حضرت سفانہؓ بنتِ حاتم

طالب الہاشمی

عرب کے مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کی بیٹی تھیں۔ قبیلہ طے یمن میں آباد تھا اور حاتم طائی اس قبیلہ کا سردار تھا۔ اس نے اپنے قبیلے سمیت عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ سرورِ عالم ﷺ کی بعثت سے چند سال پہلے حاتم طائی نے وفات پائی تو قبیلہ کی سیادت پر اس کے فرزند عدی فائز ہوئے۔ ۹ہجری میں حضورؐ نے ایک چھوٹا سا لشکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قیادت میں بنو طے کی طرف بھیجا۔ عدی نے اس لشکر کی آمد خبر سنی تو وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر شام چلے گئے اور وہاں ایک بستی ’’جوشیہ‘‘ میں اقامت اختیار کرلی۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت جو بھگدڑ مچی اس میں عدی کی بہن سفانہ ان سے بچھڑ گئیں اور اسلامی لشکر کے ہاتھ اسیر ہوگئیں۔ یہ لشکر مدینہ منورہ پہنچا اور اسیروں کو حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو سفانہ نے آگے بڑھ کر عرض کی:

’’اے صاحبِ قریش میں بے یارومددگار ہوں۔ مجھ پر رحم کیجیے۔ باپ کا سایہ میرے سر سے اٹھ چکا ہے اور بھائی مجھے تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ میرے والد بنو طے کے سردار تھے، وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، یتیموں کی سرپرستی کرتے تھے، حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتے تھے، مظلوموں کی مدد کرتے تھے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچاتے تھے۔ میں اس حاتم طائی کی بیٹی ہوں جس نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا تھا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے آزاد کردیں۔‘‘

حضورؐ نے سفانہ کی باتیں سن کر فرمایا: ’’اے خاتون جو اوصاف تو نے اپنے باپ کے بیان کیے ہیں یہ تو مسلمانوں کی صفات ہیں اگر تیرے والد زندہ ہوتے تو ہم ان سے اچھا سلوک کرتے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا : ’’اس عورت کو چھوڑ دو یہ ایک معزز اور نیک خصلت باپ کی بیٹی ہے۔ کوئی معزز شخص ذلیل ہوجائے اور کوئی مالدار محتاج ہوجائے تو اس کے حال پر ترس کھایا کرو۔‘‘

صحابہ کرامؓ نے سفانہ کو فوراًچھوڑ دیا لیکن وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہیں۔ حضورؐ نے پوچھا: ’’کیوں اب کیا بات ہے۔‘‘

سفانہ نے عرض کیا: ’’اے محمدؐ میں جس باپ کی بیٹی ہوں اس کو یہ کبھی گوارا نہ تھا کہ قوم مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ سکھ کی نیند سوئے جہاں آپ نے مجھ پر کرم فرمایا وہاں میرے ساتھیوں پر بھی رحم فرمائیے اللہ آپ کو جزا دے گا۔‘‘

حضورؐ سفانہ کی درخواست سے بڑے متاثر ہوئے اور آپؐ نے حکم دیا کہ سارے اسیرانِ طے کو رہا کردیا جائے۔

اس پر سفانہ کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہوگئے۔

’’اللہ آپ کی نیکی کو اس شخص تک پہنچائے جو اس کا مستحق ہو۔ اللہ آپ کو کسی بدکیش اور بدطینت کا محتاج نہ کرے اور جس فیاض قوم سے کوئی نعمت چھن جائے اسے آپ کے ذریعے سے واپس دلا دے۔

ایک دوسرے روایت میں ہے کہ سفانہ نے جب پہلی مرتبہ حضورؐ سے اپنی رہائی کے لیے درخواست کی تو منجملہ دوسری باتوں کے یہ بھی کہا، کہ مجھ کو چھڑانے والا موجود نہیں ہے اس لیے آپ خود ہی مجھ پر احسان کیجیے۔ خدا آپ پر احسان کرے گا۔

حضورٔ نے پوچھا : ’’چھڑانے والا کون؟‘‘

انھوں نے جواب دیا: ’’عدی بن حاتم، میں اس کی بہن ہوں۔‘‘

حضورؐ نے فرمایا: ’’وہی عدی بن حاتم جس نے خدا اور رسول سے فرار اختیار کیا۔‘‘

سفانہ نے اثبات میں جواب دیا تو حضورؐ کوئی فیصلہ کیے بغیر تشریف لے گئے، دوسرے دن بھی سفانہ اور حضورؐ کے درمیان ایسا ہی مکالمہ ہوا، لیکن آپؐ نے کوئی فیصلہ صادر نہ فرمایا۔ تیسرے دن سفانہ نے پھر وہی درخواست کی۔ اس مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی ان کی سفارش کی۔ رحمت عالم ﷺ نے اب یہ درخواست قبول فرمالی اور سفانہ کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ابھی وطن جانے میں جلدی نہ کرو، جب یمن جانے والا کوئی معتبر آدمی مل جائے تو مجھے اطلاع دو۔

چند دن بعد یمن کے قبیلہ بلی یا قضاعہ کا ایک وفد مدینے آیا۔ سفانہ نے حضورؐ سے استدعا کی کہ اس وفد کی واپسی کے وقت مجھے اس کے ہمراہ بھیج دیجیے۔ چنانچہ حضورؐ نے سفانہ کے مرتبے کے مطابق سواری، لباس اور زادِ راہ کا انتظام کرکے انہیں قافلے کے ساتھ روانہ کردیا۔

سفانہ کو علم تھا کہ عدی بن حاتم وطن سے بھاگ کر جوشیہ میں مقیم ہیں۔ چنانچہ حضورؐ سے رخصت ہوکر سیدھی جوشیہ پہنچیں، بہن اور بھائی کی ملاقات کیسے ہوئی، اس کو حضرت عدیؓ بن حاتم کے اپنے الفاظ میں سنئے:

’’ایک دن جوشیہ میں ہمارے گھر کے سامنے ایک سانڈنی آکر رکی۔ محمل میں ایک نقاب پوش عورت بیٹھی تھی مجھے شک گزار کہ میری بہن ہے۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اسے تو مسلمان اسیر کرکے لے گئے ہیں وہ اس شاندار انداز میں کیسے آسکتی ہے۔ معاً محمل کا پردہ اٹھا اور یہ الفاظ میرے کان میں پڑے:

’’ظالم، قاطع رحم تُف ہے تجھ پر، اپنے اہل و عیال کو لے آئے اور مجھ کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔‘‘

بہن کی باتیں سن کر میں سخت شرمندہ ہوا۔ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔ بہن خاموش ہوگئی۔ پھر سواری سے اتر کر جب کچھ دیر آرام کرچکی تو میں نے پوچھا۔ تم ہوشیار اور عاقلہ ہو، صاحبِ قریش سے مل کر تم نے کیا رائے قائم کی؟ بہن نے جواب دیا، جس قدر جلد ہوسکے تم ان سے ملو اگر وہ نبی ہیں تو ان سے ملنے میں سبقت کرنا شرف و سعادت ہے اور اگر بادشاہ ہیں تو بھی یمن کا کوئی فرمانروا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ایک بادشاہ سے ملنے میں سبقت بھی تمہاری قدرو منزلت کا وسیلہ ہوگی۔‘‘

سفانہؓ کے مشورہ کے مطابق حضرت عدیؓ مدینہ پہنچ کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگئے۔ ان کے بعد سفانہؓ بھی سعادت اندوزِ اسلام ہوگئیں۔ سال وفات اور زندگی کے دوسرے حالات معلوم نہیں ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں