ایک سچے مسلمان کے لیے جہاں یہ لازم ہے کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کرے، اسی کی حاکمیت تسلیم کرے، اسی کی اطاعت قبول کرے، اسی سے خوف کھائے، اسی سے محبت کرے اور اسی ذات واحد سے امیدیں وابستہ کرے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرے، اپنے ماں باپ کا معروف میں حکم مانے، بہن بھائیوں سے محبت و شفقت سے پیش آئے، رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے، پڑوسیوں سے اچھا تعلق رکھے اور ان کے دکھ درد میں کام آئے اور عام انسانوں سے محبت اور ان کی خیرخواہی کرے۔
اسی لیے اسلامی معاشرے میں باہمی حقوق کا بہت لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور اسلام کی نظر میں وہی معاشرہ کامیاب معاشرہ ہے جس میں سب ایک دوسرے کے حقوق پہنچانتے ہوں اور ان کا پاس و لحاظ رکھتے ہوں۔ سورئہ النساء میں ارشاد خداوندی ہے:
’’اور بندگی کرو اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور حسن سلوک کی روش اپناؤ ماں باپ کے ساتھ اور قرابت داروں کے ساتھ اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور رشتہ دار پڑوسی کے ساتھ اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ اور پاس کے ساتھی اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کی ملک (یعنی غلاموں اور باندیوں) کے ساتھ۔ اللہ پسند نہیں کرتا شیخی بگھارنے والے مغرور لوگوں کو۔‘‘ (النساء: ۳۶)
انسان کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک میںیہ شامل ہے کہ ایک دوسرے کے کام آیا جائے اور بہ وقت ضرورت مدد فراہم کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایک سے زیادہ مقامات پر مال خرچ کرنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’نیکی اس چیز کا نام نہیں کہ تم اپنے چہروں کو پھیرلو پورب یا پچھم کی طرف، نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر،فرشتوں پر،کتاب پر، نبیوں پر اور مال دے اس کی حاجت کے باوجود رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافر کو اور مانگنے والوں کو اور (غلامی یا قرض سے) گردنیں چھڑانے میں۔‘‘ (البقرہ:۱۷۷)
دوسرے مقام پر غلامی یا قرض سے گردن چھڑانے اور یتیموں اور مسکینوں کو کھلانے پلانے کو اس شوار گزار گھاٹی سے تعبیر کیا گیا ہے جسے پار کیے بغیر کوئی شخص کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔
یتیم کو دھکے دینے والے کو قرآن روز جزا کا منکر قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تو نے دیکھا اس شخص کو جو جھٹلاتا ہے روزجزا کو یہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور محتاج کو کھلانے پلانے کی تاکید نہیں کرتا۔‘‘ (ماعون: ۱-۳)
انسان بندگان خدا کے ساتھ سنگ دلی کی یہ روش اسی وقت اختیار کرتا ہے جب کہ وہ مال کی بیجا محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ قرآن اس طرز عمل کو کافروں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے اس پر ان لفظوں میں تنقید کرتا ہے:
’’کچھ نہیں بلکہ تم یتیم کو عزت سے نہیں رکھتے اور آپس میں محتاجوں کو کھلانے کی تاکید نہیں کرتے اور میراث کا مال کھاجاتے ہو اور مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔‘‘ (فجر: ۱۷، ۲۵)
ایمان کے بعد بندوں کی خدمت سب سے بڑی نیکی ہے اور جو لوگ نیکی کا یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں۔ وہ اللہ کی رضاو خوشنودی حاصل کریں گے اور اس کے انعامات کے حقدار بنیں گے۔
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقوق العباد سے غفلت نہ برتے، اس لیے کہ حقوق العباد وہ گناہ ہے جسے اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس کسی نے اپنے کسی بھائی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی اس کی آبرو کو بٹہ لگایا یا کسی اور معاملہ میں حق تلفی کی ہو تو اس کو چاہیے کہ آج ہی اور اسی زندگی میں اس سے معاملہ صاف کرلے آخرت میں اس دن کے آنے سے پہلے، جب اس کے پاس ادا کرنے کے لیے دینارو درہم کچھ بھی نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری)
اور ایک حدیث میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:
’’وہ اعمال نامے جن میں بندوں کے گناہ لکھے گئے ہیں تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کی ہر گز معافی اور بخشش نہ ہوگی۔ وہ ’’شرک‘‘ ہے۔دوسرے گناہوں کی وہ فہرست ہے جس کو اللہ تعالیٰ انصاف کے بغیر نہ چھوڑے گا وہ بندوں کے باہمی مظالم، زیادتیاں اور حق تلفیاں ہیں۔ ان کا بدلہ ضرور دلا یا جائے گا۔ اور تیسرے وہ گناہ ہیں جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور پرواہ نہیں۔ یہ بندوں کے وہ گناہ اور تقصیرات ہیں جن کاتعلق بس ان سے اور ان کے اللہ سے ہے۔ ان کے بارے میں فیصلہ بس اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو بالکل معاف کردے۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا:
’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ (اس لیے) نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے اور نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اس کوبے یارومددگار چھوڑے۔ اور جوکوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرے گا اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور پریشانی کو دور کرے گا اللہ قیامت کے دن کی مصیبتوں میں اس کی کسی مصیبت کو دور کرے گا، اور جوکسی مسلمان کی پردہ داری کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ داری کرے گا۔‘‘ (مسلم )
ان احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ بندوں کے حقوق کو ادا کرنا اسلام میں کس قدر اہم ہے۔ اور اس کے پیچھے جو مضبوط مقصد ہے وہ ایک مستحکم معاشرہ کی تعمیر ہے جہاں بغض و حسد کے بجائے باہمی اخوت و محبت ہو اور جہاں برائیوں کے بجائے خیراور اچھائیوں کا فروغ ہو۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور باہمی خیر خواہی ایک مضبوط معاشرہ کو جنم دیتے ہیں جو دنیا و آخرت کی فلاح کا ضامن ہوتا ہے۔