حضرت فاطمہ زہراؓ شہنشاہِ کونین کے سایۂ عاطفت کی پرورش یافتہ ان کی عزیزترین لاڈلی اور چہیتی بیٹی تھیں۔ آنحضرت ﷺ آپ سے بے حد پیار فرماتے اور بڑی محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ جب کبھی سفر فرماتے تو سب سے ملنے کے بعد آخر میں بہ نفس نفیس آپ کے پاس تشریف لے جاتے اور واپسی پر سب سے پہلے آپ ہی باریاب خدمت ہوتیں۔ جب آپ خدمت نبوی میں تشریف لاتیں تو نبی ﷺ کھڑے ہوکر انتہائی شفقت و مہربانی سے نوازتے۔ پدرانہ محبت بھرے لہجہ میں مزاج پرسی فرماتے، اور بڑی شفقت اور پیار سے اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ ان کی ہر خوشی کو اپنی خوشی اور ہر تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس فرماتے، ہر عالم میں ہمہ وقت ان کی دلجوئی اور دلدہی فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:
’’فاطمہؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جو اس کو ناراض کرے گا، مجھ کو ناراض کرے گا۔‘‘
آپ کے مرتبہ اور بلند درجہ کااندازہ اس حدیث سے کیجیے اور دیکھئے کہ آپ کا مقام رسول اللہ ﷺ کی نظر میں کیا ہے:
’’تمہاری تقلید کے لیے تمام دنیا کی عورتوں میں مریمؓ، خدیجہؓ، فاطمہؓ اور آسیہؓ کافی ہیں۔‘‘ (ترمذی کتاب المناقب)
باوجو امتیازی منصب و اقتدار، خصوصی عظمت و وقار اور نہایت عزت و افتخار کے بے نفسی، سادگی، منکسر المزاجی، فرض شناسی، فرمانبرداری اور خدمت گذاری کا عالم تھا کہ گھر کے تمام کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتیں۔ چکی پیستے پیستے، کپڑے دھوتے دھوتے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے، مشک بھر بھر کر پانی لایا کرتیں، جس سے سینہ پر گٹھے اور داغ پڑ گئے تھے، کھانا پکایا کرتیں، جھاڑو دیتیں، جس سے کپڑے دھوئیں میں کالے ہوکر میلے ہوجاتے تھے۔ بچوں کی صحت، تعلیم و تربیت اور شوہر کے آرام کا سامان مہیا کرتیں۔ آپ کی خانگی زندگی بڑی مصروف زندگی تھی۔ جب زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی، تو ایک مرتبہ آنحضرتؐ کی خدمت میں ایک خادمہ حاصل کرنے کی غرض سے تشریف لے گئیں، مگر وہاں مجمع ہونے کی وجہ سے کچھ کہتے ہوئے شرم محسوس کی، دوسرے دن آقائے دو عالم ﷺ ان کے مکان پر خود تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا:’’فاطمہؓ تم کل کس کام کے لیے میرے پاس گئی تھیں۔‘‘
وہ شرم و حیا کی پیکر، خودد اری کا مجسمہ تھیں، زبان سے کچھ نہ کہہ سکیں، ہاتھوں کے چھالے دکھاتے ہوئے عرض کیا: ’’بابا جان کپڑے دھوتے دھوتے اور چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے اور پانی بھرتے بھرتے سینہ میں گٹھے پڑگئے ہیں، گھر کا کام کرنے، کھانا پکانے، جھاڑو دینے کی وجہ سے کپڑے ہر وقت میلے رہتے ہیں۔ ایک خادمہ اگر کام کرنے کے لیے عنایت ہوجائے، تو میری دشواریاں آسانیوں اور پریشانیاں سکون میں تبدیل ہوجائیں۔‘‘
ارشاد ہوا: ’’بیٹی بدر کے یتیم اور مصیبت زدہ پہلے اس کے مستحق ہیں۔ بیٹی صبر کرو، توکل سے کام لو، تقویٰ حاصل کرو، اللہ سے ڈرو، اپنے پروردگار کا فریضہ ادا کرتی رہو، اور بخوشی خاطر گھر کے کام انجام دیتی رہو۔ اے فاطمہؓ ! اب تک صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہوا۔ تو تمہاری درخواست کیسے پوری ہو۔ بدر کے یتیم اور مصیبت زدہ پہلے مستحق ہیں۔‘‘
ان روح نواز اور حیات آفریں الفاظ ’’خدا کی قسم میں اللہ کے رسولؐ سے راضی ہوں‘‘ کے بلیغ اور معنی خیز جملے سے بخندہ پیشانی خیر مقدم کیا اور پھر اس قسم کا تذکرہ زبان پیکر صبروتسلیم کے لب پر نہ آیا اور تاحیات بدستور گھر کے تمام کام انجام دیتی رہیں۔ کاش بی بی بتولؓ کی ان روشن ترین اور کامیاب عفت و عصمت مآب زندگی سے ہماری قوم کی بہنیں اور بیٹیاں کائناتِ ہست و بود میں جو روح معاشرہ کی حیثیت رکھتی ہیں، اس بلند کردار، نورانی زندگی کے چراغ سے اپنے چراغِ حیات کو روشن کرکے حیاتِ آفرین اجالے میں جادئہ حیات طے کریں اور اپنے فرائض اور مقام کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کے دماغوں کو صحیح اسلامی سانچے میں ڈھالیں۔ تو قرونِ اولیٰ کی مانند دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا پست ماحول اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو واگذار کرکے جلد حیرت انگیز مقام حاصل کرلے گا۔