حضرت خولہ بنت ثعلبہ انصاری اور ان کے شوہر اوس بن صامت انصاری قبیلہ اوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے۔
حضرت خولہ اور اوس بن صامت ایک ساتھ مسلمان ہوئے تھے۔ میاں بیوی دونوں نے حضور ﷺ سے بیعت کی تھی۔ وہ ایک نیک، غیرت مند اور سادہ فطرت مسلمان خاتون تھیں۔ مگر ایک دفعہ میاں بیوی میں تکرار ہوگئی۔ اس پر حضرت اوس غصہ میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اور حضرت خولہ سے کہہ بیٹھے:انت علی کظہر امی۔’’تو میرے لیے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘
یعنی جس طرح ماں حرام اسی طرح تم مجھ پر حرام ہو۔ اسے شریعت کی زبان میں ظہار کہتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ بات کہہ گئے مگر جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو بہت پشیمان ہوئے کہ یہ کیا کہہ گیا میں۔ بی بی خولہ بھی چپ ہوگئیں کہ اب کیا کریں۔ اتنے میں حضرت اوس نے کہا: بی بی خولہ میں نے جو کچھ کہا میں اس پر شرمندہ ہوں۔ میں تم سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ بی بی خولہ نے فرمایا: چچا کے بیٹے! تم نے مجھے طلاق تو نہیں دی مگر عرفِ عام میں ظہار بھی عورت مرد کے درمیان تفریق کا ذریعہ ہے۔ معلوم نہیں کہ اللہ کی نظر میں ہمارا آپ کا نکاح کا رشتہ باقی رہا یا نہیں۔ بہتر ہو کہ آپ جائیں اور رسول کریم ﷺ سے اس بارے میں پوچھیں؟ حضرت اوس نے کہا: مجھے تو اپنے کیے پر یوں ہی ندامت ہے۔ میں نبی ﷺ کے سامنے یہ بات کیسے کہوں گا۔ تمہیں چلی جاؤ، اور حضورﷺ سے معلوم کرو۔
حضرت خولہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ایسا ہوگیا۔ عرب دستور کے مطابق تو مجھے طلاق ہوگئی مگر کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی تباہی سے بچانے کی کوئی صورت نہیں؟
حضورﷺ نے فرمایا: میرے خیال میں تو تم اوس پر حرام ہوگئیں۔ ویسے اس بارے میں اللہ کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں ملی ہے۔
حضور اکرم ﷺ کاجواب سن کر بی بی خولہ رونے لگیں۔
اوس کا مطلب مجھے طلاق دینا نہیں تھا۔ مولا خدا کے لیے اللہ سے ہدایت مانگئے کہ میرے اور میرے بوڑھے شوہر اور بچوں کی زندگی تلخ نہ ہوجائے۔
پھر بی بی خولہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے فریاد کی۔ اے اللہ میں سخت مصیبت میں پڑگئی ہوں۔ اے اللہ! اپنے نبیﷺ کو ایسی ہدایت دے جو ہمارے لیے رحمت کا باعث ہو۔
یکایک حضورﷺ پر وحی کے نزول والی کیفیت پیدا ہوئی۔ آپ نے وحی کی آواز کو سنا اور مسکرانے لگے۔ آپؐ نے فرمایا: خولہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا فیصلہ کردیا۔ اور پھر آپ نے سورہ مجادلہ تلاوت کی۔ اور پھر فرمایا کہ اپنے شوہر سے کہو کہ ایک لونڈی یا غلام آزاد کرکے ظہار کے وبال سے بچ جائے۔ بی بی خولہ نے عرض کیا: آقا میرے شوہر کے پاس لونڈی غلام کچھ بھی نہیں ہے، گذر ہی مشکل سے ہوتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تو پھر وہ دو ماہ کے روزے رکھیں۔
بی بی خولہ نے کہا: رسول اللہ وہ بہت کمزور ہیں اگر وہ دن میں دو تین بار نہ کھائیں تو آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگتی ہے۔
’’اچھا تو ان سے کہو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ ‘‘
’’میرے شوہر کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے۔ آپ امداد فرمادیں تو ہوسکتا ہے۔‘‘
حضورﷺ نے بیت المال سے ۶۰ آدمیوں کے دو وقت کے کھانے کے برابر اذوقہ دلوایا اور حضرت اوس نے یہ سامان صدقہ کرکے ظہار کا کفارہ ادا کیا۔
بی بی خولہ کے سلسلے میں سورہ مجادلہ نازل ہونے کے بعد لوگ ان کا بہت احترام کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک بار انھوں نے حضرت عمر فاروق سے بھری محفل میں کہا کہ: اے عمر! ایک وقت تھا کہ لوگ تمہیں عمیر کہہ کر پکارتے تھے۔ اس زمانے میں تم بکریوں کے چَرواہے تھے۔ پھر لوگ تمہیں عمر کہنے لگے اور اب لوگ تمہیں امیر المؤمنین کہتے ہیں۔ پس خلقت کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہے اس کے لیے مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ اور دور کا فاصلہ قریب کا ہوجاتا ہے۔ اور جو موت سے خوف کھاتا ہے۔ اس کو ہر وقت موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔اور وہ اسی چیز کو (جان کو) کھودے گا۔ جس کو وہ بچانا چاہتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ کے ساتھیوں میں سے ایک نے انھیں ٹوکا کہ ’’محترمہ! آپ نے تو امیر المؤمنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں کو روکا اور بولے: ’’انھیں نہ رکو، انھیں کہنے دو یہ خولہ بنتِ ثعلبہؓ ہیں۔ ان کی بات تو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سنی تھی۔ اور انہی کے بارے میں سورہ مجادلہ نازل ہوئی ہے۔ مجھے ان کی بات سننے دو۔‘‘اور حضرت عمرؓ ان کی یہ ہدایت سنتے رہے۔