حضور اکرم ﷺ نے جب مدینے کی سنگلاخ سرزمین میں تعلیم کی تحریک کا آغاز کیا تو مسلم خواتین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضورﷺ کی موجودگی اور صحابہؓ کے دور میں مسلمانوں کا معاشرہ مروجہ تعلیمی معیار کے مطابق سو فی صد تعلیم یافتہ معاشرہ بن چکا تھا۔ خواتین بیک وقت معلّمات بھی تھیں اور مبلغات بھی! گھر کا انتظام بھی سنبھالتی تھیں اور بچوں کی تربیت بھی کرتی تھیں، اپنے وقت کے سیاسی اور سماجی حالات سے باخبر بھی رہتی تھیں اور اسلام کی عائد کردہ پابندیوں کی حدودمیں رہ کر تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں دلچسپی بھی لیتی تھیں۔ صدیوں تک مسلمان خواتین نے اپنے گھروں کے اندر تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھااور صدیوں تک مسلمان معاشرہ کو تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی انحطاط کی پستیوں میں گرنے سے بچائے رکھا۔
مسلمان خواتین کی انہی گراں قدر خدمات کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کا خاندانی اور معاشرتی نظام کئی صدیوں تک بگاڑ سے محفوظ رہا۔ مسلمانوں نے تاریخ میں اپنی سیاسی بدبختی کے کئی عبرت ناک مناظر دیکھے ہیںلیکن تاریخ میں ایک ہزار سال تک انھوں نے کسی بھی دور میں اپنے معاشرتی بگاڑ، خاندانی انہدام، اخلاقی بے راہ روی، فحاشی و عریانی کے وہ مناظر نہیں دیکھے جو انھیں آج کے ترقی یافتہ دور میں دیکھنے نصیب ہوئے ہیں۔ معاشرتی استحکام کا یہ کریڈٹ یقینا ان مسلمان ماؤں کو جاتا ہے جن کی گود میں سید عبدالقادر جیلانیؒ، معین الدین چشتی اجمیریؒ، مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ جیسی جلیل القدر ہستیوں نے پرورش پائی۔ سید عبدالقادر جیلانی بعد میں جو کچھ ہوئے اس کے ابتدائی رنگ انھیں اپنی والدہ کی پاکیزہ گود ہی میں نصیب ہوئے تھے۔
نبیﷺ نے مدینہ پہنچنے کے بعد زبردست تحریک چلائی کہ مسلم معاشرہ کو تعلیم یافتہ کیاجائے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب لکھنے پڑھنے والے لوگ اس معاشرے میں انگلیوں پر گنے جاتے تھے۔ آپ نے مختلف قبائل کو لکھنا پڑھنا سیکھنے کی تلقین فرمائی۔ اور نہ صرف تلقین و ہدایت جاری کی بلکہ اس بات پر بھی نظر رکھی کہ ان کوششوں کے نتائج آرہے ہیں یا نہیں۔ آپ نے محسوس کیا کہ مدینہ کے قریب کا ایک مسلم قبیلہ اس تعلیمی مہم میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے تو آپ نے زبردست ڈانٹ پلائی اور اس قبیلے کا نام لیے بنا آپ نے کہا کہ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ لوگ علم حاصل کرنے میں کوتاہی سے کام لے رہے ہیں۔ میں انہیں ضرور سزا دوںگا۔ پھر آپ نے انہیں، ایک مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلاں وقت تک یہ کام مکمل کرلیں۔
جنگ بدر میں جو کفار و مشرکین قید ہوئے ان میں کچھ کے رشتے دار اور ملنے جلنے والے انہیں چھڑا کر لے گئے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنھیں چھڑانے کوئی نہ آیا۔ آپ نے پوچھا کہ تم میں کون لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کئی لوگ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے جو لوگ لکھناپڑھنا جانتے ہیں وہ مدینہ کے اتنے اتنے افراد کو لکھنا پڑھنا سکھادیں تو وہ آزاد کردئیے جائیں گے۔ یہ تھی نبیؐ کی حیرت انگیزتوجہ جو انھوں نے عرب کے جاہل وناخواندہ ماحول میںلکھنے پڑھنے کی تعلیم پر صرف کی۔
قارئین غور فرمائیں کہ جن لوگوں کو معلم و مدرس قرار دیا گیا وہ دشمن اسلام اور فکر کے اعتبار سے مشرک تھے مگر ان سے بھی علم سیکھنے کی نہ صرف تلقین کی گئی بلکہ باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ ایسا اس وجہ سے تھا کہ آپ کی نظر میں تعلیم یافتہ معاشرے کی اہمیت واضح تھی۔چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’حکمت مومن کا گم شدہ سامان ہے، جہاں کہیں بھی وہ ملے مومن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔‘‘ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حکمت اور علم کا رشتہ کیا ہے۔ جبکہ بعض علماء نے لکھا ہے حکمت کا مطلب یہاں ہرقسم کی اچھائی اور خیر ہے۔
جب معاملہ خواتین کی تعلیم کا آتا ہے تو اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ آپ ایک لڑکے کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں تو صرف ایک مرد تعلیم یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک لڑکی کو تعلیم دیتے ہیں تو پوری نسل تعلیم یافتہ ہوجاتی ہے۔ جی ہاں شیخ عبدالقادر ، شاہ ولی اللہ اور محمد علی شوکت ایسی ہی ماؤں کے فرزند تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم ایسی مائیں تیار کرنے کی فکر کررہے ہیں؟
——