حضرت صفیہ بنت حیّ ضی اللہ عنہا

طالب الہاشمی

حضرت صفیہؓ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں او ران کاسلسلۂ نسب یہ ہے:
صفیہ بنت حیی بن الخطب بن سعید بن عامر بن عبید بن خزرع بن ابی حبیب بن ضیر بن نجام بن میخوم۔
زرقانیؒ کا بیان ہے کہ حضرت صفیہؓ کا اصل نام زینب تھا۔حضرت صفیہؓ کا باپ حیی بن اخطب یہودیوں کے نامور قبیلے بنو نضیر کا سردار تھا۔ حیی نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں بے حد معزز و محترم تھا اور تمام قوم اس کی وجاہت کے آگے سر جھکاتی تھی۔
چودہ برس کی عمر میں حضرت صفیہؓ کی شادی ایک مشہور اور نامور شہسوار سلام بن مشکم القرظی سے ہوئی، لیکن دونو ںمیاں بیوی میں بن نہ آئی نتیجتاً سلام بن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس طلاق کے بعد حیی بن اخطب نے اس کا نکاح بنی قریظہ کے ایک مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحقیق سے کردیا۔ وہ خیبر کے رئیس ابورافع کا بھتیجا تھا اور خیبر کے قلعہ القموص کا حاکم تھا۔
اوائل سن ہجری میں نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کی روز روز کی شرارتوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ان کے مرکز خیبر پر چڑھائی کی۔ خیبر مدینہ کے شمال مغرب میں ایک نہایت زرخیز مقام تھا، جہاں یہودیوں نے چند نہایت مضبوط قلعے بنا رکھے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ مدینہ پر قبضہ کرکے اسلام کو اکھاڑ پھینکیں، چنانچہ اس مقصد کے لیے وہ مدت سے لشکر اور آلات حرب و ضرب جمع کررہے تھے۔ اپنی تیاری مکمل کرلینے کے بعد انھوں نے دو اور قبائل بنو غطفان اور بنی اسد کو بھی اس وعدے پر اپنے ساتھ ملالیا کہ مدینہ کی فتح کے بعد نصف نخلستان انھیں دے دیا جائے گا۔
جب نبی کریم ﷺ کو یہودیوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو آپ ﷺنے حضرت سباع بن عرطفہ غفاری کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا اور خود چودہ سو صحابہؓ کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ اسلامی لشکر نے حضور اکرم ﷺ کی زیرِ قیادت نہایت تیزی سے مسافت طے کی اور دن رات سفر کرتے ہوئے ایک دن صبح کے وقت خیبر کے نواح میں پہنچ گئے، انھیں دیکھ کر یہودی ششدر رہ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اتنی جلدی آپہنچیں گے۔ کھلے میدان میں لڑنا انھوںنے مناسب نہ سمجھا اور قلعہ بند ہوکر مسلمانوں پر تیر اور پتھر برسانے لگے۔ مجاہدینِ اسلام نے پامردی سے تیروں اور پتھروں کی بوچھاڑ کا مقابلہ کیا اور جانبازانہ لڑتے ہوئے یہودیوں کے تین قلعوں پر قابض ہوگئے۔ یہیودیوں کا سب سے مضبوط قلعہ القموس تھا۔ کئی دن گزرگئے لیکن سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہ قلعہ فتح نہ ہوا۔ آخر ایک دن حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلا بھیجا۔ وہ آشوبِ چشم کے عارضہ میں مبتلا تھے، لیکن نبی کریم ﷺ کے لعابِ دہن کی برکت اور دعا سے انھیں صحت ہوگئی۔ پھر حضور ﷺ نے حکم دے کر انھیں القموص کی تسخیر پر مامور فرمایا۔ القموص کا دفاع مرحب اور حارث دویہودی سردار کررہے تھے۔ وہ نامور جنگجو تھے اور ان کی قوت اور شجاعت کی زمانے بھر میں دھوم تھی۔ سب سے پہلے حارث حضرت علی ؓ کے سامنے آیا اور فنونِ جنگ میں اپنی بے مثال مہارت کے باوجود ذوالفقار حیدرؓ کا شکار ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بھائی مرحب غضبناک ہوکر حضرت علی ؓ پر جھپٹا، لیکن اس کا حشر بھی اپنے بھائی جیسا ہوا۔ یہودیوں نے بہت جلد ہتھیار پھینک دیے اور عاجزی کے ساتھ صلح کے طالب ہوئے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے ان پر رحم فرمایا کہ اس شرط پر صلح کرلی کہ زمین انھی کے پاس رہے البتہ پیداوار نصف حصہ وہ مسلمانوں کو دیں گے۔
جنگِ خیبر میں ۹۳ یہودی مارے گئے اور ۱۵ مسلمان شہید ہوئے۔ یہ لڑائی یہودیوں کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوئی۔ ان کے کئی نامور بہادر اور سردار اس لڑائی میں مارے گئے۔ حضرت صفیہؓ کے خاندان کے سارے افراد میدانِ جنگ میں کام آئے یا جنگی قیدی بنالیے گئے۔ مقتولوں میںان کے باپ، بھائی اور شوہر بھی تھے اس طرح وہ نہایت قابلِ رحم حالت میں تھیں۔
جنگ کے بعد تمام قیدی اور مالِ غنیمت ایک جگہ جمع کیے گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ صفیہؓ اور ان کے رشتے کی ایک بہن کو پکڑلائے۔ رستے میں یہودی مقتولین کی لاشیں خاک وخون میں لتھڑی پڑی تھیں۔ ان میں حضرت صفیہؓ کے محبوب والد، بھائی اور شوہر کی لاشیں بھی تھیں اور خاندان کے بعض دوسرے بزرگ بھی کٹے پڑے تھے۔ حضرت صفیہؓ نے حسرت سے ان لاشوں پر نظر ڈالی اور چپ کی چپ رہ گئیں۔ البتہ ان کی ساتھی بہن بے قابو ہوگئی اور نہایت شدت سے گریہ زاری اور سینہ کوبی شروع کردی۔ جب حضرت بلالؓ نے انھیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو سرکارِ دوعالم ﷺ اس عورت کی گریہ زاری سے متاثر ہوئے۔ بی بی صفیہؓ تو خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئیں اور اس عورت کو حضور اکرمﷺ نے دوسری طرف لے جانے کا حکم دیا اور پھر بلالؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’بلالؓ تمہارے دل میں رحم نہیں ہے کہ ان عورتوں کو اس راستے سے لائے جہاں ان کے باپ اور بھائی خاک و خون میں لتھڑے پڑے ہیں۔‘‘
جب مالِ غنیمت کی تقسیم ہونے لگی تو حضرت وحیہ کلبیؓ نے حضرت صفیہؓ کو اپنے لیے پسند فرمایا۔ چوں کہ وہ تمام اسیرانِ جنگ میں سب سے زیادہ وقعت کی حامل تھیں اس لیے بعض صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ صفیہؓ بنی قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ ہے۔ خاندانی وقار اس کے بشرے سے عیاں ہے۔ وہ ہمارے سردار (یعنی سرکار دو عالم ﷺ) کے لیے موزوں ہے۔‘‘ حضور اکرمﷺ نے یہ مشورہ قبول فرمالیا۔ وحیہ کلبیؓ کو دوسری لونڈی عطا فرماکر حضرت صفیہؓ کو آزاد کردیا اور انھیں یہ اختیار دیا کہ چاہے وہ اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو آپﷺ کے نکاح میں آجائیں۔
حضرت صفیہؓ نے حضورﷺ کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کے حسبِ منشا حضوراکرم ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا۔ صہبا کے مقام پر رسمِ عروسی ادا کی گئی اور وہیں دعوتِ ولیمہ بھی ہوئی۔ صہبا سے چلتے وقت حضور اکرم ﷺ نے انھیں خود اپنے اونٹ پر سوار فرمایا اور خود اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا۔ حضرت صفیہؓ کی عمر اس وقت سترہ برس تھی۔ اس نکاح کے بعد یہودی پھر مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔
مدینہ پہنچ کر حضرت صفیہؓ کو حضورﷺ نے حضرت حارث بن نعمان انصاری کے مکان پر اتارا۔ ان کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر انصار کی عورتیں اور دوسری ازواج مطہرات انھیں دیکھنے آئیں۔ جب دیکھ کر جانے لگیں تو حضور اکرمﷺ ان کے پیچھے چلے اور حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا: ’’عائشہ تم نے اس کو کیسا پایا؟‘‘جواب دیا: ’’یہودیہ ہے۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’یہ نہ کہو وہ مسلمان ہوگئی اور ا س کا اسلام اچھا او ربہتر ہے۔‘‘
حضرت صفیہؓ کے چہرے پر چند ابھرے ہوئے نشانات تھے۔حضور ﷺ نے ان سے پوچھا یہ کیسے نشانات ہیں۔ حضرت صفیہؓ نے عرض کیا کہ ’’میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا اور میری گود میں آن گرا۔ میں نے یہ خواب اپنے باپ کو سنایا، جس سے وہ سخت غضب ناک ہوا اور اتنے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ چہرے پر اس کی انگلیوں کے نشانات ابھر آئے۔ پھر اس نے کہا: ’’کیا تو ملکہ عرب بننے کے خواب دیکھتی ہے۔‘‘
حضرت صفیہؓ نہایت حلیم الطبع، خلیق، کشادہ دل، سیرچشم اور صابر تھیں۔ جب وہ ام المؤمنینؓ کی حیثیت سے مدینہ تشریف لائیں اور حضرت فاطمۃ الزہرہؓ انھیں دیکھنے آئیں تو انھوں نے اپنے بیش قیمت طلائی جھمکے اپنے کانوں سے اتار کر حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو دے دیے اور ان کی ساتھی خواتین کو بھی کوئی نہ کوئی زیور دیا۔
حضورﷺ انھیں بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک بار سفر میں ازواج ساتھ تھیں۔ اتفاق سے حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیمار ہوگیا، وہ بہت غمگین اور پریشان ہوئیں۔ حضورﷺ نے خود تشریف لاکر ان کی دل جوئی کی اور حضرت زینب بن حجشؓ سے فرمایا: ’’زینب! تم صفیہ کو ایک اونٹ دے دو۔‘‘
حضرت زینبؓ بہت سخی اور بامروت تھیں۔ لیکن نامعلوم کیوں ان کی زبان سے نکل گیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس یہودیہ کو اپنے اونٹ دے دوں۔‘‘
یہ کلمہ رسول کریم ﷺ کو پسند نہ آیا اور آپﷺ نے دو تین ماہ تک حضرت زینبؓ سے کلام تک نہ کیا۔ پھر حضرت عائشہؓ نے بمشکل ان کا قصور معاف کرایا۔ حضرت زینبؓ بن حجش کا بیان ہے کہ’’رسول اللہ ﷺ کی خفگی نے مجھے قریب قریب نا امید کردیا اور میں نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی ایسی بات نہ کہوں گی۔‘‘ قبولِ اسلام کے بعد یہودیت کا طعن حضرت صفیہؓ کے لیے بڑی دل آزاری کا موجب ہوتا تھا، لیکن وہ نہایت صبر وتحمل سے کام لیتی تھیں اور کبھی کسی کو سخت جواب نہ دیتی تھیں۔
ایک بار نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو حضرت صفیہؓ رو رہی تھیں۔ وجہ دریافت کی تو کہا: ’’عائشہؓ اور زینبؓ کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں کیوں کہ بیوی ہونے کے علاوہ ہم حضور ﷺ کی قرابت دار بھی ہیں۔ لیکن تم یہودن ہو۔‘‘ حضورﷺ نے حضرت صفیہؓ کی دلجوئی کے لیے فرمایا: ’’اگر عائشہ اور زینب کہتی ہیںکہ ان کا خاندان نبوت سے تعلق ہے تو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ میرے باپ ہارون اور میرے چچا موسیٰ اور میرے شوہر محمد ﷺ ہیں۔‘‘
حضرت صفیہؓ کو سرورِ عالم ﷺ سے بے حد محبت تھی۔ حضور ﷺ کے مرض الموت میں تمام ازواج مطہرات حضورﷺ کی عیادت کے لیے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تشریف لائیں، حضرت صفیہؓ نے حضورﷺ کو بے چین دیکھا تو فرمایا: ’’یا رسول اللہﷺ کاش آپﷺ کی بیماری مجھے ہوجاتی۔‘‘ دوسری ازواجؓ نے ان کی طرف دیکھا تو حضورﷺ نے فرمایا: ’’اللہ وہ سچی ہے۔‘‘ یعنی ان کا اظہارِ عقیدت نمائشی نہیں بلکہ سچے دل سے وہ یہی چاہتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ میں نے کوئی عورت صفیہ سے اچھا کھانا پکانے والی نہیں دیکھی۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں حضرت صفیہؓ کی ایک لونڈی نے امیر المؤمنین سے شکایت کی کہ ام المؤمنین میں ابھی تک یہودیت کی بو پائی جاتی ہے کیوں کہ وہ اب بھی ہفتہ (سبت) کو اچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں سے دلی لگاؤ رکھتی ہیں۔ حضرت عمرؓ تحقیقِ احوال کے لیے خود ام المؤمنین صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ انھوں نے جواب دیا: ’’جب سے خدا نے مجھے سبت (ہفتہ) کے بدلے جمعہ عنایت فرمایا تو ہفتہ کو دوست کہنے کی ضرورت نہیں رہی، ہاں یہودیوں سے بے شک مجھے لگاؤ ہے کہ وہ میرے قرابت دار ہیں اور مجھے صلۂ رحم کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓ ام المؤمنینؓ کی حق گوئی سے بہت خوش ہوئے اور واپس تشریف لے گئے۔
اس کے بعد حضرت صفیہؓ نے لونڈی کو بلاکر پوچھا: ’’تجھے امیر المؤمنینؓ کے پاس میری شکایت کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘‘ اس نے کہا: ’’مجھے شیطان نے بہکایا تھا۔‘‘
ام المؤمنینؓ نے فرمایا: ’’جا میں نے تجھے راہِ خدا میں آزاد کیا۔‘‘
علم وفضل میں بھی حضرت صفیہؓ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ کوفہ کی عورتیں اکثر ان کے پاس مسائل دریافت کرنے آتی تھیں۔ امام زین العابدینؓ، اسحاق بن عبداللہؓ، یزید بن معبتؓ اور مسلم بن صفوانؓ نے چند احادیث بھی حضرت صفیہؓ کی زبانی بیان کی ہیں۔
حضرت صفیہؓ بے حد دردمند تھیں۔ جب ۳۵؍ہجری میں خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے مکان کا مفسدوں نے محاصرہ کرلیا تو ان کو بہت رنج ہوا۔ ضعیف العمر امیر المؤمنینؓ کی مصیبت نے انھیں بے چین کردیا۔ انھوں نے ایک غلام کو ساتھ لیا اور اپنے خچر پر سوار ہوکر حضرت عثمانؓ کے مکان کی طرف روانہ ہوئیں۔ نخعی نے ان کے غلام کو دیکھ کر پہچان لیا اور آگے بڑھ کر خچر کو مارنا شروع کردیا۔ چوں کہ حالات بگڑے ہوئے تھے، اور اشتر نخعی کے مقابلہ میںکامیابی مشکل تھی، اس لیے وہ مصلحتاً واپس چلی گئیں اور حضرت امام حسنؓ بن علی مرتضیٰ کے ہاتھ حضرت عثمانؓ کو کھانا بھیجا۔
حضرت صفیہؓ نے رمضان المبارک ۵۰؍ ہجری میں ساٹھ سال کی عمرمیں وفات پائی۔ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ انھوں نے اپنا ذاتی مکان اپنی زندگی میں راہِ خدا میں دے دیا تھا۔ البتہ ترکہ میں ایک لاکھ درہم نقد چھوڑے اور اس کے لیے ایک تہائی کی وصیت اپنے یہودی بھانجے کے لیے کی۔ لوگوں نے اس کا حصہ دینے میں تامل کیا۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو کہلا بھیجا: ’’لوگو! اللہ سے ڈرو اور صفیہؓ کی وصیت پوری کرو۔‘‘ ان کے ارشاد کے مطابق وصیت کی تعمیل کردی گئی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146