حقوقِ نسواں کا محافظ- اسلام

ڈاکٹر غافل انصاری

فطرت کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ پیدا ہونے سے بوڑھی ہوکر مرنے تک عورت کو کئی روپ اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ ماں باپ کی گود میں وہ بیٹی ہوتی ہے، بھائیوں کے درمیان بہن ہوتی ہے، شوہر کے گھر گئی تو بیوی اور بہو بن گئی۔ بچے ہوئے تو ماں اور جب بوڑھی ہوئی تو دادی نانی بن جاتی ہے۔ رشتوں میں تو اتنے موڑ ضرور نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے میدانِ عمل بس دو ہی ہیں۔ مائیکے کی چہار دیواری اور اس سے نکلی تو سسرال کی چہار دیواری میں داخل ہوگئی۔ وہاں سے نکلی تو قبر کے صندوق میں بند ہوگئی۔

آج کے روشن خیال لوگ اس نظام فطرت سے بیزار ہیں۔ وہ عورت کو دنیا کے وسیع و عریض پنڈال میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بازاروں میں، مزاروں پر، ہوٹلوں کے اندر، ایکٹنگ اور کیمرے کے توسط سے شہرت کے بام عروج پر، فلموں کی عریانیت میں اور چھوٹی بڑی ہر چیز کے اشتہار میں عورت کے نیم عریاں بدن کی نمائش کے خواہاں رہتے ہیں اور اس کیفیت کو وہ آزادیٔ نسواں کا عنوان دیتے ہیں اور فطرت سے بغاوت کو روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ جان، مال، عزت، آبرو کی حفاظت تو دور، خود مردوں کو ہاٹوں، بازاروں، کلبوں، تھیٹروں اور اثنائے سفر میں اپنے مال کی حفاظت کرنی مشکل ہوتی ہے۔ تجارت کے لیے نکلتے ہیں تو پیسے کی جگہ ڈرافٹ لے کر چلتے ہیں۔ جان کی حفاظت کے لیے آتشیں اسلحہ رکھتے ہیں تو پھر عورت جسے اللہ نے نازک اندام، پرکشش، کم ذہن و کم ہمّت بنایا ہے اپنا اور اپنے حقوق کا تحفظ باہر نکل کر کس طرح کرسکتی ہے۔ مردوں کے پاس جانے کے لیے جان ومال کے علاوہ کیا ہوتا ہے، عورت کے پاس عفت، عصمت اور آبرو مرد سے سوا ہوتی ہے، جس کے لٹنے کا خطرہ قدم قدم پر موجود رہتا ہے۔ اور پھر سخت سے سخت مزاج مرد نما عورتیں بھی دل سے کتنی کمزور ہوتی ہیں اس کا مشاہدہ ہر ایک کو ہے کہ شروع میں تو وہ گرجتی چیختی اور دہاڑتی ہیں لیکن اگلے ہی لمحہ منھ بسورے ٹسوے بہائے خوشامدی انداز اپنائے نظر آتی ہیں۔ کسی بدقماش کے ساتھ ہاتھا پائی کرپانے کی ہمّت ان میں نہیں ہوتی۔ عو رت کی اسی نسوانی کمزوری نے اسے پولس تھانہ عدالت اور وکیلوں کے پاس پہنچایا ہے۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ بینک چیک بک، اے ٹی ایم کارڈ، منی پرس اور لاکر کی چابیاں کسی عورت کی جان مال عزت و آبرو کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔ مرد ان کی حفاظت کیسے کرتے ہیں کیا لوگ کھلے عام انھیں لیے لیے سڑک پر پھرتے ہیں۔ اگر نہیں تو بیوی ہی کو کھلے عام سڑک پر ٹہلانے کے لیے اتارو کیوں ہیں؟ آئے دن ایسے واقعات آپ اخباروں اور رسالوں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں کی بیوی چار بچے چھوڑ کر شوہر کے گھر سے فرار ہوگئی، لڑکی کالج پاکر تھیٹر یا سہیلی کے یہاں سے غائب ہوگئی۔ ابھی پاس کی دوکان سے بریڈ لینے گئی تھی، اغوا ہوگئی۔ کبھی سوچا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ خود ہے، آپ ہیں، آپ کا سماج آپ کا معاشرہ اور آزادیٔ نسواں کی خواہش ایسے واقعات کا سبب ہوتی ہے۔

اکثر و بیشتر آزادیٔ نسواں کی گونج سنائی دیتی ہے اس لیے ضرور ہے کہ آزادی کی کوئی حتمی تعریف طے کرلی جائے۔ ہمارے ملک سے انگریز چلے گئے ہمارے ملک کو آزادی مل گئی لیکن ذرا ٹھہریے، غور تو کیجیے ان کا لباس یہیں ہے، ان کی زبان نہیں گئی، ان کا کلچر نہیںگیا۔ ان کی عریانیت نہیں گئی، ان کا چائیلڈ ابیوز (Child Abuse) نہیں گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے جانے کے بعد اس میں اور اضافہ ہوا ہے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ ان کے رہتے تو ہندوستانی سماج کو اپنے تحفظ کا خیال بھی رہا اب تو وہ بھی نہیں ہے۔ انگریزوں کا ہمارے ملک میں جسم و جان واقتدار کے علاوہ سب کچھ موجود ہے لیکن ہماری اپنی زبان ہمارا اپنا کلچر ہمارا اپنا مذہب ہمارا اپنا پردہ ہمارا اپنا اکل حلال ہمارا اپنا صدق مقال سب کچھ ہم سے روٹھ گیا۔

ہمارا ملک مذہبی سمجھا جانے والا ملک ہے۔ اہلِ وطن کی آبادی تقریباً اسّی فیصد ہے اور ان کے پاس مذہبی کتابیں وید، گیتا اور منوسمرتی موجود ہیں لیکن اہلِ وطن میں کتنے ایسے لوگ ہیں۔ جو ان قوانین کے واقف کار کہے جاسکتے ہیں؟ سبھی برہمن بھی تو انھیں نہیں جانتے جن کی مجموعی آبادی سات آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں۔ دوسری ہندو قوموں اور عورتوں کو تو انھیں جاننے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ کیونکہ ان کے یہاں ایسا کوئی مذہبی ضابطہ ہی نہیں بلکہ الٹے یہ لکھا ہے کہ اگر شودر علم حاصل کرے تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جائے۔اکلیو کا انگوٹھا کاٹا جانا اس معاشرہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ تو اگر ان کی عورتیں یہود و نصاریٰ کے طرز پر بازاروں میں نیم عریاں پھرتی ہیں تو ان پر شاستروں کی طرف سے کوئی گرفت نہیں۔

مسلمانوں کی قانونی کتابیں قرآن و حدیث ہیں۔ ان میں عورتوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ قرآن کریم میں سورئہ نسا اور سورہ مریم ہیں۔ احادیث میں علم حاصل کرنے کی تاکید عورتوں کے لیے بھی ہے اس لیے عورتوں کو اپنے حقوق کی معلومات کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔ مسلم عورت کی بے راہ روی اگرچہ عالمی اطوار کی مرہونِ منت ہے تاہم مسلم مرد کو بھی اس کے لیے ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام اور گھر کا سربراہ بنایا ہے۔ اور اس کو اپنے اہل و عیال کے سلسلہ میں جواب دہ بھی بنایا ہے۔ اس لیے مردوں کی طرف سے اس سلسلہ میں برتی جارہی لاپرواہی، بے پردگی کے ماحول سے سمجھوتہ اور شریعت کی عدم واقفیت میں مسلم عورت کی بے راہ روی میں ان کے کفیل مرد برابر کے مجرم ہیں۔ آخرت میں اس کی باز پرس مردوں سے بھی ہوگی۔

آخرت کی باز پرس اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔ اہلِ وطن کے لیے دنیا اس دن سورگ ہے جس دن وہ آرام و راحت میں ہوں اور دوسرے روز جب وہ تکلیف اور مشکلات میں ہوں۔ وہ خود کو نرک میں مانتے ہیں۔ اسلام ان دونوں کیفیات کو آزمائش و امتحان سمجھتا ہے۔ اولاد نعمت ہے صدقہ جاریہ ہے اگر والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے ورنہ فتنہ ہے اگر منھ زور، نافرمان ہے، وبالِ جان ہے۔ عورت کے لیے صاف لکھا ہے کہ شوہر کی فرمانبرداری عزت و آبرو کی حفاظت اور اللہ کی عبادت کرتی رہی تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ لہٰذا مسلم عورت آزاد ہے اپنے حقوق کے حصول کے لیے لیکن آزاد نہیں ہے برائیوں کو اختیار کرنے اور خدائی احکام سے بغاوت کرنے کے لیے۔

ایسا نہیں ہے کہ عورت کے بشری تقاضے نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں لیکن ان کے حل کتاب و سنت میں موجود ہیں۔ بیٹی ہے تو اس کا باپ اس کی پرورش، کفالت ، تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہے۔ شادی ہوئی یہ ذمہ داری شوہر کی طرف منتقل ہوگئی اور طلاق مل گئی یا بیوہ ہوگی تو اہلِ مائیکہ پر کفالت کی ذمہ داری آگئی، لہٰذا خوردونوش سے وہ بے فکر رہتی ہے۔ اس کے بعد اگر طلاق کی صورت میںبچے تھے سو باپ پر ان کی ذمہ داری ہے ماں پر نہیں۔ ماں کماتی کب ہے؟ پیسہ کی ضرورت کسے نہیں ہوتی؟ سو گھر کے اندر وہ کسبِ معاش اختیار کرسکتی ہے، میراث میں باپ کے ترکہ میں حصہ، ماں مرے تو ماں کے ترکہ میں حصہ، شوہر مرے تو بیوی کا حق میراث، بیٹا بیٹی مرے تو ماں کی حیثیت سے وہ حصہ پانے کی حق دار قرار دی گئی ہے۔ بوڑھی کمزور بیوہ کے لیے اس کی اولاد کو کفیل ٹھہرایا گیا ہے۔ ماں سے چھوٹے بچے بڑے ہوکر ماں کو پہچانیں گے ان بچوں پر ماں کی خدمت کی ذمہ داری آجاتی ہے۔ اور پھر

اگر طلاق کی صورت میں عورت کو ایمانداری سے صرف قنطار ہی دلادیا جائے تو کوئی شاہ بانو نہ بن پائے گی۔ قنطار مائیکہ سے لایا گیا جہیز کا مال ہی نہیں ہوتا، طلاق کے دن تک سسرالیوں کی طرف سے جتنے زیور، کپڑے، نقد، تحائف عورت کو دیے جاتے ہیں یہ بھی عورت کا قنطار ہے۔ عورت کی ملکیت ہے طلاق کی صورت میں عورت کو اسے دیے جانے کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ عام طور سے عورت کے سسرال والے اپنے گھر کے زیور کپڑے اور تحائف روک لیتے ہیں۔ شریعت کی نظر میں یہ ظلم ہے۔ قابلِ مواخذہ ہے، اس کی خیانت عام ہے۔ عورت کو اپنے حقوق جاننے چاہئیں۔

پرورش، تعلیم و تربیت، حق قنطار، حقِ میرات کیا نہیں دیا شریعت نے عورت کو۔ کسبِ معاش کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی گئی۔ اب اگر متذکرہ اور دیگر حقوق کے بارے میں وہ جانتی نہیں تو جانے، مانگتی نہیں تو مانگے، پاتی نہیں تو خاندان، گھر اور سماج کے خلاف جدوجہد کرے اور اپنے حقوق حاصل کرے۔ اسے قرآن و حدیث پڑھنا اور سیکھنا ہوگا۔ استحصال اسی کا ہوتا ہے جسے معلومات نہیں ہوتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حقوقِ نسواں کا تحفظ صرف شریعت اسلامیہ کے پاس ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146