حضرت آسیہ ؓ مصر کے بادشاہ فرعون کی بیوی اور مصر کی ملکہ تھیں۔خاتون اول کے دریائے نیل کے کنارے عظیم الشان محلات تھے۔ ننھے موسیٰ نے ان کی گود میں پرورش پائی ہے۔ اس محل میں ننھے شیر خوار کی حیثیت سے آنے والے موسیٰ جوان ہوچکے ہیں، جی ہاں اب انہیں پیغمبری بھی مل چکی ہے، فرعون کے ساتھ مناظرے ہوچکے ہیں، جادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ ہوچکا ہے۔ جادوگر مسلمان ہوچکے ہیں، حضرت آسیہؓ جن کی گود میں، جن کے محل میں، آنگن میں پیغمبر پرورش پاتا رہا، آسیہ سے بڑھ کر ان کی شخصیت سے کون واقف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاآسیہؓ پر کرم ہوا اور انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی مان لیا اور موسیٰ علیہ السلام جس رب کو منوارہے تھے حضرت آسیہؓ نے اس رب کی توحید کا اعلان کردیا۔
شوہر سٹپٹا کر رہ گیا۔ فرعون کے غضب کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، اس نے اپنی بیوی کو بہت سمجھایا، مارا پیٹا مگر ناکام ہوا۔ آخر کار اس نے انتہائی اقدام کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ مصر کی ملکہ کو لکڑی کے تختے پر لٹکا کر ہاتھوں اور پاؤں میں لوہے کی میخیں ٹھونک دیں۔ اس کے اسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرعون کی فرعونیت کا ذکر کرتے ہوئے اسے میخوں والا کہا ہے۔ ’’تو نے دیکھا نہیں تیرے رب نے فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا (کیا کیا؟)‘‘ (الفجر:۱۰)
یقین جانیں اسی پر بس نہیں کیا، ظالم فرعون کے حکم پر حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کو تپتے ریگستان کی دھوپ میں پھینک دیا گیا، فرعون دورہ کرتا رہا اور کہتا رہا کہ اب تو باز آجا، محلات کی شاہی زندگی تیری منتظر ہے۔ مگر آسیہؓ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اثر کیسے ہوتا! جب حضرت آسیہؓ کے ساتھ یہ سنگین ظلم ناقابلِ برداشت ہوا تو اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوگئی۔ چنانچہ جب فرعون اور اس کے کارندے حضرت آسیہؓ سے الگ ہوتے تو سخت دھوپ میں حضرت آسیہؓ پر فرشتے اپنے پروں کا سایہ کردیتے۔ امام ابو یعلیٰ اپنی حدیث کی کتاب المسند میں یہ روایت حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے کرتے ہیں کہ جب حضرت آسیہؓ نے اپنے ربِ کریم کی طرف سے اپنے اوپر یہ کرم دیکھا تو اپنے رب کو پکارا اور کہا: ’’میرے پروردگار میرے لیے اپنے پاس سے جنت میں ایک محل بنا اور مجھے فرعون اور اس کے اہل کاروں سے نجات عطا فرما۔ اور ان ظالم لوگوں سے میری جان کی خلاصی کر۔‘‘ (التحریم: ۱۱)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں آسیہؓ کو اس کا محل دکھلایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آسیہؓ کی فریاد سن لی، ان کی روح مٹی سے بنے ہوئے گوشت کے پنجرے سے آزاد ہوگئی اور سیدھی اللہ کے پڑوس جنت الفردوس میں محل میں جاپہنچی۔
جب کوئی اللہ کی توحید کے لیے اللہ کے راستے میں ڈٹ جاتا ہے تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو دنیا میں ہی عجیب نظارے کروادیتا ہے۔ حضرت آسیہؓ کو بھی ربِ کریم نے دنیا ہی میں جنت کا محل دکھلادیا۔ فرشتوں کے پروں کو ان پر سائبان بنادیا، حضرت آسیہؓ کے اس عظیم کردار کو تمام مومنوں کے لیے ایک مثال قرار دیا۔
’’اللہ تعالیٰ فرعون کی عورت کو مومنوں کے لیے مثال بیان فرماتے ہیں۔‘‘ (التحریم: ۱۱)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حضرت آسیہؓ جیسا پختہ ایمان اور استقامت عطا فرمائے۔(آمین