راقم الحروف اپنے وطن میں وکالت کرتا تھا۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ میں نے ایک شخص کو جو بطور منشی کچہری میں چکر لگایا کرتا تھا، وکالت خانے میں دیر سے بیٹھے ہوئے دیکھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ منشی جی! کیا بات ہے؟ آپ یہاں کافی دیر سے بیٹھے ہیں۔ اس نے مختصر سا جواب دیا :’’ایک شخص کا انتظار ہے۔‘‘ چوںکہ اس وقت میں بھی فارغ تھا، اس لیے دل چسپی لیتے ہوئے اُن سے پوچھ بیٹھا کہ آخر وہ کون شخص ہے، جس کا اس بے صبری سے آپ انتظار کررہے ہیں؟ تو انھوں نے بتایا کہ ایککسان ہے، جو مبلغ پانچ ہزار روپیے ان کے لیے لے کر آئے گا۔ میری دل چسپی بڑھی اور میں نے معاملے کو مزید کریدا تو منشی جی گویا ہوئے کہ یہ کسان ایک روز بڑی دیر سے کچہری میں چکر لگا رہا تھا۔ اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کے پاس پانچ گٹھے زمین کا رجسٹرڈ بیع نامہ ہے، وہ چاہتا ہے کہ پانچ گٹھے کا دستاویز کسی طرح پانچ بیگھے میں تبدیل ہوجائے۔ یہ دہقانی کسی مال دار بیوہ کی زمین جوتتا تھا۔ زمین اس نے اس بیوہ سے خریدی تھی۔ اب وہ چاہتا تھا کہ بیع نامہ دستاویز کسی طرح پانچ بیگھے کی بن جائے، تاکہ بیوہ کی موت کے بعد وہ پانچ بیگھے زمین پر قابض ہوسکے۔ منشی جی نے اس کو اطمینان دلایا تھا کہ وہ یہ کام کردیں گے۔ پانچ ہزار روپیے پر بات طے ہوئی تھی۔ یہ روپیے وہ آج لے کر آنے والا تھا۔ میں نے منشی جی سے دریافت کیا کہ وہ پانچ گٹھے کو پانچ بیگھے میں کیسے تبدیل کردیں گے؟ اس پر منشی جی ہنسنے لگے۔ پھر بولے کہ یہ تو کسی طرح ممکن نہیں، پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگے کہ وکیل صاحب! آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس نہ تو کاروبار ہے اور نہ زمین جائے داد، اگر اوپر والے نے بے وقوف انسان نہ پیدا کیے ہوتے تو ہم جیسے لوگوں کا کیا حشر ہوتا، بھوکوں مرنا پڑتا! یہ تو اوپر والے کی مہربانی ہے کہ بے وقوفوں کی وجہ سے ہم لوگوں کی روزی روٹی کا انتظام ہوجاتا ہے۔ منشی جی نے مزید بتایا کہ ایک وثیقہ نویس (کاتب) خوشامد کررہا تھا کہ اسے صرف پچاس روپیے دے دیے جائیں تو وہ گٹھے کو مٹا کر اس کی جگہ بیگھے لکھ دے گا۔ برصغیر کی کچہریوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جودوسروں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر اپنی روزی روٹی حاصل کرلیتے ہیں۔
میرے پڑوس میں ایک دولت مند شخص رہا کرتا تھا۔ ان کے یہاں ایک پیر صاحب آیا کرتے تھے اور جب تک دل چاہتا، ماہ دو ماہ وہ ان کے یہا ںقیام کرتے۔ صاحبِ خانہ پیر صاحب کے بے حد معتقد تھے۔ اتفاق کی بات کہ میری پیر صاحب سے اچھی خاصی دوستی ہوگئی۔ ایک دن بڑے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے : ’’میاں شہاب الدین! یہ تم وکالت کیا کرتے ہو! چھوڑو ان کاموں کو۔‘‘ میں نے کہا: ’’پیر صاحب! اگر میں نے وکالت چھوڑ دی تو پھر میری روزی روٹی کا کیا ہوگا!‘‘ کہنے لگے: ’’میں تم کو ذریعہ بتاؤں گا اور تم کم وقت میں دولت مند بن جاؤگے۔‘‘ میں نے کہا: ٹھیک ہے میں وکالت چھوڑتا ہوں، آپ وہ ذریعہ بتائیے، جو مجھے اختیار کرنا ہے۔ کہنے لگے کہ پیری مریدی کرو، دولت مند بن جاؤ گے۔ میں نے کہا: پیر صاحب! شاید آپ مذاق کررہے ہیں تو کہنے لگے: نہیں، میاں! میں بالکل سنجیدہ ہوں، پھر مجھے سمجھانے کے انداز میں بولے کہ دیکھو اگر تم نے ایک ہزار مرید بنالیے تو تم اپنے مریدوں سے سال میں ایک بار پچاس روپیے دینے کے لیے کہو گے تو ہر مرید تم کو خوشی خوشی دے دے گا، اس طرح بیٹھے بٹھائے پچاس ہزار روپیے سالانہ کی آمدنی ہوگی، پھر جس مرید کے یہاں چلے جاؤ، وہ تمہاری خدمت اور خاطر مدارات کرے گا۔ اگر کوئی مرید کپڑے کی دکان کرتا ہے تو اس کے یہاں سے کپڑے لے لو وہ تم سے قیمت نہیں لے گا۔ اگر کوئی مرید درزی ہے تو وہ تمہارا کپڑا مفت سی دے گا، پھر اگر مریدوں کی تعداد بڑھی تو تمہاری آمدنی بھی بڑھے گی۔ یہ سب فائدے گنانے کے بعد بڑے راز دارانہ انداز میں کہنے لگے: میاں! تمہارے اندر پیر بننے کی بڑی اچھی صلاحیت ہے۔ صرف تم کو یہ کرنا ہے کہ کم بولنا، میں شہرت دے دوں گا کہ یہ پیر صاحب آدمیوں سے کم اور ارواح سے زیادہ گفت گو کرتے ہیں، پھر فرمانے لگے: میرا ایک دوست تھا، وہ بھی پیری مریدی کرتا تھا۔ وہ ممبئی گیا تو وہیں رہ گیا، وہاں سے واپس نہیں آیا۔ کافی عرصے بعد مجھے بمبئی جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے سوچا کہ چلو اپنے دوست سے بھی مل لیں، لہٰذا اس کے پتے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان سے ملنے کے لیے پہلے ان کے سکریٹری سے ملنا ہوگا۔ سکریٹری سے مل کر اپنے نام کی پرچی دی، جسے اندر بھجوادیا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے اندر بلالیا گیا۔ اندر پہنچنے کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ میرا دوست ایک بڑے سے تخت پر گاؤ تکیہ لگائے ایک ہزار دانہ کی تسبیح ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔ کافی دیر تک بے تکلفانہ گفت گو ہوتی رہی، میں نے اس سے پوچھا: یہ جو تم نے ایک ہزار دانے کی تسبیح ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے، آخر اس پر تم کیا پڑھتے ہو؟ وہ صاحب بولے: ’’یار! تم تو جانتے ہی ہو کہ میں جاہل آدمی ہوں، لکھنا پڑھنا جانتا نہیں۔ اس لیے تسبیح کے دانے پر صرف یہ پڑھتا رہتا ہوں: ’’آتے جاؤ پھنستے جاؤ، آتے جاؤ پھنستے جاؤ۔‘‘ آپ نے دیکھا، کچھ لوگ اس طرح بھی روزی روٹی حاصل کرلیتے ہیں۔
ہندوستان میں درگاہیں کافی ہیں۔ ساری درگاہوں پر چڑھاوے کی شکل میں اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ اس لیے تقریباً سبھی درگاہوں میں سجادہ نشینی کے کئی کئی دعوے دار موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے درمیان مقدمے بازی چلتی رہتی ہے۔ حسنِ اتفاق سے ایک درگاہ کے ایک سجادہ نشین صاحب سے راقم الحروف کے اچھے خاصے مراسم پیدا ہوگئے، اس طرح درگاہ کے اندر کی بعض باتوں سے آگاہ ہونے کا موقع ملا۔ پتا چلا کہ یہاں کے سجادہ نشینیوں نے درگاہ سے ملحق قبرستان کو دھوبیوں کو کرائے پردے رکھا ہے، جہاں وہ گدھے باندھتے ہیں اور کپڑے سکھاتے ہیں۔ درگاہ کے راستے میں جو فقیر بیٹھتے ہیں، ان گداگروں کو راستے پر بیٹھنے کا کرایہ سجادہ نشینوں کو دینا پڑتا ہے، کیوں کہ ان کی اچھی آمدنی ہوجاتی ہے۔ بعض گدا گر بینک میں اپنا کھاتہ بھی رکھتے ہیں۔ جو چادریں مزار پر چڑھائی جاتی ہیں، انہیں فروخت کرکے سجادہ نشین حضرات اچھے پیسے کمالیتے ہیں۔ یہ حضرات، صاحبِ مزار کی کرامات تصنیف کرکے لوگوں میں پھیلانے کا بھی کام کرتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی مزار پر حاضر ہوا تو اس سے کہنے لگے کہ ایک عقیدت مند سے کچھ بے ادبی ہوگئی تھی، اس پر صاحبِ مزار نے قبر سے پاؤں نکال کر اسے ایک لات رسید کردی۔ ایک اور موقع پر ایک دوسرے صاحب کو بتایا کہ ایک صاحب سے مزار پر حاضری کے وقت کچھ بے ادبی ہوگئی تو صاحبِ مزار نے قبر کے اندر سے اس شخص کو ڈانٹا۔ یہ بھی مشاہدہ کرنے کا موقع ملا کہ من چلے نوجوان حضرات زنانِ عاشقانِ اولیا کے چکر میں عرس میں ضرور شریک ہوتے ہیں، اس طرح عرس جہاں کسی کے لیے روزی روٹی کا ذریعہ ہے، وہیں بہت سوں کے لیے تفریح مہیا کرنے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہر آدمی اس دنیا میں اپنے حوصلے، مزاج اور صلاحیت کے مطابق حصولِ رزق کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال لیتا ہے۔ مگر حقیقت میں کامیاب وہی لوگ ہیں جو حلال ذرائع سے رزق کمانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔