غزوۂ خیبر کے بعدکا ذکر ہے کہ ایک دفعہ سرورِ عالم ﷺ کو کہیں سے تحفہ میں ایک پھولدار سیاہ چادر آئی۔ حضور ؐ نے فرمایا، یہ چادر کس کو دوں؟ لوگ چپ رہے۔ ان کی خاموشی کا مطلب یہ تھا کہ حضورؐ جس کو چاہیں وہ چادر دے دیں۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’امِّ خالد کو بلاؤ‘‘۔ ایک صاحب دوڑے گئے اور حضرت امِّ خالدؓ کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو یاد فرمارہے ہیں۔ وہ فوراً بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوئیں۔ رحمتِ عالم ﷺ نے نہایت محبت اور شفقت سے وہ چادر ان کو مرحمت فرمائی اور ساتھ ہی دو دفعہ فرمایا: ’’پہنو اور پرانی کرو۔‘‘
پھر حضورؐ چادر کے بوٹوں پر ہاتھ رکھ کر حضرت امِّ خالدؓ کو دکھاتے اور فرماتے ’’امِّ خالدؓ دیکھو یہ سنہ ہے یہ سنہ ہے۔‘‘ حبشی زبان میں’’سنہ‘‘ کے معنی ہیں ’’خوشنما‘‘ امِّ خالدؓ حبشی زبان جانتی تھیں۔ وہ سرورِ عالم ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سن کر باغ باغ ہوئی جاتی تھیں۔
یہ امِّ خالد جن پر رحمتِ عالم ﷺ اس قدر شفقت فرماتے تھے جلیل القدر صحابی حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص کی صاحبزادی تھیں۔
حضرت امِّ خالدؓ کا اصل نام امۃ تھا۔ وہ قریش کے نامور خاندان بنو امیہ سے تھیں۔ سلسلۂ نسب یہ ہے:امِّ خالد امۃ بنت خالدؓ بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔
والدہ کا نام اُمینہؓ یا ہُمینہؓ بنتِ خلف بن اسعد بن عامر تھا۔ ان کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا۔ حضرت امِّ خالدؓ کے والد اور والدہ دونوں دعوتِ حق کے ابتدائی زمانے ہی میں شرفِ اسلام سے بہرہ یاب ہوگئے اور دوسرے سابقون الاولون کی طرح راہِ حق میں بڑی مصیبتیں جھیلیں۔ ۵ ہجری بعدِ بعثت میں سرورِ عالم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو کفار کے مظالم سے بچانے کے لیے حبش چلے جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ چند صحابہ کرامؓ اُسی سال ہجرت کرکے حبش چلے گئے۔
اگلے سال (سن ۶ ہجری بعدِ بعثت میں) مظلوم صحابہؓ کے ایک بڑے قافلے نے حبش کی طرف ہجرت کی۔ اس قافلے میں حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص اور ان کے بھائی حضرت عمروؓ بن سعید بن العاص بھی شامل تھے، ان کے ساتھ ان کی بیویاں امینہؓ اور فاطمہؓ بنتِ صفوان بھی تھیں۔ حضرت خالدؓ بن سعید غزوۂ خیبر تک حبش میں مقیم رہے۔ ان کے قیامِ حبش ہی کے زمانے میں حضرت ام خالد امۃؓ کی ولادت ہوئی۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اس پر پہلے ہی نور اسلام جلوہ فگن تھا۔ اس لیے وہ پیدائشی مسلمان تھیں۔ علامہ ابن اثیر ؒ کا بیان ہے کہ حضرت امِّ خالدؓ کے ایک بھائی بھی حبش میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سعیدؓ تھا۔ دونوں بھائی بہن شرفِ صحابیت سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت سعیدؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں شام کے ایک معرکے میں باپ کے سامنے ہی شہادت پائی۔
مہاجرین حبشہ میں سے کچھ اصحاب تو مختلف اوقات میں سرورِ عالم ﷺ کی ہجرت الیٰ المدینہ سے پہلے مکہ واپس آگئے لیکن بیشتر حبش ہی میں رہے اور جنگِ خیبر کے موقع پر حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کے ساتھ مدینہ منورہ واپس آئے۔ حضرت خالدؓ بن سعید ان کے اہل و عیال اور دوسرے اہلِ خاندان بھی انھیں اصحاب میں شامل تھے۔ حضرت امِّ خالدؓ اس وقت سنِ شعور کو پہنچ چکی تھیں۔ جس وقت یہ لوگ حبشہ سے روانہ ہونے لگے تو نجاشی شاہِ حبشہ نے نہایت عقیدت سے ان کو پیغام دیا کہ تم سب رسول اللہ ﷺ کو میرا سلام پہنچادینا۔
حضرت امِّ خالد ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھی جنھیں شاہِ حبشہ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے پیغامِ سلام دیا تھا۔ چنانچہ میں نے بھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حضورؐ کو نجاشی کا سلام پہنچایا۔
مدینہ منورہ آنے کے بعد حضرت امِّ خالدؓ کا نکاح حضورؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حواری حضرت زبیرؓ بن العوام سے ہوا۔ ان کے صلب سے دو بیٹے خالد اور عمر اور تین بیٹیاں حبیبہ، سودہ اور ہند پیدا ہوئیں۔
سرورِ عالم ﷺ حضرت امِّ خالدؓ پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے والدِ ماجد کے ہمراہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اس وقت انھوں نے سرخ کرتہ پہن رکھا تھا۔ حضورؐ نے اسے دیکھ کر ازراہِ خوش طبعی فرمایا: ’’سنہ سنہ‘‘ بہت خوبصورت، بہت خوبصورت۔ حبشی زبان میں یہ الفاظ حضور ﷺ نے امِّ خالد ؓ کوخوش کرنے کے لیے فرمائے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر حضرت امِّ خالدؓ مہرِ نبوت سے کھیلنے لگیں۔ حضرت خالدؓ نے (اس کو سوئِ ادب پر محمول کرکے) بچی کو منع کیا لیکن حضورؐ نے شفقت سے فرمایا کہ ’’منع نہ کرو کھیلنے دو‘‘۔ یہ روایت اس لحاظ سے محل نظر ہے کہ حضرت امِّ خالدؓ سن ۷ ہجری میں اپنے والدین کے ہمراہ حبش سے مدینہ آئیں۔ اس وقت وہ بچی نہیں تھیں بلکہ ان کی عمر کم از کم بارہ تیرہ برس کی تھی اس روایت کی رو سے انھیں پانچ چھ سال کی بچی تسلیم کرنا پڑے گا جو صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر حضور ؐ نے حضرت امِّ خالدؓ کو بطورِ خاص بلاکر ایک خوبصورت چادر عنایت فرمائی اور اس وقت بھی ان کو خوش کرنے کے لیے یہی الفاظ کہے۔
حضرت امِّ خالدؓ کا سالِ وفات معلوم نہیں ہے۔ ان سے چند احادیث مروی ہیں۔ راویوں میں کریبؒ بن سلیمان کندی، موسیٰ بن عقبہ اور ابراہیمؒ بن عقبہ وغیرہ شامل ہیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا