حضرت اُمِّ شریک دوسیہؓ کا شمار نہایت عظیم المرتبت صحابیات میں ہوتا ہے لیکن تعجب ہے کہ جس قدر وہ مشہور ہیں اسی قدر ان کے ذاتی اور خانگی حالات پردئہ خفا میں ہیں۔ اہل سیر نے ان کا اصل نام اور سلسلۂ نسب بیان نہیں کیا اور صرف اتنا لکھا ہے کہ ان کا تعلق قبیلہ دوس سے تھا۔ یہ قبیلہ یمن کے ایک گوشہ میں آباد تھا، معلوم نہیں اُمِّ شریکؓ مکے کب اور کس سلسلے میں آئیں البتہ متعدد اہلِ سیر کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ نے بعثت کے بعد دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو وہ مکہ میں قیام پذیر تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت صالح فطرت سے نوازا تھا۔ انھوں نے کسی تامل کے بغیر دعوتِ توحید پر لبیک کہا اور اس طرح ’’السابقون الاولون‘‘ کی مقدس جماعت کی رکن بن گئیں۔
علامہ ابن سعدؒ نے طبقات میں بیان کیا ہے کہ حضرت امِّ شریکؓ نے اسلام قبول کیا تو ان کے مشرک اعزّہ و اقارب نے ان کو دھوپ میں کھڑا کردیا وہ اس حالت میں ان کو روٹی کے ساتھ شہد کھلاتے تھے جس کی تاثیر نہایت گرم ہوتی ہے۔ پانی پلانا بھی بند کردیا۔ جب اس طرح تین دن گزر گئے تو مشرکین نے کہا کہ جو دین تم نے اختیار کیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ وہ تین دن شب و روز کی بلا کشی سے بدحواس ہوگئی تھیں، مشرکین کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ جب ان لوگوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو وہ سمجھ گئیں کہ یہ لوگ مجھ سے توحید کا انکار کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ فوراً بولیں: ’’خدا کی قسم! میں تو اسی عقیدہ پر قائم ہوں۔‘‘
حضرت امِّ شریکؓ نے خود ہی اسلام قبول کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ نہایت سرگرمی سے قریش کی عورتوں کو بھی اسلام کی دعوت دینی شروع کردی۔ علامہ ابن اثیرؒ نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ امِّ شریکؓ آغازِ اسلام میں قریش کی عورتوں میں اسلام کی تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ مشرکینِ قریش کو ان کی مخفی کوششوں کا حال معلوم ہوا تو ان کو مکہ سے نکال دیا۔
اہل سیر نے حضرت امِّ شریکؓ کے ہجرت کے زمانے کی تصریح نہیں کی لیکن یہ بات ثابت ہے کہ انہیں ہجرت کی سعادت ضرور نصیب ہوئی اور انہوں نے مدینہ منورہ میں مستقل اقامت اختیار کرلی۔ سنن نسائی میں ہے کہ حضرت امِّ شریکؓ نے اپنے مکان کو گویا مہمان خانۂ عام بنادیا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں باہر سے جو مہمان آتے تھے وہ اکثر امِّ شریکؓ ہی کے مکان میں قیام کرتے تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں بھی حضرت امِّ شریکؓ نومسلموں کی کفالت کیا کرتی تھیں۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ مشہور صحابیہ حضرت فاطمہؓ بنتِ قیس کو سن ۱۰ ہجری میں ان کے شوہر ابوعمروحفصؓ بن مغیرہ نے طلاق دے دی تو حضورؐ نے پہلے تو انہیں حکم دیاکہ عدت کا زمانہ امِّ شریکؓ کے یہاں گزاریں لیکن بعد میں حضورؐ نے فرمایا کہ اُمِّ شریکؓ کے گھر مہمانوں کی اکثر آمد ورفت رہتی ہے اور ان کے اعزہ و اقارب بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں اس لیے وہاں پردہ کا اہتمام نہ ہوسکے گا لہٰذا تم عدت کا زمانہ اپنے نابینا ابن عمِّ ابن ام مکتومؓ کے ہاں گزارو۔
حضرت امِّ شریکؓ کو رسول اکرم ﷺ سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔ علامہ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ ان کے پاس ایک کُپی تھی جس میں سے وہ حضورؐ کے لیے گھی ہدیتاً بھیجا کرتی تھیں۔ خدا کی قدرت اس کپی میں گھی ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا، اس میں سے وہ اپنے بچوں کو بھی دیا کرتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے کپی کو الٹ کر یہ دیکھنا چاہا کہ اس میں کتنا گھی باقی رہ گیا ہے۔ اسی دن سے وہ کپی گھی سے خالی ہوگئی۔ حضرت امِّ شریکؓ نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ سنایا تو آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم اس کپی کو نہ الٹتیں تو اس میں گھی عرصہ تک باقی رہتا۔‘‘
حضرت امِّ شریکؓ کا سالِ وفات اور مزید حالات دستیاب نہیں ہوئے۔