عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل — حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا کی بیٹی، اور حضرت سعید بن زید (جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں) کی بہن ہیں۔ اُن کے والدزید بن عمرو جو حضرت عمرؓ کے چچا ہیں، زمانہ جاہلیت کے ان اہلِ بصیرت لوگوں میں تھے جو بتوں کی خدائی کے منکر تھے۔ بتوں کے لیے جو قربانی کی جاتی، اس کو اپنے لیے حرام جانتے تھے۔ اور ملتِ ابراہیمی کے پیرو تھے یعنی خدائے واحد کی عبادت کرتے تھے، جس طرح ورقہ بن نوفل تھے۔ فرق اتنا تھا کہ ورقہ بن نوفل نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور اسی پر اُن کی وفات ہوئی۔ اس زمانے میں سورہ اقرأ نازل ہوئی تھی اور سورہ مدثر نازل نہیں ہوئی تھی۔ اگر وہ زندہ رہ جاتے توشاید ضرور ایمان لے آتے۔ کیونکہ اقرأ کے نزول کے وحیِ الٰہی ہونے کی تصدیق وہ کرچکے تھے۔ مگر زید نہ تو نصرانی ہوئے نہ یہودی وہ ملتِ ابراہیمی پر اللہ کی عبادت کرتے رہے اور آنحضرت ﷺ کو نبوت عطا ہونے سے پہلے وفات پاگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے نجات یافتہ ہونے کی بشارت دی ہے۔ اُن کی بیٹی عاتکہ ؓ نبی کریم ﷺ پر ایمان لائیں۔ بیعت بھی کی اور ہجرت بھی۔ ان کا شمار مسلمان مومن مہاجروں میں ہے۔ وہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ انھیں بہت چاہتی تھیں اور وہ ان کو بہت چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے مال کا ایک حصہ یعنی کچھ زمین ان کو عطا کردی تھی تاکہ ان کے بعد وہ کسی کی دست نگر نہ ہوں اور دوسری شادی نہ کریں۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ طائف کی لڑائی میں تیر سے گھائل ہوئے اور شہید ہوگئے۔ حضرت عاتکہؓ دنیا سے قطع تعلق کرکے اللہ کی یاد میں مصروف ہوگئیں اور پکا عہد کرلیا کہ وہ شادی نہیں کریں گی لوگ شادی کے پیغامات لے کر آتے تو وہ منع کردیتیں ، وہ جو عہد کرچکی تھیں، اسے پورا کرنے پر قائم رہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے نکاح کرنا چاہا۔ وہ ان کے چچا کے بیٹے بھی تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کے ولی سے جو شاید ان کے بھائی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ تھے، کہا کہ میرا ذکر ان سے کیجیے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عاتکہؓ سے ان کی بات کا ذکر کیا تو حضرت عاتکہ نے حضرت عمرؓ سے بھی انکار کیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم بہ حیثیت ولی کے ان کا نکاح میرے ساتھ کردو۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ بات کیونکر تکمیل کو پہنچی۔ کیونکہ وہ اپنے نفس کی خود مالک تھیں۔ غالباً اس قصے میں کچھ خاص اسباب کا دخل ہے۔ اور یہ مسئلہ فقہی استنباط کا ہے، جو فقہاء نے اختیار کیا۔ ہمیں ان دلائل کا پورا علم نہیں۔ ان کے ولی نے نکاح میں دینا قبول کرلیا اور ان کا نکاح حضرت عمرؓ کے ساتھ کردیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ اُن کے پاس آئے اور انھیں بہ اصرار باور کرایا کہ وہ ان کی بیوی بن گئی ہیں۔ اور وہ ان کے لیے حلال اور جائز بیوی ہیں۔ اس کے بعد وہ اُن کے پاس سے چلے آئے اور انھیں تنہا چھوڑ دیا اور لوٹ کر نہیں آئے۔ حضرت عاتکہؓ نے اپنی لونڈی کو ان کے پاس بھیجا یہ کہنے کے لیے کہ آپ آئیے۔ کیونکہ اب میں نے خود کو آپ کی بیوی کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہے۔ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا تو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے (یعنی ان کے پہلے شوہر حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق ؓ کی بہن نے) پیغام بھیجا کہ اب ہماری زمین ہم کو لوٹا دیجیے اور اس واقعہ میں طرفہ تر بات یہ ہے کہ حضرت عاتکہؓ نے حضرت عبداللہ بن ابوبکر کی وفات پر یہ شعر کہا تھا:
ولیت لا تنفک نفسی حزینۃ
علیک ولا ینفک جلدی اغبرا
یعنی میں نے قسم کھائی ہے کہ میرا دل ہمیشہ تیرے لیے غمزدہ رہے گا اور میرا جسم غبار آلود رہا کرے گا۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شعر کو دوسرے انداز سے ترمیم کرکے ان کو بھیج دیا نفسی حزینۃ کی بجائے عینی قریرۃ (یعنی میری آنکھ ٹھنڈی رہے گی) اور اغبرا کی جگہ اصفر (یعنی زرد) کردیا ور کہلا بھیجا کہ ہماری زمین ہمیں واپس کردیجیے۔
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ربیعہ بن امیہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب حضرت ابوبکر خلیفہ تھے۔ انھوں نے حضرت عمر سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے وفات پائی اور آپ ان کے بعد خلیفہ ہوگئے ہیں۔ اور آپ نے ان خاتون کے پاس جو دنیا سے قطع تعلق کرکے عزلت گزیں ہیں کسی کو بھیجا ہے اور پھر ان سے شادی کرلی۔
پھر میں نے یہ دیکھا کہ آپ کے پاس آیا ہوں اورآپ اپنی ان بیوی کے پاس ہیں تو میں نے مکان کے دروازے پر کان کا بندہ پڑا دیکھا ہے۔ ان کا یہ خواب سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا تمہارے منھ میں خاک ۔ انھیں (حضرت ابوبکر کو) اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور ہمیں ان کے بدلے موت دے دے۔ رہا ان خاتون سے شادی کرنا تو ان تک پہنچنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔‘‘
مگر یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے بعد خلافت کا کام سپرد ہوا اور پھر آپ نے کسی کو حضرت عاتکہ کے پاس بھیجا اور جو کچھ کہلوایا اس میں یہ بات بھی تھی کہ تم نے اپنے اوپر ایسی چیز حرام کرلی ہے جس کو اللہ نے حلال کیا ہے۔ لہٰذا تم مال کو واپس کردو اور نکاح کرلو۔
ربیعہ بن امیہ کے علم میں جب یہ آیا کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عاتکہؓ کو اپنی زوجیت میں لے لیا تو وہ حضرت عمرؓ سے ملنے آئے اور ملاقات کی اجازت مانگی۔اس وقت آپ حضرت عاتکہؓ کے پاس ہی تھے۔ حضرت ربیعہ کا خواب حضرت عمرؓ کو یاد آگیا۔ انھوں نے دل میں کہا: اے اللہ ان کو ہمارے اوپر ہنسنے اور مسرور ہونے کا موقع نہ عطا کر۔ پھر آپ نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ حضرت ربیعہ سب طرف غور سے دیکھتے ہوئے اندر داخل ہوئے تو انھیں دروازہ پر بندے کا آویزہ نظر آیا۔ ربیعہ کی آنکھوںمیں چمک آگئی کیونکہ ان کا خواب سچا نکلا۔
حضرت عاتکہؓ کو حضرت عمرؓ سے بھی بہت محبت تھی کہ وہ آپ کے سر کو بوسہ دیتی تھیں اور آپ روزے سے ہوتے تھے۔ آپ انھیں منع نہیں کرتے تھے۔ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ مسجدجاتی تھیں تو حضرت عمرؓ سے اجازت مانگتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ تم جانتی ہو میں تمہارا گھرمیں رہنا پسند کرتا ہوں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ میں آپ سے اجازت لینا نہیں چھوڑوں گی۔ پھر جب وہ اجازت مانگتیں تو حضرت عمرؓ انھیں روکتے نہ تھے۔ وہ مسجد میں ہوتی تھیں اور حضرت عمرؓ چلے آتے تھے۔ وہ ان کی ایسی بیوی تھیں جن کے لیے رات کے ابتدائی حصے میں جب اندھیرا چھایا ہوا ہوتاتھا وہ بیٹھے رہتے تھے اور جب وہ مسجد سے نکلتی تھیں تو ایک اجنبی مسافر کی طرح ساتھ ہوتے تھے۔