عطاء بن ابی رباحؒ بچپن میں مکہ میں ایک عورت کے غلام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حبشی غلام کو عزت اور شرف عطا کیا کہ بچپن ہی سے علم کا شوق ان کے دل میں پیدا کردیا۔
عطاء بن ابی رباحؒ نے اپنے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ ایک حصہ اپنے آقا کی خدمت کے لیے جس میں وہ اس کی خدمت بہتر سے بہتر انداز میں کیا کرتے تھے۔ اور ایک حصہ اپنے پروردگار کے لیے جس میں وہ ذہنی یکسوئی اور مکمل اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ ایک حصہ طلبِ علم کے لیےمقرر کیا تھا کہ اس وقت میں وہ حضورؐ کے موجود صحابہ کرامؓکی خدمت میں حاضر ہوکر علم حاصل کرتے۔
جب ان کی مالکہ نے دیکھا کہ ان کے غلام نے اپنی جان اللہ تعالیٰ کو بیچ دی ہے اور اپنی زندگی طلبِ علم کے لیے وقف کردی ہے تو اپنا حق خدمت معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو آزاد کردیا۔
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ نے مسجد حرام کو اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ مسجدِ حرام ہی ان کا گھر تھا، یہی ان کا مدرسہ۔یہاں تک کہ بیس سال تک مسجد حرام ہی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کا مسکن رہا۔
محمد بن سوقہ جو کہ کوفہ کے اکابر علماء اور نیک لوگوں میں سے تھے، ایک مرتبہ اپنی زیارت کے لیے آنے والوں سے فرمانے لگے: کیا میں آپ کو ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو آپ کو بھی فائدہ پہنچادے جیسے مجھے اس بات سے فائدہ پہنچا ہے؟ ان لوگوں نے کہا آپ ضرور بتائیے۔ فرمایا: ’’ایک دن عطاء بن ابی رباحؒ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں وہ فضول باتوں سے اجتناب کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کن باتوں کو فضول سمجھتے تھے؟ اس پر انھوں نے پانچ باتیں بتائیں۔ (۱) قرآن کریم جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس کو پڑھا جائے اور اس کو سمجھا جائے۔ (۲) رسول اکرم ؐ کی احادیث مبارکہ کی روایت کی جائے اور ان کو سیکھا جائے۔ (۳) ہر اچھائی اور بھلائی کی طرف لوگوں کو بلایا جائے اور برائی سے روکا جائے۔ (۴) ایسا علم حاصل کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہو۔ (۵) اپنی حاجت اور ضرورت کے مطابق بات کی جائے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔‘‘
ان پانچ باتوں کے علاوہ باقی تمام باتیں اور تمام کام ان کے نزدیک ناپسندیدہ اور فضول تھے۔
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کے علم سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مختلف جماعتوں اور طبقوں کو نفع پہنچایا۔ ان میں اہلِ علم یعنی علماء کا مخصوص طبقہ بھی ہے۔ کام گار اور کاروباری لوگ بھی ہیں اور ان کے علاوہ عام لوگوں نے بھی ان کے علم سے فائدہ اٹھایا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ مناسک حج کے پانچ مسائل میں مجھ سے غلطی ہوئی جو مجھے مکہ مکرمہ کے ایک حجام نے بتلا دئیے۔ وہ ایسے کہ میں نے سرمنڈانے کا ارادہ کیا کہ احرام سے نکل جاؤں تو میں ایک نائی کے پاس آیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ کتنے میں میرے بال کاٹ دوگے؟ تو اس نے کہا: (۱) اللہ آپ کو ہدایت دے عبادت میں اجرت کی شرط نہیں لگائی جاتی۔ (۲) قبلہ سے رخ دوسری طرف موڑ کر بیٹھ گیا تو اس حجام نے مجھے اشارہ کیا کہ میں قبلہ رخ کروں تو میں نے ایسا ہی کیا۔ (۳) پھر میں نے بائیں طرف سے سر آگے بڑھایا کہ وہ حلق کرے تو اس نے کہا کہ دایاں حصہ ادھر کرو تو میں نے دایاں بازو اس کی طرف کرلیا۔ (۴) اس نے مجھے کہا آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ تکبیر پرھتے رہیے! میں نے تکبیر کہنی شروع کی یہاں تک کہ جب فارغ ہوکر میں اٹھا اور جانے لگا تو اس نے کہا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اپنے سامان اور مکان کی طرف جارہا ہوں (۵) اس نے کہا پہلے دو رکعت نماز پڑھیے ! پھر جہاں جانا چاہیں جائیں۔
میں نے دو رکعتیں پڑھیں اور اپنے دل میں کہا حجام تو ایسا ہی ہونا چاہیے جو عالم بھی ہو۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: آپ نے جو مسائل مجھے بتائے یہ آپ نے کہاں سے سیکھے؟ وہ کہنے لگا: میں نے حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو ایسا ہی کرتے دیکھا اور ان سے سیکھ لیے اور اب میں لوگوں کو اسی طرح بتاتا ہوں۔
دنیا سے دوری اور بے رغبتی
دنیا کی دولت اور جاہ و مال تو حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کی طرف کھنچی کھنچی چلی آئی لیکن انھوں نے ہمیشہ اس سے دوری اختیار فرمائی اور اس کو قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا اور اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی میں گزار دی۔ ان کا لباس معمولی اور کھانا پینا انتہائی سادہ ہوتا۔
قوتِ حافظہ کے لیے ان کی نصیحتیں:
(1) گناہوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔
(2) والدین اور اساتذہ کی دعائیں لی جائیں۔
(3) جو سیکھا ہے وہ دوسروں کو سکھایا جائے۔
(4) بادام اور شہد کا استعمال کیا جائے۔
(5) انسان عشاء کے بعد جلدی سوجائے، فجر سے پہلے اٹھ کر مطالعہ کرے۔
(6) کھانا آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھائے۔
(7) گندگی اور بدبو سے دور رہے۔ اپنا کمرہ، بیت الخلاء، باورچی خانہ، بستر، کتابیں صاف ستھری رکھے اور خوشبو استعمال کرے۔
(8) ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنے کے لیے دینی مجالس میں جائے۔
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کے حالات پر نظر ڈالنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ دو عادتیں ایسی ہیں جن کے اختیار کرنے سے انسان مراتب کمال کو پہنچتا ہے۔ اور اختیار نہ کرنے سے بڑے بڑے باکمال لوگ ضائع ہوجاتے ہیں۔ وہ دو عادتیں یہ ہیں:
(1) اپنے نفس پر قابو، یعنی نفس کو غیر ضروری لذتوں، خواہشوں سے بچائے رکھنا۔
(2) اپنے وقت کی حفاظت یعنی اپنا قیمتی وقت فضول باتوں اور بے کار میں ضائع نہ کرنا۔
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ نے ہمت کرکے اپنے آپ کو ان دونوں مبارک خصلتوں کا عادی بنالیا تھا جن کی بناء پر وہ اتنے بڑے عالم اور فقیہ بنے۔
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو اللہ تعالیٰ نے بابرکت عمر نصیب فرمائی جو ایک سو سال تک پہنچی اور ان کی تمام عمر علم و عمل، نیکی اور پرہیزگاری سے بھرپورتھی اور انھوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی محبت کی وجہ سے پاک و صاف بنا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو دنیا کے مال و اسباب کے اعتبار سے تو وہ بہت ہلکے تھے، لیکن اعمالِ آخرت کا بہت بڑا توشہ اپنے لیے تیار کرچکے تھے۔ وہ اللہ کی ناراضگی اور جہنم کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ تاریخ نے دیکھا کہ ایک غلام محض اپنے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر وقت کا امام بنا اور تاریخ کے صفحات پر ایسا درج ہوا کہ اس کی ذات رہتی دنیا تک کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن گئی۔
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/6662/
https://hijabislami.in/5328/