حضرت ضحاکؓ بن سفیان… سیافِ رسولؐ

طالب ہاشمی

فتحِ مکہ (رمضان ۸؍ہجری) کے چند دن بعد جب سرورِعالم ﷺ مکہ سے حنین کی طرف روانہ ہوئے تو دوسرے قبائل کے علاوہ بنو کلاب کے مردانِ حق کی ایک جماعت بھی حضورﷺ کی خدمت میں اس مقصد کے لیے حاضر ہوئی کہ بنو ہوازن کے سرکشوں کے خلاف لڑائی میں آپؐ کی ہم رکابی کا شرف حاصل کرے۔ جوشِ شجاعت سے سرشاران جنگ اور جفاکش بدویوں کو دیکھ کر رحمتِ عالم ﷺ کے روئے انورپر بشاشت پھیل گئی اور آپؐ نے ان سے پوچھا ’’تمہاری جماعت میں کتنے آدمی ہیں؟‘‘
انھوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ہم ۹ سو ہیں۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں ایک ایسا شہسوار دے دوں جو تمہاری تعداد کو ایک ہزار کے برابر کردے اور تمہاری قیادت بھی کرے۔‘‘
انھوں نے بیک زبان عرض کیا: ’’بسروچشم یا رسول اللہ۔‘‘
حضورﷺ نے ایک شمشیر بدست قوی الجثہ اور وجیہہ صاحب کو آگے بڑھنے کا اشارہ فرمایا۔ انھوں نے فوراً تعمیل ارشاد کی۔
سرورِ عالم ﷺ نے بنو کلاب کا علم امارت انھیں مرحمت فرمایا اور بنوکلاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اب تم پورے ایک ہزار ہو۔ جاؤ اور اپنے امیر کی اطاعت کرو۔‘‘
یہ صاحب جنھیں سید المرسلین فخر موجودات ﷺ نے پورے ایک سو شہسواروں کے برابر قرار دیا۔ حضرت ضحاکؓ بن سفیان تھے، جو تاریخ میں ’’سیافِ رسولؐ اللہ‘‘ (رسول اللہ ﷺ کے شمشیر بردار محافظ) کے لقب سے مشہور ہوئے۔
سیدنا حضرت ضحاکؓ بن سفیان کا شمار اپنے عہد کے نامور بہادروں اور سرورِ عالم ﷺ کے نہایت مخلص جاں نثاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی کنیت بہ اختلافِ روایت ابو سعد یا ابو سعید تھی اور وہ بنو کلاب سے تعلق رکھتے تھے جو مشہدی نجدی قبیلے ’’بنو عام‘‘ کی ایک شاخ تھا۔ نسب نامہ یہ ہے:
ضحاکؓ بن سفیان بن عوف بن کعب بن ابی بکر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ عامری کلابی۔
یہی نسب نامہ سیرت کی تمام کتابوں میں مذکور ہے ،البتہ حافظ ابن عبدالبرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں حضرت ضحاکؓ کے نام کے ساتھ ’’الکلبی‘‘ لکھا ہے۔ جمہور اہلِ سیر کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ وہ بنو کلاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے کلابی تھے۔
بہت سے اہلِ سیر نے تواتر کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ اکثر تلوار اٹھائے حفاظت کی غرض سے رسول اکرم ﷺ کے پاس کھڑے رہتے تھے۔ اسی لیے ’’سیاف رسول اللہؐ‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺ کے شمشیر بردار محافظ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ اور حافظ ابنِ عبدالبرؒ کا بیان ہے کہ ضحاکؓ بن سفیان کا مسکن مدینہ کے نواحی دیہات میں تھا، اس لیے وہ اہلِ مدینہ میں شمار ہوتے ہیں، لیکن جمہور اربابِ سیر نے ان کو مہاجرین میں شامل کیا ہے اور قرین قیاس بھی یہی ہے۔ کیونکہ نجدی قبائل کو مدینہ کے باشندے نہیں قرار دیا جاسکتا۔
حضرت ضحاکؓ زمانہ جاہلیت میں اپنے قبیلہ کے سربرآوردہ اور بہادر لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور شعروشاعری میں بھی درک رکھتے تھے۔ جب وہ سعادت اندوزِ اسلام ہوئے تو سرورِ عالم ﷺ نے انھیں اپنے قبیلے کا امیر اور ایک دوسری روایت کے مطابق عاملِ صدقات مقرر فرمایا۔
اس بات پر سب اہلِ سیر کا اتفاق ہے کہ حضرت ضحاکؓ فتح مکہ سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی نے ان کے قبولِ اسلام کے صحیح زمانے کی صراحت نہیں کی، البتہ واقدی کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سانحہ بیئر معونہ (صفر ۴ھ) سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے اور حضورﷺ نے انھیں بنو کلاب کے صدقات وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی یا انھیں بنو کلاب کا عامل (محصل) صدقات مقرر فرمایا تھا۔
باختلافِ روایت سانحہ بیئر معونہ میں بنو عامر کے سردار عامر بن طفیل کی غداری کی وجہ سے ۳۹ یا ۶۹ صحابہ کرامؓ کو مشرکینِ نجد کے ہاتھوں جامِ شہادت پینا پڑا تھا۔ ان صحابہ (قراء) کو حضور نے ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر کلابی کی درخواست پر بنوعامر میں تبلیغ اسلام کے لیے بھیجا تھا۔ عامر بن طفیل نے قبائل رعل و ذکوان وغیرہ کی مدد سے ایک (حضرت عمروؓ بن امیہ ضنمری) کے سوا ان سب کو نہایت بے دردی سے شہید کرڈالا۔ شہداء میں حضرت عامرؓ بن فہیرہ بھی شامل تھے۔ انھیں ان کے قاتل جبار بن سلمیٰ کلابی نے نیزہ مارا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا: (خدا کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔)
حضرت ضحاکؓ بن سفیان اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ جبار اپنے قبیلہ (بنو کلاب) میں واپس گیا اور حضرت ضحاکؓ کو یہ واقعہ سنایا تو انھیں بے حد صدمہ ہوا، جبار نے ان سے پوچھا کہ ’’فزت واللّٰہ‘‘ سے مقتول کی کیا مراد تھی؟حضرت ضحاکؓ نے اسے بتایا کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اگر وہ اللہ کے راستے میں مارا جائے تو جنت میں جاتا ہے۔ عامر بن فہیرہؓ نے شہادت سے پہلے یہ الفاظ کہہ کر اپنے اس یقین اور ایمان کا اظہار کیا کہ اللہ نے انھیں جنت عطا کی اور اس طرح وہ اپنے مقصد زندگی میں کامیاب ہوگئے۔ جبار حضرت ضحاکؓ کی باتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
حضرت ضحاکؓ نے سانحہ بیئر معونہ، حضرت عامرؓ بن فہیرہ کی شہادت اور جبار بن سلمیٰ کے قبولِ اسلام کے حالات تفصیل کے ساتھ سرورِ عالم ﷺ کی خدمت میں لکھ بھیجے۔ علامہ ابن اثیر کا بیان ہے کہ حضورﷺ کو اس واقعہ کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپؐ چالیں دن تک صبح کی نماز کے بعد غدار قاتلوں کے لیے بددعا کرتے رہے۔
حضرت ضحاکؓ بن سفیان نے کن کن غزوات وسرایا میں شرکت کی؟ اہلِ سیر نے اس کی صراحت نہیں کی اور صرف تین چار غزوات وسرایا کے سلسلے میں ان کا نام خصوصیت سے لیا ہے۔ چونکہ حضرت ضحاکؓ کی شجاعت اور بہادری سب کے نزدیک مسلم ہے، اس لیے قیاس ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد وہ کسی غزوے میں پیچھے نہیں رہے ہوں گے۔ مورخ واقدی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سرورِ عالم ﷺ نے بنو قرطاء (قرط یا قریط) کے خلاف ایک مہم روانہ فرمائی تو اس کی قیادت پر حضرت ضحاکؓ بن سفیان کو مامور فرمایا۔ یہ قبیلہ بنو بکر کی ایک شاخ تھا اور اس نے سرکشی پر کمر باندھی تھی۔ حضرت ضحاکؓ نے ان کو قرار واقعی سزا دی اور مظفر و منصور مدینہ منورہ کو معاودت کی۔
حافظ ابن عبدالبرؒ اور کئی دوسرے اہلِ سیر نے لکھا ہے کہ غزوئہ حنین میں بنو سلیم کے مجاہدین کی کمان حضرت ضحاکؓ کے سپرد تھی اور یہ بنو سلیم ہی تھے جن کا علم حضرت ضحاکؓ کو دیتے وقت حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ تمہاری (نوسوکی) تعداد کو ایک ہزار کے برابر کردیں گے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ فتحِ مکہ سے قبل اس وقت پیش آیا، جب بنو سلیم قدید کے مقام پر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اسلامی لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حافظ ابن حجرؒ اور علامہ بلاذری ؒ کا بیان ہے کہ جعرانہ سے واپسی پر رسول اکرم ﷺ نے ضحاکؓ بن سفیان کو بنو کلاب سے زکوٰۃ وصول کرنے کی خدمت سپرد فرمائی۔ اگر واقدی کی اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے کہ حضرت ضحاکؓ ۴؍ہجری میں بھی حضورؐ کی طرف سے بنوکلاب کے عامل مقرر کیے گئے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کچھ مدت بعد حضرت ضحاکؓ اس عہدے سے سبکدوش ہوکر حضورﷺ کے پاس مدینہ منورہ آگئے ہوں گے اور ۸؍ہجری میں غزوئہ حنین کے بعد ان کا اس عہدہ پر دوبارہ تقرر ہوا ہوگا۔
ربیع الاول ۹؍ہجری میں سرورِ عالمﷺ نے خود حضرت ضحاکؓ کے قبیلے بنو کلاب کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی، جس کا مقصد بنو کلاب کے مشرکین کی تادیب کرنا اور ان کو تعلیم دینا تھا۔ حضورﷺ نے اس مہم کا قائد حضرت ضحاکؓ بن سفیان ہی کو بنایا اور یہ مہم انہی کے نام پر ’’سریہ ضحاکؓ بن سفیان کلابی‘‘ سے مشہور ہوئی۔ (بعض نے اسے سریہ بنو کلاب بھی لکھا ہے) مشرکین بنو کلاب نے مسلمانوں کی مزاحمت کی لیکن جلد ہی مغلوب ہوگئے۔
۱۱؍ہجری میں سرورِ عالم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ مسندِ خلافت پر بیٹھے تو سارے عرب میں فتنۂ ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قبیلہ بنو سلیم بھی ارتداد کی لپیٹ میں آگیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کی سرکوبی کے لیے حضرت ضحاکؓ بن سفیان کو روانہ کیا۔ علامہ خیرالدین الزرکلی نے ’’الاعلام‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت ضحاکؓ بن سفیان نے بنو سلیم کے کثیر التعداد مرتدین کے خلاف بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی، لیکن حضرت ضحاکؓ کا خون شہادت رائیگاں نہیں گیا۔ طلیحہ بن خویلد اسدی کی شکست کے بعد بنو سلیم اور ان کے حواریوں کے حوصلے پست ہوگئے اور ان میں سے بیشتر نے حضرت خالدؓ بن ولید کے ہاتھ پر دوبارہ اسلام قبول کرلیا، البتہ جن لوگوں نے ارتداد کی حالت میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے، وہ گرفتار کرکے قتل کیے گئے۔ حضرت ضحاکؓ کی ازواج و اولاد کے بارے میں کتبِ سیر خاموش ہیں۔
حضرت ضحاکؓ بن سفیان بنیادی طور پر ایک سپاہی آدمی تھے۔ اس لیے انھیں حدیث بیان کرنے کا موقع بہت کم ملا۔ ان سے صرف چار حدیثیں مروی ہیں اور رواۃ میں حضرت خواجہ حسن بصریؒ اور سعید بن المسیبؒ جیسے جلیل القدر بزرگ شامل ہیں۔
حافظ ابنِ عبدالبرؒ نے الاستیعاب میں لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ، حضرت ضحاکؓ کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ اس کے ثبوت میں انھوں نے یہ واقعہ پیش کیا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ مقتول کی دیت میں بیوی کو حصہ دینے کے حق میں نہیں تھے، لیکن حضرت ضحاکؓ نے انھیں بتایا کہ میں جس قبیلے کا عامل تھا، اس کا ایک شخص اشیم الضبابی غلطی سے قتل ہوگیا تھا، رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے مجھے تحریری حکم بھیجا تھا کہ اشیم مقتول کی دیت میں سے اس کی بیوی کو بھی حصہ دیا جائے۔ چنانچہ میں نے اسی کے مطابق عمل کیا تھا۔ حضرت ضحاکؓ کی اس شہادت پر حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی رائے تبدیل کرلی۔ اگر یہ واقعہ حضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں پیش آیا ہے تو الزرکلی کی یہ روایت مشتبہ ٹھہرتی ہے کہ حضرت ضحاکؓ نے فتنۂ رد ہ میں شہادت پائی۔ اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ضحاکؓ نے کب وفات پائی؟ اس کا جواب سیرت اور تاریخ کی کسی کتاب سے نہیں ملتا۔
حضرت ضحاکؓ کو سرورِ عالم ﷺ سے غایت درجہ محبت تھی۔ علامہ بلاذریؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے حضورﷺ کی خدمت میں ایک شیر دار اونٹنی ہدیتاً پیش کی جو کثرتِ دودھ کے لیے مشہور تھی۔ حضرت ضحاکؓ ذات رسالت مآب ﷺ کی حفاظت و صیانت کو اپنے لیے باعثِ افتخار جانتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے کئی موقعوں پر حضورؐ کے پیچھے کھڑے ہوکر آپؐ کی حفاظت کی خدمت انجام دی۔ اس وقت شمشیر برہنہ ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ حافظ ابن عبدالبرؒ کہتے ہیں کہ اسی خدمت کے صلے میں انھیں بارگاہِ رسالت سے ’’سیاف ِ رسول‘‘ کا خطاب مرحمت ہوا اور اس خطاب میں کوئی دوسرا ان کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ ان کی بہادری و شہسواری کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خود سرورِ کونین ﷺ انھیں ایک سو شہسواروں کے برابر سمجھتے تھے اور اس کا برملا اظہار فرماتے تھے۔
——

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146