اصل نام تماضر اور خنساء تخلص تھا۔ نجد کے قبیلہ قیس کے خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ آپ بے حد ذہین اور ممتاز و معروف شاعرہ تھیں۔ آپ کے کلام میں بے پناہ فصاحت وبلاغت پائی جاتی تھی۔ خنساء ؓ کے دو مرثیے جو انھوں نے زمانۂ جاہلیت میں اپنے بھائیوں کی موت پر لکھے عربی ادب میں بے نظیر سمجھے جاتے ہیں۔ خنساء ؓ کے کلام کو اللہ کے رسول ﷺ نے سنا اور زبان و بیان کی تعریف فرمائی۔ نخلہ اور طائف کے درمیان بازار عکاظ میں منعقد ہونے والے سالانہ ادبی و شعری اجتماعات میں جہاں قرب و جوار کے بہت سے شاعر شرکت کرتے خنساءؓ بھی حصہ لیتیں۔ خنساءؓ جب ایمان نہیں لائی تھیں۔ اس وقت کا ذکر ہے۔ آپ کے دو بھائی تھے، یہ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ زمانۂ جاہلیت میں جب لوگ بات بات پر ایک دوسرے پر تلوار سونت لیتے تھے عرب قبیلوں کے درمیان آئے دن تلواریں چلا کرتی تھیں۔ کسی بات پر قبیلہ بنی اسد اور ان کے قبیلے میں ٹھن گئی اور نتیجہ میں خون ریز جنگ ہوکر رہی۔ اس جنگ میں آپ کا بھائی معاویہ مارا گیا اور دوسرا بھائی دشمن کے نیزے سے زخمی ہوگیا۔ خنساءؓ کو بھائی کی موت سے شدید صدمہ پہنچا۔ آپ تڑپ تڑپ کر روتی تھیں کہ دیکھنے والے بھی رو پڑتے تھے۔ پھر آپ دوسرے زخمی بھائی کی تیمار داری میں لگ گئیں، ہر وقت بھائی کے پلنگ کی پٹی سے لگی رہتیں۔ انہیں خود اپنا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ آخر یہ بھائی بھی چل بسے تو آپ غم سے نڈھال ہوگئیں۔ اپنے بال نوچتیں، سینہ کوٹتیں، شدید غم سے بھاگی بھاگی پھرتیں ، رو رو کر اشعار پڑھتیں کہ سننے والے بھی ساتھ ساتھ روتے۔ پھر آپ نے اسلام قبول کرلیا اور ایمان کی دولت نصیب ہوتے ہی صبر و شکر کا ایسا مجسمہ بن گئیں کہ رہتی دنیا تک کے لیے تاریخ میں نام محفوظ ہوگیا۔
کسی لڑائی میں حضرت عمر کے بھائی زید بن خطاب جو نہایت متقی اور پرہیزگار تھے اور حضرت عمرؓ کو اپنے تقویٰ کی وجہ سے بہت عزیز تھے، وہ شہید ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کو بہت رنج ہوا۔ حضرت خنساءؓ نے جب سنا تو تعزیت کے لیے آئیں حضرت عمرؓ نے ان سے زید کا مرثیہ لکھنے کو کہا۔ اس کے جواب میں خنساءؓ نے نہایت ہی سچی اور بے لاگ بات کہی۔ آپ نے کہا: ’’اے عمرؓ! خدا کی قسم میں اپنے بھائیوں پر ہرگز نہ روتی اگر وہ شہید ہوتے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’خنساءؓ سے بہتر کسی نے تعزیت نہیں کی۔‘‘
یہ وہی خنساءؓ ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں اپنے بھائیو ںکی موت پر رو رو کر ہلکان ہوگئی تھیں۔ اور جب ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئیں تو صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور یہ سب اسلام کی بدولت ہوا۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہے۔ اور ایک مکمل شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ جس میں بزدلی و خوف کی جگہ نہیں ہوتی۔ خنساءؓ خدا اور رسول سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اور خدا نے انہیں بے مثال ہمت و جرأت سے نوازا تھا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کی قادسیہ کی جنگ بڑی مشہور جنگ ہے۔ خنساءؓ اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ قادسیہ کے میدان میں آئیں۔ مقابل میں عجم کی عظیم الشان سلطنت تھی، اس جنگ میں عجمی سپہ سالا ر رستم اور مسلمان لشکر کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے۔ جنگ کے دوسرے دن جبکہ میدان کارزار گرم ہونے والا تھا، خنساءؓ نے اپنے چاروں بیٹوں کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی۔ فرمایا: ’’اے میرے جگر گوشو! قسم ہے اس خدائے لا یزال کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تمہاری رگوں میں شریف خون ہے۔ میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموؤں کو رسوا کیا، تمہارا حسب و نسب بے داغ ہے۔
اے میرے جگر کے ٹکڑو! یاد رکھو یہ دنیا فانی ہے اور جہاد ہماری سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور کفار سے جہاد کرنا ثواب عظیم ہے ، جب میدانِ جنگ گرم ہو اور جنگ کے شعلے بھڑکنے لگیں تو دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑو اور بے دریغ تلوار چلاؤ۔ دشمنوں کی صفوں کو الٹ دو۔ اللہ سے فتح و کامرانی کی دعا کرتے رہو۔ اللہ نے چاہا تو تم ضرور کامیاب ہوگے اور شہادت حاصل کرو گے۔ خنساءؓ کے بیٹوں نے یہ تقریر سنی اور نعرئہ تکبیر بلند کیا۔ کفار کے لشکر پر ایک ساتھ حملہ کیا۔ بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے چاروں شہید ہوگئے۔ جب خنساء نے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے چارشہید بیٹوں کی ماں ہونے کا شرف بخشا۔ زبان پر شکر کے کلمات تھے۔ نوحہ اور آہ و فغاں کا دور دور تک نام و نشان نہیں، چہرے پر حزن و ملال نہیں۔ بے پناہ سکون اور اطمینانِ قلب سے دمکتا چہرہ۔ ایسی تھیں خنساء رضی اللہ تبارک و تعالیٰ عنہا ۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔
رضی اللّٰہ تبارک و تعالیٰ عنہا