اسلام دین فطرت ہے اور اس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اسلام نے انسان کے وقار کا نہ صرف پورا پورا خیال رکھا ہے بلکہ اسے عزت و وقار کے ساتھ رہنے کی تاکید بھی کی ہے۔ پردہ کا شرعی حکم بھی عورت کی عزت و کرامت اور اس کے وقار کے پیش نظر دیا گیا ہے۔ پردہ کا مقصد عورتوں پر پابندی لگانا یا انہیں مردوں سے کمتر دکھانا ہرگز نہیں بلکہ ان کی عزت، تکریم اور احترام میں اضافہ ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کو برابر مقام عطا کیا ہے اور صرف عمل کی بنیاد پر فضیلت متعین کی ہے۔
اللہ نے پردہ کا حکم دے کر عورت کو واجب الاحترام اور پوری طرح سے محفوظ کردیا ہے۔ قرآن میں کئی جگہ فرمایا ہے۔ مثلاً:
یَأَیُّہَا النَّبِی قُلْ لأَِزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنیٰ أَنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذِیْنَ۔ (الاحزاب:۵۹)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘
سورہ نور میں فرمایا:
وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ لِیَضْرِبْنَ بِخُمْرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ۔
(النور: ۳۱)
’’اور (مومن عورتیں) اپنی زینت نہ دکھائیں لیکن جو آپ سے آپ کھل جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی نہ چلیں جس سے کہ چھپی ہوئی زینت ظاہر ہوجائے۔‘‘
یہ آیتیں خاص چیزوں کو چھپانے کے لیے ہیں۔ سورئہ احزاب میں گھونگھٹ سے مراد چہرہ کو چھپانا مقصود ہے خواہ گھونگھٹ سے چھپایا جائے یا نقاب سے یا کسی اور طریقے سے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب عورتیں پردہ میں باہر نکلیں گی تو لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ شریف عورتیں ہیں، بے حیا نہیں ہیں۔
سورئہ نور میں بھی زینت سے مراد چہرہ ہی ہے کیونکہ چہرہ ہی عورت کی زینت ہے جس سے وہ خوبصورت نظر آتی ہے اور وہ پہچانی جاتی ہے۔ سورہ نور میں کہا گیا کہ ’’اپنی زینت کو دکھاتی نہ پھرو‘‘ یعنی باہر جاتے وقت وہ اپنے چہروں کو کھلا نہ رکھیں چہرہ ہی فتنہ کا سبب ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی اور عورتوں نے پردہ کا حکم سنا تو کوئی عورت ایسی نہ تھی جو یہ حکم سن کر بیٹھی رہ گئی ہو کسی نے اپنا کمر کا پٹکا کھولا اور اوڑھ لیا کسی نے جلدی سے چادر اوڑھ لی کیونکہ یہ عورتیں پردہ کی اہمیت کو سمجھ گئی تھیں۔ اور انھوں نے اللہ کے حکم کو ماننے میں ذرا بھی دیر نہ کی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی عمل نہیں ہوتا اور بس یہ انتظار رہتا ہے کہ ابھی عمر ہی کیا ہے۔ کچھ لڑکیاں اس وجہ سے پردہ نہیں کرتیں کہ ابھی تو ہم پڑھ رہے ہیں۔ اور ہمارا مذاق اڑایا جائے گا۔ کچھ سوچتی ہیں کہ یہ تو پرانے وقت کی ضرورت تھی آج کا زمانہ تو موڈرن ہے۔ اور کچھ برقع پہنتی بھی ہیں تو وہ اپنے چہرہ کو کھلا رکھتی ہیں۔
حجاب کے فائدے:
۱- حجاب کا سب سے بڑا فائدہ تو وہ عزت و وقار ہے جو ایک با حجاب عورت کو معاشرہ میں اور راہ چلتے حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بے شمار فوائد ہیں جو ذرا غور کرنے سے واضح ہوجاتے ہیں۔ مثلاً: بے پردہ اور بناؤ سنگار کو نمایاں کرنے والی عورتیں ہی صد فیصد جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو پھر بھی وہ لوگوں کی غلط نگاہوں کا ہدف بنتی ہیں۔
۲- حجاب کا استعمال فطری حسن اور رنگ کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعہ مختلف قسم کی ان بیماریوں سے بھی بچا جاسکتا ہے جو ماحولیاتی آلودگی دھوپ اور گرمی کی شدت سے پیدا ہوتی ہیں۔ ٹرین میں سفر کرتے وقت آگرہ کی رہنے والی ایک لڑکی جو اورنگ آباد میں MBBSکی طالب علم تھی سر پر اسکارف لگائے نظر آئی دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میڈیکل نکتہ نظر سے یہ مفید ہے۔
۳-حجاب کے استعمال سے میچنگ سوٹ ، کاسمٹکس اور اس طرح کی بے شمار فضول خرچیوں سے نجات مل جاتی ہے۔
۴- موسم کی شدت سے بچانے کا بھی اہم ترین ذریعہ ہے۔
۵- سب سے بڑا اور اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمارے پیدا کرنے والے کی خوشنودی اور اس کے انعام کا ہمیں مستحق بناتا ہے۔ اور اس کے اس غیض و غضب سے محفوظ کرتا ہے جو بے پردہ خواتین کو آخرت کی زندگی میں ملنے والا ہے۔
بے پردگی کے نقصانات
بے حجابی اور بے پردگی دینی، سماجی اور معاشرتی سطح پر ایک بیماری ہے جس کے ذریعہ سماج اور معاشرہ بیمار ہوجاتا ہے۔ صحت مند اقدار کا فروغ ختم اور سطحی طرز فکر کا عروج ہونے لگتا ہے۔عورتوں اور مردوں کا آزادانہ میل جول اس کا لازمی نتیجہ ہے جو اپنے آپ میں جملہ معاشرتی برائیوں اور بیماریوں کا سبب ہے۔ اگر ان بیماریوں پر ہم نظر کرنا چاہیں تو یورپی معاشرہ کو دیکھ لیں جہاں ایڈز جیسے امراض چیلنج بن گئے ہیں اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔
بے پردگی معاشرہ سے شرم و حیا کے خاتمہ کا ذریعہ بنتی ہے اور مردوں اور عورتوں کو غیر اخلاقیات کے فتنوں میں مبتلا کرتی ہے۔ جو معاشرہ کی تباہی و بربادی کا سبب ہے۔
عورت اگر اپنا مقام و مرتبہ بحال کرنا چاہتی ہے تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ آغوش اسلام میں پناہ لے اور اسلامی تعلیمات کو اپنائے۔ اور پردے کے شرعی احکام پر عمل کرے۔ اللہ کا حکم آجانے کے بعد اسے اپنانے میں مسلم خواتین کو بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ ہماری اخروی فلاح و نجات کا مسئلہ ہے۔ لیکن افسوس کہ آج بے پردہ رہ کر بے شمار مسلم خواتین اللہ کی متعین کردہ حدود کو توڑ رہی ہیں۔ کیا زمانے کے مطابق چلنے کی کوششیں یہی ہیں۔ اور ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم شرم و حیا کو تیاگ دیں؛ کیا ہمیں اللہ کے پاس نہیں جانا ہے؟ کیا ہمیں اللہ کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے؟ ہمیں ذرا ان سوالوں پر غور کرنا چاہیے اور لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے اللہ کی رضا کے لیے ہر کام کرنا چاہیے کیونکہ ہماری آخری منزل وہی ہے۔