عَنْ اَبِیْ ہُرَیْــرَۃَ قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنِّی اِتَّخَذْتُ عِنْدَکَ عَہَداً لَنْ تُخْلِفَنِیْہِ۔ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ، فَاَیُّ الْمُسْلِمِیْنَ آذَیْتُہٗ شَتَمْتُہٗ لَعَنْتُہٗ جَلَدْتُہٗ فَاجْعَلُہَا لَہٗ صَلوٰۃً وَزَکوٰۃً وَقُرْبَۃً تُقَرِّبُہُ بِِہَا اِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (متفق علیہ)
’’ ابوہریرہؓ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب سے یہ کہا۔(ترجمہ): اے اللہ میں نے تجھ سے ایک وعدہ لے لیا ہے (قبولیتِ دعا کا وعدہ) جس کی تو ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا، میں انسان ہی ہوں، تو جس کسی مسلم کو میں نے ناحق تکلیف دہ بات کہی ہو، برا بھلا کہا ہو، اس پر لعنت کی ہو، اسے کوڑے مارے ہوں، تو میرے اس فعل کو اس مظلوم کے لیے قیامت کے دن اپنی رحمت، مغفرت اور قربت کا ذریعہ بنادے۔
یہاں پر مرض الموت کا واقعہ سننے کے لائق ہے۔ نبیﷺ شدید بخار میں مبتلا ہیں، سر میں بے پناہ درد ہے، درد کی شدت کی وجہ سے سر پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ ایسی حالت میں آپؐ اپنے چچازاد بھائی فضل بن عباس سے کہتے ہیں مجھے لے چل کر مسجد کے منبر پر بٹھاؤ اور اعلان کرو کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، لوگ یوں ہی آپؐ کی بیماری سے پریشان ہیں، مدینہ میں کون آنے سے رہ گیا ہوگا۔ اعلان سن کر! جب سب لوگ جمع ہوگئے تو اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا:’’میں تمہارے درمیان سے جلد چلا جانے والا ہوں، پس جس کسی کی پیٹھ پر میں نے کوڑا مارا ہو، تو یہ محمد کی پیٹھ حاضر ہے اور جس کسی کو میں نے ناحق برا بھلا کہا ہو تو میں یہاں موجود ہوں اور جس کسی کا میرے ذمہ کوئی مال ہو تو وہ مجھ سے وصول کرلے اور میری طرف سے دشمنی کا اندیشہ نہ کرے اس لیے کہ یہ میری شانِ نبوت کے منافی ہے، تم میں سب سے زیادہ میرا محبوب وہ ہے، جو مجھ سے یہیں دنیا میں اپنا حق وصول کرلے یا دل سے معاف کردے تاکہ میں اپنے رب کے پاس خوش خوش جاؤں۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! جس نے کسی کا حق دبالیا ہو، وہ صاحبِ حق کو لوٹا دے اور اسے دنیا میں رسوائی سے جھجک نہ ہو، ور نہ پھر آخرت کی رسوائی کے لیے تیار رہے، جہاں کی رسوائی دنیا کی رسوائی سے سخت تر اور شدید تر ہوگی۔