حضرت اسماء بنت صدیقؓ

مائل خیرآبادیؒ

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے تعارف کے بارے میں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں۔ یہ اس وقت مسلمان ہوئیں جب سترہ بزرگ اللہ کی توحید اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت پر گواہی دے چکے تھے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ حضرت اسماء سابقون الاولون (پہلے ایمان لانے والوں) میں اٹھارہویں نمبر پر تھیں۔

اس زمانے میں حضرت اسماء نوجوان تھیں لیکن اتنی سمجھ دار اور اسلام کی فدا کار تھیں کہ حضور ﷺ کے بڑے سے بڑے راز میں شریک رہتی تھیں۔ جب حضورؐ راتوں رات اپنے گھر سے نکل کر غارِ ثور میں پہنچے تو بعض احتیاط کے تحت غار میں کئی روز ٹھہرنا پڑا۔ حضرت اسماءؓ روزانہ آپؐ کی خدمت میں کھانا لے کر جاتیں اور کھلا کر واپس آتیں۔ ان کے بھائی عبداللہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ دن بھر مکے کے کافروں میں گھلے ملے رہتے اور ان کی سرگرمیوں کو دیکھتے رہتے تھے۔ شام کو بہن کے ساتھ غار میں جاتے اور حضورؐ کو ساری خبریں دیتے۔ عامر جو حضرت صدیق اکبرؓ کا چرواہا تھا۔ اسے گلہ سمیت ساتھ لے جایا کرتی تھیں۔ بکریوں کا تازہ دودھ حضورؐ کی خدمت میں پیش کرتیں اور جب دونوں بہن بھائی واپس ہوتے تو پیچھے پیچھے بکریوں کا گلہ ہوتا۔ اس طرح ان کے پاؤں کے نشانات بکریوں کے کھروں سے مٹ جاتے اور کوئی سمجھ نہ سکتا کہ اس طرف کون گیا ہے۔ یہ تدبر حضرت اسماء ؓ کی سوجھ بوجھ کا پتہ دیتا ہے۔

ذات النطاقین کا لقب

غار میں تین دن ٹھہرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا: ’’جاکر علیؓ سے کہہ دینا کہ کل رات کو تین اونٹ اور ایک دلیل (راستہ جاننے والا) لے کر یہاں آجائیں۔‘‘ حضرت علیؓ اونٹ اور دلیل لے کر حضورؐ کی خدمت میں ٹھیک وقت پر پہنچے۔ ادھر حضرت اسماءؓ کئی روز کا کھانا پانی لے کر پہنچ گئیں۔ یہاں پانی اور کھانے کے مشکیزے کو باندھنے کی ضرورت ہوئی تو بنتِ صدیقؓ نے جھٹ اپنا نطاق کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کئے، ایک سے کھانا اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ باندھا۔ اس اہتمام کو دیکھ کر حضورؐ نے تبسم فرمایا اور خوش ہوکر ’’ذات النطاقین‘‘ کہہ کر پکارا۔ حضرت اسماءؓ کا یہ لقب اتنا مشہور ہوا کہ آج تک وہ اسی لقب سے مشہور ہیں۔

جب حضورنبی کریمﷺ نے اللہ کے حکم سے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم سنایا اور مسلمان مکے سے مدینے پہنچنے لگے تو مدینے کی آب و ہوا ان کی صحت کے لیے موافق نہ آئی۔ خدا کی قدرت کہ کئی برس تک ان کے گھروں میں کسی بچے کی ولادت بھی نہیں ہوئی۔ تو دشمنوں نے مسلمانوں کا ایمان ڈگمگانے کے لیے مشہور کردیا کہ ان پر جادو کردیا گیا ہے، ان کے یہاں اولاد ہی نہ ہوگی۔ حضرت اسماءؓ نے ابھی تک ہجرت نہیں کی تھی، ان کی شادی حضورؐ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیرؓ سے ہوئی تھی اور حضرت اسماءؓ مکے ہی میں تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ جاکر بال بچوں کو لے آئے۔ ساتھ ہی حضورؐ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اپنے غلام حضرت ابورافعؓ کو بھیجا۔ یہ سب لوگ مکہ پہنچے اور پھر ان کے ساتھ عبداللہ بن ابوبکر اپنی والدہ اور دونوں بہنوں حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہؓ کو لے کر مدینے کی طرف چل دیے۔

حضرت اسماءؓ ہجرت کرکے مدینے پہنچیں، تو کچھ دنوں کے بعد ان کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ بچے کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ حضرت اسماءؓ عبداللہ کو لے کر حضورؐ کی خدمت میں پہنچیں تو مسلمانوں نے خوشی کا نعرہ بلند کیا۔ حضورؐ نے عبداللہ کو گود میں لیا، گھٹی پلائی اور دعا فرمائی۔ دشمنوں کو اس ولادت کی خبر ہوئی تو ان کے چہرے اتر گئے۔

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے علاوہ حضرت اسماءؓ کی اور بھی اولادیں ہوئیں اور اللہ کے فضل سے وہ سب نامور ہوئیں اور دینِ اسلام کا ستون بنیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ عروہ بن زبیرؓ، منذر بن زبیرؓ، عاصم بن زبیرؓ اور مہاجربن زبیرؓ، یہ تمام فرزندِ ارجمند دین کے کسی نہ کسی شعبے میں مشہور ہوئے۔ مصعب بن زبیرؓ عرب کے تین بہادروں میں نمبر اول مانے جاتے تھے۔حضرت اسماءؓ اپنے بارے میں کہتی ہیں:

’’جب میری شادی حضرت زبیر بن عوامؓ سے ہوئی تو اس وقت ان کے پاس نہ مال تھا، نہ کوئی غلام، بے حد تنگ دست، فقیر و مفلس تھے۔ صرف ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تھا۔ اور میں ہی ان کی خبر رکھتی تھی۔ مدینے پہنچ کر نبی ﷺ نے ایک قطعہ نخلستان حضرت زبیرؓ کو عطا فرمایا تھا جو مدینے سے تین فرسخ (تقریباً ۹ میل ) کے فاصلے پر تھا۔ میں وہاں سے روزانہ کھجور کی گٹھلیاں اکٹھا کرتی پھر گٹھڑی باندھ کر سر پر رکھتی اور گھر تک لاد کر لاتی۔ گھر آکر اپنے ہاتھ سے دلتی اور گھوڑے کو کھلاتی، پانی بھرتی، ڈول کھینچتی اور گھر کا سارا کام کاج کرتی مجھ کو اچھی روٹیاں پکانی نہیں آتی تھیں۔ اس لیے صرف آٹا گوندھ کر رکھ دیتی۔ میرے گھر کے قریب انصار خواتین رہتی تھیں وہ خلوص اور محبت کے ساتھ روٹیاں پکادیا کرتی تھیں۔‘‘

حضرت اسماءؓ ایک عرصے اسی افلاس کے ساتھ گزر بسر کرتی رہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے برکت نازل فرمائی۔ حضرت زبیرؓ آگے چل کر فارغ البال ہوئے۔ اللہ نے ان کو مالا مال کیا، اس تموّل کے زمانے میں حضرت اسماءؓ نے اپنی سادہ زندگی کو نہ چھوڑا۔ وہ اب بھی موٹا کپڑا پہنتیں، روکھی سوکھی کھاتیں، اور فقیرانہ زندگی بسر کرتیں۔اسی زمانے میں ان کے ایک بیٹے حضرت منذر بن زبیرؓ عراق کی لڑائی سے واپس آئے تو ماں کے لیے نہایت عمدہ اور باریک کڑھائی کے کچھ کپڑے لائے، خدمت میں پیش کیا تو کپڑے کی نرمی اور ملائمت اور اس کے بیل بوٹے دیکھ کر واپس کردیا۔ کہلا بھیجا کہ میں ایسے باریک کپڑے نہیں پہنتی۔ سعادت مند بیٹے نے پھر موٹے اور سادہ کپڑے بھیجے تو قبول کیا اور انھیں پہنا بھی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مالدار ہونے کے بعد بھی جب حضرت اسماء ؓ موٹا جھوٹا پہنتیں اور روکھا سوکھا کھاتیں ا ور فقیرانہ طور پر رہتی تھیں، تو کیا مال بچا بچا کر رکھتی تھیں؟ نہیں، ان کا یہ ذہن نہیں تھا۔ اللہ نے ان کو مال دیا تو انھوں نے سخاوت اختیار کی۔ بڑی فیاضی سے دوسروں کی مدد کرتیں اور ان کی ضروریات پوری کرتیں۔ فرماتیں کہ اللہ دیتا ہے جمع کرنے کے لیے نہیں، اس لیے اللہ کے بندوں کی مدد کرو۔ اگر تم اپنا مال اللہ کے بندوں پر خرچ نہ کرو گے تو یہ کنجوسی ہے اور خدا بھی تم کو اپنے فضل و کرم سے محروم کردے گا۔ تم جو صدقہ اور خیرات کروگے، دراصل وہی تمہارے لیے ایک اچھا ذخیرہ ہے جونہ کبھی کم ہوگا اور نہ اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس طرح کی نصیحتیں وہ کرتیں بھی اور اس کا نمونہ عملاً پیش فرماتیں۔ جب بیمار ہوتیں تو جتنے غلام اس وقت ہوتے سب کو آزاد کردیتیں۔ ان کی چھوٹی بہن ام المومنین حضرت عائشہؓ کا انتقال ہوا تو انھوں نے ایک قطعۂ زمین ترکہ میں چھوڑا۔ چونکہ حضرت اسماءؓ کے سوا ترکہ کا کوئی اور وارث نہ تھا، اس لیے یہ زمین ان کو ملی۔ حضرت اسماءؓ نے یہ زمین بیچ ڈالی اور ساری رقم اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردی جو ایک لاکھ درہم تھی۔

راسخ الاعتقادی

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا عقیدے کی بڑی مضبوط تھیں اور وہ اپنے عقیدے میں اتنی سخت تھیں کہ مشرک آدمی سے انھیں بڑی نفرت تھی چاہے وہ مشرک ان کا کوئی قریبی عزیز ہی ہو۔ حضور ﷺ ان کی سختی کے غلو کو اعتدال پر لانے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔

واقعہ ہے کہ ایک بار ان کی والدہ مکے سے ان کو دیکھنے کے لیے مدینے تشریف لائیں۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھیں اور مشرکانہ عقیدہ رکھتی تھیں۔ وہ بیٹی کے لیے کچھ تحفے بھی لائی تھیں۔ حضرت اسماءؓ کو شرک سے بے حد نفرت تھی۔ انھوں نے نہ تحفے لیے اور نہ مشرک ماں کو گھر میں ٹھہرایا۔ لیکن پھر بھی ماں تو ماں ہی ہوتی ہے، اولاد کو ماں سے فطری محبت ہوتی ہے۔ پریشان تھیں کیا کریں؟ حضور کے پاس کہلا بھیجا۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ تحفے قبول کرلوں اور ماں کوعزت کے ساتھ اپنے گھر میں مہمان رکھو۔ اس کے بعد آپؐ نے قرآن کی یہ آیات تلاوت فرمائیں جن کا ترجمہ یہ ہے:

’’جولوگ تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور انھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے اللہ نے تم کو نہیں روکا۔‘‘

حضورؐ کی یہ مدلل تقریر جب حضرت اسماءؓ کے سامنے نقل کی گئی تو وہ نرم ہوئیں۔ اب تو انھوں نے ماں کا تحفہ بھی قبول کیا اور انھیں گھر میں ٹھہرایا اور پھر بڑی خاطر مدارات کی۔

جرأت و بہادری

حضرت اسماءؓ جس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ تھیں اور سخاوت میں دریا دل تھیں، اسی طرح وہ جرأت و بہادری کا نمونہ بھی تھیں۔

صحابہؓ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آل زبیرؓ جرأت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اور یہ شرف ان کو اپنے بزرگوں اور رشتہ داروں سے گویا ترکہ میں ملا تھا۔ حضرت زبیرؓ کے بیٹوں میں ایک بہادر اور جری فرزند حضرت عبداللہ بن زبیرؓ تھے۔ یہ وہی ابنِ زبیرؓ ہیں جو مہاجرین مدینہ کی اولاد میں سب سے پہلے حضرت اسماءؓ کے گھر میں پیدا ہوئے اور حضورؐ نے انھیں گھٹی پلائی اور دعا دی تھی۔ یہ وہی حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ہیں جن کے نانا حضرت ابوبکرصدیقؓ تھے۔ جن کی دادی حضرت صفیہؓ حضورؐ کی پھوپھی اور حضرت حمزہ ؓ کی بہن تھیں۔ یہ وہی عبداللہ بن زبیرؓ ہیں جو بڑے ہوئے تو بہادری اور جرأت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ وہی عبداللہ بن زبیرؓ ہیں جنھوں نے حضرت معاویہؓ کی خلافت کے بعد یزید کے مقابلے میں متوازی خلافت قائم کرلی تھی اور یہ ہی عبداللہ بن زبیرؓ ہیں جن کے ڈر سے خلفائے بنی امیہ کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت کا واقعہ اپنے اندر بڑی عبرتیں رکھتا ہے، ہم اس وقت حضرت اسماءؓ کی سیرت کے چند نمونے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے تمام واقعات سے قطع نظر صرف وہی حصہ بیان کرتے ہیں جو حضرت اسماءؓ سے متعلق ہے۔

…… اس سے بھی کامیابی کے ساتھ نمٹتے رہے۔ مروان کے بعد عبدالملک خلیفہ ہوا، عبدالملک کوایک ایسا سمجھدار اور مدبر شخص ہاتھ آگیا جس نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔ یہ مشہور و معروف شخص حجاج بن یوسف تھا۔ حجاج نے اپنے تدبر سے ان پر کامیابی حاصل کی اور عبداللہ بن زبیرؓ کو اتنا دبایا کہ انھیں خانہ کعبہ میں پناہ لینی پڑی۔ اتنا ہی نہیں۔ اس نے ایسی تدابیر سے کام لیا کہ عبداللہ بن زبیرؓ کے ساتھی ان سے کٹ کٹ کر اس سے جاملے اور وہ اپنے چند جانثاروں کے ساتھ رہ گئے۔ لڑائی کا انجام اب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو نظر آرہا تھا۔ وہ زرہ پہن کر اور ہتھیار لگا کر آخری ملاقات کرنے ماں کی خدمت میں پہنچے۔ حضرت اسماءؓ کی عمر اس وقت سو برس کے قریب تھی اور وہ بینائی سے محروم ہوچکی تھیں۔ عبداللہ ؓ خدمت میں حاضر ہوئے لڑائی کا رخ اور صورتِ حال بیان کرکے مشورہ طلب کیاکہ اب کیا کرنا چاہیے؟ بیٹے کے اس سوال پر صدیق اکبرؓ کی بیٹی نے جو جواب دیا اس کا ترجمہ نیچے لکھتے ہیں۔ حضرت اسماءؓ نے حضرت عبداللہؓ کو جواب دیا:

’’اے فرزند تم اپنی مصلحت کو خود ہی بہتر سمجھتے ہو، اگر تم کو اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو تم کو ثابت قدم رہنا چاہیے۔ تم مردوں کی طرح لڑو اور جان کے ڈر سے کسی ذلت کو برداشت نہ کرو۔ عزت کے ساتھ تلوار کھانا ذلت کے ساتھ اٹھانے سے لاکھ بہتر ہے۔ اگر تم شہید ہوگئے تو مجھے خوشی ہوگی اور اگر تم اس مٹ جانے والی دنیا کے پجاری نکلے، تو تم سے زیادہ برا کون ہوسکتا ہے کہ وہ خود ہلاکت میں پڑا اور اللہ کے بندوں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تنہا رہ گئے اور اب اطاعت کے بغیر چارہ نہیں تو اس طرح سوچنا شریفوں کا طریقہ نہیں۔ تم کب تک جیو گے؟ بہر حال ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہے۔ اس لیے اچھا یہی ہے کہ نیک نام ہوکر مرو کہ میں فخر کرسکوں۔‘‘

حضرت اسماءؓ کی اس تقریر کو پھر پڑھئے، غور کیجیے کہ یہ تقریر ایک ماں کی ہے جسے معلوم ہوچکا ہے کہ اب لڑنا موت کو پیغام دینا ہے اور ان کے دیکھتے دیکھتے ایسا نامور فرزند موت کے گھاٹ اتر جائے گا۔ جس کے علم و فضل کو عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ نے سراہا۔ جو جرأت اور بہادری میں اس وقت اپنی مثال آپ تھا۔ لیکن واہ! ماں ہو تو ایسی ہو، عبداللہ بن زبیرؓ نے ماں کے یہ مردانہ بول سنے تو عرض کیا ’’اندیشہ ہے کہ اہلِ شام مجھے قتل کرکے طرح طرح کا عذاب دیں گے۔‘‘ فرمایا: ’’بیٹا! تمہارا خیال درست ہے، لیکن بکری کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال نکالنے اور اس کو بوٹیاں قیمہ کرنے سے تکلیف نہیں ہوتی۔‘‘

اصل میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے بات اس طرح اس لیے پیش کی تھی کہ دیکھیں بوڑھی ماں کس طرح اس دکھ کو برداشت کرتی ہیں۔ ادھر سے اطمینان ہوا تو انھوں نے بڑھ کر ماں کے ہاتھوں کو چوما،اور بولے: ’’اماں جان! میں بھی اسی طرح سوچ رہا ہوں کہ حق کے مقابلے میں دنیا ہیچ ہے اور میں نے جو کچھ کیا ہے اسلام کی مضبوطی کے لیے کیا ہے۔‘‘ اس کے بعد عبداللہ بن زبیرؓ نے ماں کے سامنے اس لڑائی کے اسباب بیان کیے اور یزید کے مقابلے میں جو اقدام کیا اسے حق بتایا اور آخر میں ماں سے صبر کرنے کو کہا تو بولیں:

’’اے فرزند! میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ میرا صبر لوگوں کے لیے نمونہ بنے گا۔اگر تو نے میرے سامنے حق پر جان دی تو تیری شہادت میرے لیے ثواب کا باعث ہوگی اور اگر تو کامیاب ہوا تو مجھے خوشی ہوگی۔ اب اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘

یہ سن کر عبداللہ بن زبیرؓ ماں سے لپٹ گئے۔ حضرت اسماءؓ بینائی سے محروم تھیں، بیٹے کو گلے لگایاتو ہاتھوں نے محسوس کیا کہ وہ زرہ پہنے ہیں، بولیں: بیٹا! جن لوگوں کو شہادت کی تمنا ہوتی ہے وہ زرہ نہیں پہنتے، اسے اتار دو، دامن کو کمر میں لپیٹو اور حملہ کرو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ایسا ہی کیا، جاکر لڑکے اور شہید ہوگئے۔ حجاج نے صحابی رسولؐ کی لاش لٹکوادی اور دفن نہ ہونے دی۔ تیسرے دن حضرت اسماءؓ اپنی لونڈی کے ساتھ اپنے بیٹے کی لاش کے پاس آئیں۔ لاش لٹکی ہوئی پائی۔ صدیق اکبرؓ کی بیٹی تھیں، صبر کی سل چھاتی پر رکھ لی اور سننے والوں نے ان کی زبان سے یہ بول سنے کہ: ’’اسلام کا یہ شہسوار اور فدا کار ابھی گھوڑے سے نہیں اترا؟‘‘

حجاج بن یوسف زبان اور خطابت کے اعتبار سے بڑا فصیح و بلیغ تھا۔ اس کی زبان آوری کی دھوم تھی۔ اس کے سامنے حضرت اسماءؓ کا یہ فقرہ دہرایا گیا تو اپنے ہونٹ چبانے لگا۔ فوراً اٹھا، حضرت اسماءؓ کے پاس آیا اور صدیق اکبرؓ کی بیٹی سے زبان لڑانے لگا۔ بولا ’’تمہارے بیٹے عبداللہؓ نے کعبے میں بیٹھ کر خدا کے حکموں کے خلاف اقدام کیا، اس لیے اللہ نے اس پر عذاب نازل کیا۔‘‘

حضرت اسماءؓ نے جواب دیا: ’’تو جھوٹا ہے۔ میرا لڑکا خدا کا نافرمان نہ تھا، وہ روزہ دار، تہجد گزار، پرہیزگار، دیندار اور ماں باپ کا فرماں بردار تھا۔ مگر سن! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قبیلہ ثقیف میں سے دو نالائق آدمی پیدا ہوں گے، ان میں سے پہلا کذّاب اور دوسرا ظالم ہوگا۔ تو کذاب (مختار ثقفی) کو تو میں دیکھ چکی۔ اور دوسرا ظالم اس وقت میرے سامنے ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر حجاج تلملا کر رہ گیا۔ کچھ دیر کے بعد بولا: ’’میں نے تمہارے بیٹے کے ساتھ یہ سب کیا ہے۔‘‘ جواب دیا تو نے میرے بیٹے کی دنیا خراب کی اور میرے بیٹے نے تیری آخرت تباہ کی۔‘‘ یہ بھر پور جواب سنا تو حجاج بوکھلا گیا۔ بوکھلاہٹ میں اس کی زبان سے نکل گیا: ’’دو نطاق والی بڑھیا سٹھیا گئی ہے۔‘‘ یہ طنز سنا تو حضرت اسماء نے ڈانٹ کر کہا:

’’رسولِ خداﷺ نے سچ فرمایا، واقعی تو ہی وہ ظالم ہے جس کی پیشین گوئی اللہ کے رسولؐ نے فرمائی۔ اے ظالم! جواب سن! ہاں، میں ہی ذات النطاقین ہوں، اللہ کے نبیؐ نے یہ کہہ مجھے پکارا، اور تو ہے کہ اس لفظ پر مجھے طعنہ دیتا ہے۔‘‘

حجاج سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ اپنا سا منہ لے کر چپکا چلا گیا۔ پھر عبدالملک کا فرمان آیا کہ عبداللہ ؓ کی لاش ماں کو دے دی جائے۔ لاش کا جوڑ جوڑ اکھڑ چکا تھا۔ واقعی حضرت اسماءؓ بنتِ ابی بکر صدیقؓ عجیب دل گردہ کی خاتون تھیں کہ دردناک منظر سامنے تھا مگر زبان پر اللہ کی حمد جاری تھی۔ لاش کی نزاکت دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ غسل دیا اور کفنا کر کسی نہ کسی طرح دفن کیا گیا۔

حضرت اسماءؓ کے بارے میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ان کے علم و فضل اور احادیثِ نبویؐ روایت کرنے کے واقعات ہم قصداً نظر انداز کررہے ہیں۔ آخر میں صرف دو باتیں اور عرض کرنی ہیں۔ آپ نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ جب تک بیٹے کی لاش نہ دیکھ لوں مجھے موت نہ آئے۔ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ بیٹے کو دفنا کر اسی ہفتہ میں ان کی وفات ہوئی۔ پورے سو برس کی عمر میں مکہ معظمہ ہی میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

یہ تھیں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا۔ ہم مسلمان مردوں اور عورتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اسلام کی اس جانباز خاتون کے واقعات پڑھیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اندر بھی ایسی جری اور حق پسند مائیں پیدا فرمادے۔ جن کا شعار یہ ہوکہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو حق پر قربان ہونے کے لیے تیار کریں۔

اے کاش! کہ آج ہم ایسی مائیں دیکھتے!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146