۔ ایک مفکر کا قول مجھے بہت پسند ہے کہ ’’عورت کا اپنے حسن پر غرور اس کی طرف سے اس بات کا اقرار ہے کہ اس کے پاس حسن کے سوا کوئی اور وصف قابلِ فخر نہیں۔‘‘

اسی طرح سہجور لکھتا ہے کہ ’’جس عورت میں بجز حسن کے اور کوئی جوہر نہیں ہوتا اس کی مثال روغنی روٹی کی ہے کہ جب تک گرم ہے اچھی معلوم ہوتی ہے اور سرد ہوتے ہی اپنا سارا ذائقہ کھودیتی ہے۔‘‘

انسان کو ہمیشہ وہ باتیں سوچنی اور کہنی چاہئیں جن کو وہ اپنے اندر نقش دیکھنا چاہتا ہے۔ جس چہرے میں خراب مزاج چھپا ہوا ہو وہ چہرہ کبھی خوبصورت نہیں ہوسکتا۔ اور جس کی سیرت اچھی ہو وہ چہرہ اپنی ظاہری صورت میں بھی کبھی بھدا نہیں ہوسکتا اگرچہ اس کے خدوخال اتنے اچھے نہ ہوں یہی وجہ ہے کہ نیک دل انسانوں اور بزرگوں کے دیکھنے سے ایک خاص قسم کی مسرت حاصل ہوتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چہرہ انسان کے کردار کا بالکل صحیح عکس ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146