۹ ہجری میں رحمت دو عالم ﷺ کو ایک دن ایک ایسی خاتون کی وفات کی خبر ملی جو شمعِ رسالت پر پروانہ وار فدا تھیں۔ حضورؐ یہ خبر سن کر سخت حزن و ملال کے عالم میں ان کے جنازے پر تشریف لے گئے۔ خود قبر میں اتارا اور پھر ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی اِمْرأۃٍ مَعَ الْحُوْرِ الْعَیْنِ فَلْیَنْظُرْ اِلیٰ اُمِّ رُوْمَانِ۔
’’جو شخص عورتوں میں حورِ عین کو دیکھنا چاہے وہ ام رومان کو دیکھے۔‘‘
یہ ام رومان جن کو سید المرسلین فخرِ موجودات ﷺ نے جنت کی حور قرار دیا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کی رفیقۂ حیات، حضور پُر نورؐ کی خوشدامن اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی والدۂ ماجدہ تھیں۔
حضرت ام رومان کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تھا۔ اہل سیَر میں سے کسی نے ان کا اصل نام نہیں لکھا، اس لیے اپنی کنیت، ام رومان ہی سے مشہور ہیں۔
حضرت ام رومان کا پہلا نکاح (زمانۂ جاہلیت میں) عبداللہ بن حارث بن سنجرہ سے ہوا، اور انہی کے ساتھ مکہ آکر سکونت پذیر ہوئیں۔ عبداللہ کے صلب سے ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام طفیل رکھا گیا۔بعض روایتوں میں حضرت رومانؓ کے پہلے خاوند کا نام طفیل بن سنجرہ بیان کیا گیا ہے اور ان کے صلب سے جو بیٹا پیدا ہوا اس کا نام طفیل کے بجائے عبداللہ دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد عبداللہ بن حارث نے وفات پائی اور امِّ رومانؓ بے سہارا رہ گئیں۔ چونکہ عبداللہ اپنی زندگی میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے حلیف بن گئے تھے اس لیے ان کے انتقال کے چند ماہ بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ام رومانؓ سے خود نکاح کرلیا۔ صدیق اکبرؓ کے صلب سے ام رومانؓ کے ہاں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ پیدا ہوئے جو تاریخ اسلام کی نہایت درخشندہ ہستیاں ہیں۔
بعثت کے بعد سرورِ کونین ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ ان چار عظیم المرتبت ہستیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے سب سے پہلے لوائے توحید کو تھاما (یعنی ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ، حضرت علی کرّم اللہ وجہٗ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت زیدؓ بن حارثہ)۔ حضرت ام رومانؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اسلام کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے بھی بلا تامل ان کی تقلید کی اور یوں سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں شامل ہوگئیں۔
سفرِ ہجرت میں صدیق اکبر کو رحمتِ عالم ﷺ کی رفاقت کا عظیم الشان شرف حاصل ہوا۔ مکہ سے چلتے وقت انھوں نے بھی حضورؐ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کو اللہ کے بھروسے پر دشمنوں کے درمیان چھوڑدیا۔ جب مدینہ پہنچ کر کچھ اطمینان ہوا تو حضورؐ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ اور حضرت رافعؓ کو اپنے اہل وعیال کو لانے کے لیے مکے بھیجا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان کے ہمراہ عبداللہ بن اُرَیْقِطْ کو اپنے صاحبزادے عبداللہ ؓ کے نام خط دے کر بھیجا کہ وہ بھی ام رومانؓ، اسماءؓ اور عائشہؓ کو اپنے ہمراہ مدینہ منورہ لے آئیں۔ چنانچہ حضرت ام رومانؓ ، حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے روانہ ہوئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ سفرِ ہجرت میں جب ہم لوگ بیداء کے مقام پر پہنچے تو میرا اونٹ بدک گیا، میں اور میری والدہ امِّ رومانؓ اس کے ہودج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اونٹ نے کود پھلانگ شروع کی تو میری ماں بہت مضطرب ہوئیں اور انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا۔ ’’ہائے میری بیٹی ہائے میری دلہن‘‘ بارے اللہ نے خیر کی، اونٹ پکڑا گیا اور ہم خیریت سے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
مدینہ منورہ میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اہل و عیال نے بنو حارث بن خزرج کے محلے میں قیام کیا جہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک مکان پہلے ہی سے لے رکھا تھا۔
۶ہجری میں افک کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہ صدیقہؓ پر منافقین مدینہ کی سازش سے ناپاک تہمت لگائی گئی۔ واقعہ کی صورت کچھ ایسی تھی کہ رحمتِ عالم ﷺ کی طبعِ مبارک بھی پُر ملال ہوگئی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے لیے اپنے آقا کا ملال قیامت سے کم نہ تھا۔ دکھیا بیٹیوں کی پناہ گاہ اور دامانِ مادر ہی ہوتی ہے۔ حضورؐ سے اجازت لے کر گرتی پڑتی اپنے والدین کے گھر پہنچیں۔ یہ ایک دو منزلہ مکان تھا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اوپر کی منزل میں تھے اور حضرت ام رومانؓ نچلی منزل میں بیٹھی تھیں۔ بیٹی کو اس حالت میں آتے دیکھ کر پوچھا: ’’میری بچی خیر تو ہے، کیسے آئیں۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے واقعہ بیان کیا۔ حضرت ام رومانؓ ماں تھیں، دکھ تو انہیں بھی بہت ہوا لیکن حضرت عائشہؓ کا دل رکھنے کو کہا: ’’بیٹی گھبراؤ نہیں، جو عورت اپنے خاوند کو زیادہ محبوب ہوتی ہے اسے شوہر کی نظروں سے گرانے کے لیے ایسی باتیں بنائی جاتی ہیں۔‘‘
حضرت عائشہؓ کے دل پر بنی ہوئی تھی۔ انہیں ماں کے جواب سے تسکین نہ ہوئی اور فرطِ الم سے ان کی چیخ نکل گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی بچی کی چیخ سن کر بالا خانے سے نیچے اترے، واقعہ سنا، رقیق القلب تو تھے ہی خود بھی رونے لگے۔ جب ذرا قرار آیا تو حضرت عائشہؓ سے کہا، بیٹی تم اپنے گھر جاؤ، ہم ابھی آتے ہیں۔
جب وہ چلی گئیں تو صدیق اکبرؓ، ام رومانؓ کو ہمراہ لے کر حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ہاں پہنچے۔ ام المومنین رنج و الم کی شدت سے بخار میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ حضرت ام رومانؓ نے انہیں اپنی گود میں لٹا لیا۔ نمازِ عصر کے بعد سرورِ عالم ﷺ گھر تشریف لائے اور اس بہتان کے بارے میں حضرت عائشہؓ سے استفسار فرمایا۔ حضرت عائشہؓ نے ماں باپ کی طرف دیکھا اور کہا، آپ لوگ جواب دیں لیکن وہ دونوں رحمتِ دو عالم ﷺ کے سچے شیدائی تھے اپنے آقا کو ملول دیکھ کر بیٹی کی حمایت کیسے کرسکتے تھے، کہنے لگے: ’’ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔‘‘حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ میں بالکل بے گناہ ہوں۔‘‘
آخر غیرتِ الٰہی جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے خود عائشہ صدیقہؓ کی طہارت کی گواہی بڑے پُر زور الفاظ میں دی۔ ارشاد ہوا: ’’جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح تہمت ہے۔‘‘ (النور)
آیتِ برأت کے نزول سے حضرت ام رومانؓ کو کمال درجے کی مسرت ہوئی اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا سر بھی فخر سے بلند ہوگیا۔ ماں نے بیٹی سے کہا : ’’بیٹی اٹھو اور اپنے شوہرؐ کے قدم لو۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ناز سے جواب دیا: ’’میں تو صرف اپنے رب کی ممنون اور شکر گزار ہوں جس نے میری بے گناہی کی شہادت دی۔‘‘
اسی سال کے آخر میں ایک اور یادگار واقعہ پیش آیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اصحاب صفہ میں سے تین بزرگوں کو اپنے گھر بطور مہمان لائے۔ انہیں وہاں چھوڑ کر سرورِ عالم ﷺ کی خدمت میں تشریف لے گئے۔ وہاں کچھ زیادہ دیر ہوگئی۔ گھر واپس آئے تو حضرت ام رومانؓ نے پوچھا: ’’مہمانوں کو یہاں چھوڑ کر آپ کہاں چلے گئے تھے؟‘‘حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا: ’’میں رسولِ اکرم ﷺ کی خدمت میں تھا تم مہمانوں کو کھانا کھلا دیتیں۔‘‘حضرت ام رومانؓ نے عرض کیا: ’’میں نے انہیں کھانا بھجوایا تھا لیکن انھوں نے میزبان کی غیر حاضری میں کھانا تناول کرنا پسند نہیں کیا۔‘‘ اب حضرت ابوبکرصدیقؓ خود کھانا لے کر گئے اور تینوں بزرگوں کو کھلایا۔ اس کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ مہمانوں اور اہل خانہ کے سیر ہونے کے بعد بھی نہایت افراط سے بچ رہا۔حضرت ام رومانؓ کے سالِ وفات کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؓ نے اصابہ میں قوی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ام رومانؓ کی وفات ۹ ہجری سے پہلے نہیں ہوئی۔ سرورِ عالم ﷺ حضرت امِّ رومانؓ کی بہت عزت کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تدفین کے لیے حضورؐ خود قبر میں اترے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔
علامہ ابن سعدؒ نے حضرت ام رومانؓ کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں:
کانت ام رومان امراۃ صالحۃ ’’ ام رومان بہت نیک خاتون تھیں۔‘‘
رضی اللہ تعالیٰ عنہا