کسی دانا نے کہا ہے کہ جب میں کسی معصوم بچی کو باپ کی انگلی پکڑ کر چلتے ہوئے کلکاریاں مارتے دیکھتا ہوں تو بے اختیار درود پڑھتا ہوں۔ جی ہاں! میرا دھیان فوراً رسول پاکؐ کی طرف چلا جاتا ہے جنہوں نے لڑکیوں کی پرورش کو جنت کی ضمانت قرار دیا۔ اور وہ بھی ایسے دور میں جب کہ معصوم لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا اور آج جب کہ لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ میرے دل میں اس عظیم ہستی کی عظمت اور بڑھ جاتی ہے، جس نے عورت کو زندگی جینے کے بنیادی حق سے لے کر سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی آزادی عطا فرمائی اور عورت کو بھی دین میں مرد کے برابر مقام اور مرتبہ اور حقوق دیے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب نے خواتین کی بے پناہ جدوجہد کے بعد ان کو حقوق دیے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی بے شمار حقوق ہیں، جو ان کو ہنوز حاصل نہیں ہیں۔ مغرب نے خواتین کی بے پناہ جدوجہد کے بعدان کے کئی حقوق تسلیم کیے ہیں۔ مثلاً:
٭ ۱۹۲۰ء میں امریکہ نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا۔ اس طرح جو حق مسلم خواتین کو حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے لیے بیعت کے ذریعے ڈیڑھ ہزار سال پہلے حاصل ہوا، وہ اقوام عالم نے بیسویں صدی میں تسلیم کیا۔
٭ ۱۹۳۵ء تک برطانیہ کے قانون کے مطابق ایک غیر منکوحہ عورت تو جائداد رکھ سکتی تھی، معاہدہ اور مقدمہ کرسکتی تھی لیکن اب شادی شدہ عورت کیوں کہ اپنے نام اور جائداد سے شوہر کے حق میں دست بردار ہوجاتی ہے لہٰذا وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔
٭ امریکی قانون کے مطابق بیوی بچے اسباب کی طرح مرد کی ملکیت سمجھے جاتے تھے۔ عورت کو یہ حق ۱۸۵۴ء میں حاصل ہوا کہ وہ اپنے جائداد کی خود مالک ہے، البتہ طلاق کی صورت میں بچے اور جائداد پر شوہر کا قانونی حق ہوگا۔
٭ ۱۹۶۳ء میں مردوں اور خواتین کو ملازمتوں میں برابر اجرت دینے کا قانون “equal pay act” منظور کیا گیا، مگر اس کے باوجود ۱۹۷۰ء تک خواتین کو مردوں کے مقابلے میں ۴۵ فیصد کم تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔ ۱۹۸۸ء تک یہ تناسب ۳۲ فیصد تھا۔
٭ امریکہ کی بعض ریاستوں میں یہ قانون تھا کہ بیوی اگر شوہر کا قتل کردے تو قتل کا کیس درج ہوگا، لیکن شوہر بیوی کو قتل کردے تو ’’جذبات میں قتل‘‘ کہا جائے گا۔
٭ ۱۹۸۰ء تک امریکہ میں خواتین ڈاکٹرز کا تناسب ۱۷ فیصد اور مغربی جرمنی میں ۲۰ فیصد تھا۔ ۱۹۳۶ء تک امریکہ میں خواتین وکلا اور ججوں کا تناسب دو فیصد تھا۔
۱۹۳۰ء تک امریکہ میں کوئی انجینئر خاتون نہ تھی، جب کہ ۱۹۸۹ء میں یہ تناسب پانچ تا سات فیصد تھا۔
حقوق کی اس تمام جدوجہد کے بعد ۸؍ مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اور خواتین کو روایتی طرزِ فکر سے نجات دلانے کے لیے نئے طرز کی قانون سازی شروع ہوئی۔ لیکن اس صورت میں حقوق قانونی طور پر تو دیے جاسکتے ہیں ان پر عمل درآمد کروانا انسانی معاشرے کے لیے آسان نہیں۔ جب کہ دوسری طرف اسلام ہے جس نے یہ حقوق بغیر کسی احتجاج کے دیے اور پھر ان کا نافذ کرنے کے لیے اس کو قرآن کا حصہ بنایا، اور عدم ادائیگی کو دنیا اور آخرت دونوں جہان میں قابل تعزیر جرم قرار دیا۔ قرآن نے خواتین اور نسوانیت کی تکریم کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔ اس میں معاشرتی حقوق اور معاملات کی اصلاح کے ساتھ ساتھ صالح مومنات کی صفات قرآن میں بیان کیں اور اجر آخرت میں برابری کی خوش خبری دی۔ لیکن ان سب کے ساتھ اہم ترین کام جو قرآن نے کیا وہ خواتین کے بارے میں غلط نظریات کی اصلاح ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا عورت کو حقوق دینے کی دعویدار ہونے کے باوجود ان کے بارے میں رائج غلط نظریات کی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھاتی نظر نہیں آتی۔
اسلام سے پہلے روم کے علماء و فلاسفر اس بات پر باقاعدہ مباحثے کیا کرتے تھے کہ عورت انسان ہے بھی یا نہیں۔ نظریے کی اسی خرابی کی وجہ سے مرد جب چاہتا عورت کے گلے میں رسی باندھ کر اسے جانوروں کے ساتھ درخت سے باندھ دیتا اور اس کی تکلیف پر قہقہے لگائے جاتے۔ ہندومت میں عورت کو موجب ہلاکت کہا گیا ہے۔ قرآن نے سب سے پہلے اس نظریے کی اصلاح کی کہ عورت اپنی تخلیق کے اعتبار سے مرد سے کسی بھی طور کم نہیں۔
’’اور اللہ ہی ہے جس نے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور انہی بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے دیے۔‘‘ (النحل:۷۲)
’’اس نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔‘‘ (النجم:۴۵،۴۶)
مسیحی معاشرے میں رائج نظریے نے بھی معاشرے میں عورت کے مقام کو گرا دیا۔ ’’وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوعہ کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی۔‘‘
قرآن نے اس نظریے کی بھی نفی کی۔ سورہ الاعراف آیت بیس تا تئیس میں پورے واقعے کو تفصیل سے درج کیا اور تنبیہ کا صیغہ استعمال کیا کہ شیطان نے دونوں کو بہکایا۔ قرآنی آیات سے کہیں معمولی سا بھی شبہ نہیں ہوتا کہ حضرت آدم نے اماں حوا کے کہنے پر شجر ممنوعہ کا پھل کھایا ہو۔
’’آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہماری پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔‘‘ (البقرۃ:۳۶)
ولادت کی تکلیف بھی عورت کو اسی گناہ کی سزا کے طور پر لکھ دی گئی کہ اس نے آدم کو جنت سے نکلوایا۔ اس نظریے کی اسلام نے نہ صرف نفی کی بلکہ اس تکلیف کے باعث ماں کے درجے کو باپ سے بلند کر دیا۔ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے پوچھا: ’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا، آپ نے پھر یہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا: ’’تیرا باپ۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ یہ تین فضیلتیں ماں کو حمل، زچگی اور رضاعت کی تکلیف کی وجہ سے دی گئی ہیں۔ یعنی جس بات پر دوسروں نے اس کو ملامت زدہ بنایا اس کو اسلام نے اس کی عظمت بنا دیا۔
’’ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ اس لیے ہم نے اسے نصیحت کی کہ میرا شکر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا۔‘‘ (القرآن)
عیسائیت کی تعلیمات کے مطابق عورت کو ذلت کا باعث گناہ کی جڑ، برائی کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ سمجھا جاتا اور اس سے تعلق رکھنے کو معیوب خیال کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۷ میں فرماتے ہیں:’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘
یعنی لباس کی طرح تم ایک دوسرے کی پردہ پوشی بھی کرتے ہو، زینت بھی ہو اور عصمتوں کے محافظ بھی ہو۔
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنت سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔‘‘ (الاعراف:۱۸۹)
آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو عورتوں کے حقوق سے زیادہ اہم مسئلہ ان کی اس عزت و احترام کا ہے جسے چہار سو پامال کیا جا رہا ہے۔ جدید نظریات بھی کسی طرح خواتین کو احترام دینے کے لیے تیار نہیں۔ عورت اگر دو اور تین بچوں کی ولادت کے بعد حاملہ ہو تو ہر طرف اسے تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ اگر تعلیم یافتہ ہو اور نوکری کرنے کے بجائے بچوں کی پرورش کے لیے گھر کے محاذ پر ڈٹ جائے تو اس کو احمق خیال کیا جاتا ہے۔ وہ نوکری کرے تو اپنے ساتھ کام کرنے والے مردوں کی تضحیک کا نشانہ بنتی ہے۔ سرمایہ دار نے اشتہارات میں اسے ایک بکاؤ مال بنا دیا ہے۔ آج کی عورت کو حقوق نہیں بلکہ اس عزت و وقار کے لیے جنگ کرنی پڑے گی جو اس سے چھین لیا گیا ہے۔lll