اس دنیائے فانی میں جتنے رشتے ناطے ہیں، ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو کسی نہ کسی غرض یا مصلحت کے تحت بندھے ہوئے ہیں مگر ماں باپ کا رشتہ بغیر کسی غرض کے سر پر سائبان کی طرح قائم رہتا ہے۔ جو تمام تر تصنع اور بناوٹ سے پاک ہے۔
والدین کا رشتہ تمام رشتوں پر غالب ہے۔ اسے ہر رشتے پر فوقیت دی گئی ہے۔ والدین اولاد کے لیے ہر طرح کی تکلیفیں اور پریشانیاں اٹھاکر اولاد کی پرورش کرتے ہیں، اسی لیے قرآن و حدیث میں بڑی تاکید اور اہمیت آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’تم اپنے پیدا کرنے والے، پالنے والے اور پرورش کرنے والے کی بندگی، فرمانبرداری اور اطاعت کیا کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ آگے ارشاد ہے۔ ’’اور اگر تیرے سامنے یہ دونوں (ماں باپ) یا اُن میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو انھیں کبھی اُف مت کہنا اور نہ کبھی انھیں جھڑکنا، بلکہ ان سے خوب ادب و احترام کے ساتھ گفتگو کرنا۔ اور ان کے سامنے شفقت و انکساری کے ساتھ جھکے رہنا۔ اور ان کے لیے دعا کرنا۔ رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا۔ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت نازل فرما جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا اور پرورش کیا۔ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’میرا شکر کر اور اپنے والدین کا احسان مند رہ، میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ اچھے سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ یہ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ اس نصیحت پر کتنا عمل پیرا ہوتی ہے۔ اور دین و دنیا و آخرت دونوں کو سنوارتی ہے۔ احادیث میں بھی نبیﷺ نے ترغیب و ترہیب کے انداز میں والدین کے حقوق پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضورﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول! والدین کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ تمہاری جنت ہیں اور وہی تمہاری دوزخ ہیں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان کی خدمت اور فرمانبرداری کریں گے تو ہمیں جنت ملے گی اور اگر ہم ان کی نافرمانی کریں گے تو ہمارا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! بہترین عمل کیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے پوچھا اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کونسا عمل؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘
حضورﷺ ایک مرتبہ خطبہ کے لیے منبر پر چڑھے۔ پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین! پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو کہا: آمین! پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو کہا: آمین! جب آپ خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے تشریف لائے تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آج ہم نے آپ سے ایک نئی بات دیکھی ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے فرمایا کیا: صحابہ نے عرض کیا آج آپؐ خلافِ معمول منبر پر چڑھتے وقت آمین کہہ رہے تھے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں اس وقت حضرت جبرئیل ؑ میرے پاس آئے تھے جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل ؑ نے فرمایا: ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان کا مبارک مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کروائے۔ تو میں نے کہا: آمین۔ دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل ؑ نے فرمایا: ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکرِ مبارک ہو اور وہ آپؐ پر درود نہ بھیجے۔ تو میں نے کہا: آمین۔ تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل ؑ نے فرمایا: ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے اور وہ ان کی خدمت کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنالے تو میں نے کہا: آمین!
اندازہ کیجیے کہ جبرئیلؑ کی بددعا اور آپؐ کا اس پر آمین کہنا۔ اس کے قبول ہونے میں کیا شک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اللہ کی رضا مندی ماں باپ کی رضا مندی میں اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے والدین کے معاملے میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ صبح کی اس کے لیے جنت کے دروازے کھل گئے۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک ہو تو ایک کھلا۔ اور جس نے والدین کے معاملے میں اللہ کی نافرمانی کے ساتھ صبح کی تو اس کے لیے جہنم کے دروازے کھل گئے اگر والدین میں سے کوئی ایک ہو تو ایک کھلا۔ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں۔ تو آپؐ نے فرمایا: اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔ (بیہقی)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے والدین کو شفقت کی نظر سے دیکھے اللہ تعالیٰ اس کو ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ اگر کوئی ہر دن سو مرتبہ دیکھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں، اللہ تعالیٰ کی بخشش تمہارے تصور سے بڑھ کر ہے۔
ماں باپ کی نافرمانی کتنا خطرناک گناہ ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ حضرت علقمہؓ جو کہ نماز روزے کے پابند ہیں، آخری وقت آیا تو زبان پر کلمہ جاری نہ ہوتا تھا۔ آپؐ کو جب معلوم ہوا تو آپؐ نے دریافت کیا کیا ان کے والدین زندہ ہیں؟ اس وقت ان کی والدہ زندہ تھیں، اور ان سے کچھ ناراض تھیں۔ آپؐ کے کہنے پر ان کی والدہ نے انھیں معاف کردیا، تب کہیں جاکر علقمہؓ کی زبان پر کلمہ جاری ہوا۔ اولاد کی بھلائی اسی میں ہے کہ قرآن و احادیث پر عمل پیرا ہوکر والدین کے حقوق ادا کریں اور خود کو جنت کا مستحق بنالیں نیز اس بات کی بھی خدا سے توفیق طلب کریں کہ ان کی نافرمانی نہ ہو۔ اگر اولاد ہمیشہ اپنے بچپن اور اس دور کے والدین کے احسانات کو ذہن میں تازہ رکھیں تو یہ چیز نافرمانی سے بچانے اور جذبہ خدمت کو ابھارنے اور قائم رکھنے میں معاون ہوگی۔
وما توفیقی الاباللّٰہ۔