ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کاارشاد ہے: ’’روزِ قیامت ترازو میںحسن خلق سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی کہ حسنِ اخلاق والا اپنے حسن خلق سے ہمیشہ کے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔‘‘
حضور اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ کو جب نبی کریم ﷺ نے یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو فرمایا: ’’اے معاذ! لوگوں کے ساتھ اخلاق اچھا رکھنا۔‘‘ اور فرمایا: ’’تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘
انسان کے اخلاق کا اصل مظاہرہ وہاں ہوتا ہے جہاں اس کو ذرا سا اختیار حاصل ہو، اس کے اخلاق کا پتہ یا تو ماتحتوں کے ساتھ چلتا ہے یا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔ یعنی جب انسان کے پاس اختیار اور طاقت بھی ہو تو وہ اپنی طاقت و اختیار کو کس طرح استعمال کرتا ہے اس سے اس کے اخلاق معلوم ہوجاتے ہیں۔ یا غصہ کی حالت میں اس کے رویے سے اس کے اخلاق کا پتہ چلتا ہے۔
ایمان سے بڑھ کر اسلام میں کوئی چیز نہیں لیکن اس کی تکمیل بھی اخلاق ہی ہے۔ حدیثِ پاک ہے ’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔‘‘
حضور اکرمﷺ کے عہد مبارک میں دو عورتیں تھیں۔ ایک رات بھر نماز پڑھتی، دن کو روزہ رکھتی اور صدقہ دیتی مگر اپنی زبان درازی سے پڑوسیوں کا ناک میں دم کیے رکھتی۔ دوسری صرف فرض نماز پڑھتی اور غریبوں کو چند کپڑے بانٹ دیتی۔ رسول اکرمؐ سے ان دونوں کی نسبت پوچھا گیا تو آپؐ نے پہلی کی نسبت فرمایا کہ اس میں کوئی نیکی نہیں، وہ اپنی بدخلقی کی سزا بھگتے گی اور دوسری کی نسبت فرمایا کہ وہ جنتی ہوگی۔‘‘
حسن خلق اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ فرمایا: ’’تم میں سب سے پیارا اور قیامت کے دن نشست میں مجھ سے سب سے نزدیک وہ ہیں جو تم میں خوش اخلاق ہیں اور مجھے ناپسند اور قیامت میں مجھ سے دور وہ ہوں گے جو تم میں بداخلاق ہیں۔‘‘
یہ حضور اکرم ﷺ کاہم پر بلکہ تمام بنی نوع انسان پر ایک احسانِ عظیم ہے کہ ہمیں ایک ایسا ضابطہ اخلاق عطا کیا جسے دنیا کا کوئی گروہ چیلنج نہیں کرسکتا۔ آپؐ کے اخلاق کے بارے میں ازواجِ مطہرات سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا۔ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’کیا انھوں نے قرآن نہیں پڑھا؟‘‘ آپؐ کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا۔
حضور اکرمؓ لوگوں پر رحم فرماتے، مقروضوں کو قرض سے نجات دلاتے، بے کسوں، غریبوں کی اعانت کرتے، مہمانوں کی تواضع کرتے اور حق کی طرف داری کرتے تھے اور لوگوں کے دکھ درد میں کام آتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: ’’جب حضور اکرم کو دو باتوں پر اختیار دیا جاتا تو آپؐ ان میں سے سہل کو اپنالیتے بشرطیکہ اس میں گناہ کا دخل نہ ہو۔ آپؐ بڑے نرم دل تھے، کبھی بھی انتقام لینے کا خیال دل میں نہ آیا۔ یوں اگرکوئی احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اس پر حدود جاری کردیتے لیکن ذاتی بنا پر کسی سے بدلہ نہیں لیا کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں اچھائی و برائی کی جزا و سزا اللہ کے اختیار میں ہے، جو اسی کو زیب دیتی ہے کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے۔‘‘
حضورﷺ کی طبیعت کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ جب بھی مجلس میں بیٹھتے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے تاکہ کسی کی توہین نہ ہو۔ گفتگو اس طرح رک رک کر فرماتے کہ جسے اگر کچھ یاد کرنا ہو تو یاد کرلے اور سمجھ لے۔ خوش خلقی کے ساتھ کلام کرتے، کسی چیز کی ناپسندیدگی کا اظہار نہ فرماتے تاکہ دوسرے کی دل شکنی نہ ہو۔ حضورﷺ تین باتوں سے احتراز کرتے— کسی کو برا نہ کہتے، نہ کسی کی عیب جوئی کرتے اور نہ ہی کسی کے معاملات میں دخل دیتے۔ بقول عبدہ ابی خالہ آپؐ بڑی نرم طبیعت کے مالک تھے، کسی کی تذلیل نہ کرتے تھے اور شکر گزار رہتے، جو سامنے آتا اسے تناول فرمالیتے اور اگر کوئی چیز ناپسند ہوتی تو اس کا اظہار نہ کرتے۔
حضور اکرمﷺ قناعت کا پیکر تھے۔ آپ کو جو مل جاتا اس پر قناعت کرلیتے۔ اگر کچھ بچ جاتا اسے تقسیم کردیتے۔ آپؐ کے پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے صبر تھا، شکر تھا، قناعت تھی۔
اس وصف کے نہ ہونے سے ہم دوسروں کے ساتھ خود بھی حرص کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسلام کسبِ رزق حلال کا حکم دیتا ہے۔ بلاشبہ حضورﷺ کے کام، اقوال و افعال انسان کی اصلاح کے لیے تھے۔ ہمیں چاہیے کہ اخلاقِ حسنہ پر عمل پیرا رہیں اور نیک اعمال سے انسان کے ذہنوں کاتزکیہ کرتے رہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے سورج کی کرنیں مکدر فضا کو صاف کردیتی ہیں۔
——